پارا چنار میں نفرت نے حملہ کر کے دہشت پھیلا دی ہے


\"\"کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار کی سبزی منڈی میں آج صبح ایک بم دھماکہ میں 25 افراد جاں بحق اور 49 زخمی ہوئے ہیں۔ درجن بھر زخمیوں کو نازک حالت میں پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ لشکر جھنگوی العالمی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اخبارات کو بھیجی جانے والی ایک ای میل میں اس گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یہ حملہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مل کر کیا ہے۔ آج اس دہشت گرد حملہ سے دو باتیں واضح ہو گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردوں کا صفایا کرنے اور دہشت گردی کی خلاف جنگ جیتنے کے دعوے قبل از وقت ہیں۔ پاکستان کو ان عناصر سے نجات حاصل کرنے کےلئے مستعدی سے مزید کارروائی کرنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دوسری یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے عوام جن دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، فرقہ وارانہ منافرت بھی اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔ اسی لئے لشکر جھنگوی جو پنجاب کے ایک شہر سے اہل تشیع کے خلاف ابھرنے والا ایک گروہ تھا، اب تحریک طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کوئٹہ میں ہونے والے حملوں میں اس گروہ کا نام سامنے آ چکا ہے۔ اس کے باوجود وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان گزشتہ دنوں اصرار کرتے رہے ہیں کہ فرقہ واریت کو دہشت گردی کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔

امید کرنی چاہئے کہ وزیر داخلہ اس اندوہناک حملہ کے بعد اب اپنی اصلاح کر لیں گے اور ایک تجربہ کار سیاستدان اور بہتر منتظم کے طور پر یہ تسلیم کر لیں گے کہ عصبیت اور نفرت خواہ کسی بھی طرح سے عام کی جائے، اس کے نتیجے میں انتشار اور خوں ریزی ہی جنم لے گی۔ یہی مزاج منظم گروہوں کی شکل میں لوگوں کو قتل کرنے اور اختلافی رائے کو بزور شمشیر مسترد کرنے کا رویہ اختیار کرکے دہشت گردی کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اصولی طور پر دہشت گردی، فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی تعصب کا شکار ملک کے کسی وزیر کو اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ چوہدری نثار علی خان بوجوہ یہ احتیاط برتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کی ایک وجہ ان کا متکبرانہ انداز سیاست بھی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی کسی بات یا فیصلے کو غلط سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ انہیں ملک کے ایک فرقہ پرست لیڈر مولانا احمد لدھیانوی کے ساتھ ملاقات کرنے اور اس کے گروہ کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے الزامات کا سامنا تھا۔ یہ وقوعہ ایک ایسے وقت پیش آیا تھا جب کہ دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ تھی اور ہر طرح کے اجتماع کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ بلکہ عمران خان کی طرف سے شہر پر دھاوا بولنے اور نظام حکومت معطل کرنے کی دھمکیوں کی وجہ سے حکومت اس حد تک بدحواس تھی کہ اس نے بند کمرے میں ہونے والے تحریک انصاف کے نوجوانوں کے اجلاس پر دھاوا بولا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کی سرکردگی میں چند ہزار لوگوں کو اسلام آباد سے دور رکھنے کے لئے باقاعدہ مورچہ بندی کی گئی اور جنگ کا ماحول پیدا کیا گیا۔

\"\"اس سیاسی دباؤ کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے انتہاپسند گروہوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ انتہاپسند مذہبی لیڈروں سے ملاقات اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ اسی پالیسی کے تحت کالعدم جماعت اہلسنت والجماعت کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ دفاع پاکستان کونسل کے بینر تلے جو مذہبی جماعتیں منظم ہیں، ان کے انتہاپسندانہ نظریات سے ملک کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ ان لوگوں میں صرف مولانا لدھیانوی ہی شامل نہیں تھے بلکہ ان میں جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید احمد بھی شامل تھے۔ کون نہیں جانتا کہ حافظ سعید کو بھارت ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھتا ہے اور امریکہ انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کر چکا ہے۔ حکومت یہ عذر تراشتی رہتی ہے کہ ایسے عناصر کو گرفتار کرنے کے لئے اس کے پاس مناسب ثبوت نہیں ہیں، جس کی وجہ سے وہ عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔

ایک ایسی حکومت جو کسی الزام کے بغیر اپنے شہریوں کو اٹھا لینے کی شہرت رکھتی ہو اور ان میں سے بعض بعد میں لاشوں کی صورت میں دستیاب ہوتے ہوں ۔۔۔ جب ایسے بہانے تراشتی ہے تو کل عالم ان کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کے سرپرست کے طور پر جانا جاتا ہے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے پاک فوج کی بے مثال قربانیوں کے باوجود اس جنگ کو وہ اہمیت اور قدر و منزلت حاصل نہیں ہو پا رہی جو اسے ملنی چاہئے۔ اور بھارت جیسا ہمسایہ دشمن ملک مسلسل اس صورت حال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں وزیر داخلہ جیسے اہم لیڈر کو نہ صرف یہ کہ ایسے مشکوک کردار کے مذہبی رہنماؤں سے ملنے سے گریز کرنا چاہئے بلکہ ان کے بارے میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے بھی خاص احتیاط کرنی چاہئے۔

پاراچنار میں ہونے والے المناک حملہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ملک میں نفرت، فرقہ واریت اور مذہبی بے چینی پیدا کرنے والے\"\"عناصر کسی دوسرے ملک کے ساتھ دشمنی نبھانے سے پہلے پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ یہ خواہ کیسے ہی نعرے لگائیں اور بینر اٹھائیں اور فوج کے حق میں ریلیاں نکالیں، ان کے قول و فعل سے ملک کے عوام کی زندگیاں غیر محفوظ ہو رہی ہیں۔ ان عناصر کے قوت پکڑنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر انہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ جب ملک کے وزیر داخلہ ایسے عناصر سے ملاقات کرتے ہیں اور پھر بار بار اسے درست فیصلہ قرار دینے کے لئے اس فیصلہ کے حق میں دلائل دیتے ہیں تو وہ ایک طرف اس شبہ کو یقین میں بدلتے ہیں کہ حکومت شدت پسند مذہبی عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے تو دوسری طرف ملک کے عوام کی زندگیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بات متعدد بار کہی جا چکی ہے کہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے عناصر کے ساتھ نرمی سے بھارت کو باتیں بنانے اور عالمی سطح پر پاکستان کی شہرت کو داغدار کرنے کا موقع فراہم کیاجا رہا ہے۔ لیکن اب دن بدن یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ یہ عناصر صرف دشمن کے حوالے سے ہی خطرناک اور ناقابل قبول نہیں ہیں بلکہ ان کی حرکتوں سے ملک کے عوام کے امن و چین کو بھی اندیشے لاحق ہیں۔

آج کے بم دھماکے سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے دعوے قبل از وقت ہیں۔ ابھی اس آپریشن کو زیادہ مستحکم کرنے اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج دو برس سے قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد انہی علاقوں میں بم دھماکے کرنے اور لوگوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ حکومت اور فوج کی طرف سے بدستور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک یا افغانستان میں دہشت گرد حملے کرنے والے عناصر کو ان علاقوں میں پناہ نہیں دیتی۔ لیکن جس شدت سے انکار کیا جاتا ہے اسی شدت سے یہ الزام امریکہ اور بھارت کے علاوہ افغانستان کی طرف سے دہرایا بھی جاتا ہے۔ اس کا صرف یہی مطلب ہو سکتاہے کہ فوجی آپریشن میں نہ صرف حقانی نیٹ ورک بلکہ بعض ایسے عناصر بھی محفوظ رہے ہیں جو موقع ملنے پر پاکستان کے ہی لوگوں کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔

اس صورت میں اس آپریشن کی کمزوریوں کو جانچنے اور اس کا دائرہ تمام سماج دشمن عناصر تک وسیع کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اگر فوج قبائیلی علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے الزام کو بہرصورت مسترد کرتی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود پاکستان دشمن عناصر پاکستان کے دشمن ملکوں سے مدد لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان میں حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے بھارتی ایجنسیوں پر الزام لگاتا رہا ہے۔ تاہم ان الزامات کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ یوں بھی الزام تراشی کے مقابلے سے تو پاکستان کے معصوم شہریوں کی حفاظت نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے افغان حکومت کے ساتھ اعتماد سازی کا تعلق قائم کرنے اور اسے ان عناصر کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہوگی، جنہوں نے افغان سرزمین کر پاک دشمن سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ افغانستان بھی اس اعانت کے بدلے میں کچھ مراعات اور سہولتوں کا تقاضہ کرے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس معاملہ پر سنجیدگی سے پیش رفت کی جائے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی کو یقین دلایا تھا کہ پاک سرزمین کو افغان دشمن عناصر سے پاک کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور اس کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح پاکستان سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ہونیوالے حملوں کا الزام افغانستان میں موجود عناصر اور وہاں متحرک بھارتی ایجنٹوں پر عائد ہوتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل صورت حال ہے۔ اب اسے حل کرنے اور کسی بھی مقصد سے ناپسندیدہ عناصر کو برداشت کرنے کی پالیسی ترک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکہ میں نئی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے زیادہ شدید مطالبہ کا سامنا کرنا ہوگا۔ پاکستان میں سی پیک کے تحت سرمایہ کاری کرنے والا دوست ملک چین بھی اگر علی الاعلان نہیں تو درپردہ ضرور اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی بات کرتا ہوگا۔ دہشت گرد اور جنگجو عناصر کے طاقتور ہونے سے سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اب حجت اور حیلے کا وقت گزر چکا ہے۔ دہشت گردی کےخلاف جنگ کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لئے فوری اور سخت حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لئے فوجی کارروائی کو مزید موثر کرنے کے ساتھ قومی ایکشن پلان کے تحت طے شدہ اصولوں کو نافذ کرنے اور ملک سے نفرت کے اڈوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے متحد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لاپتہ کئے گئے بلاگرز کے خلاف جس طرح نفرت اور الزام تراشی کی مہم جوئی کی گئی ہے۔ وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں مذہبی منافرت کے لئے کام کرنے والے عناصر مضبوط اور متحرک ہونے کے علاوہ خود کو محفوظ بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے اور نفرت کا پیغام عام کرنے والوں کی گرفت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں اس ملک سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments