سچی خبریں، جھوٹے تبصرے


 \"zeffer\"جونہی یہ خبر آئی کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اپنی کابینہ میں نئی وزارتیں بنانے کی حکمت عملی کے تحت وزیر مملکت برائے مسرت کے قلم دان کا اعلان کیا ہے، تو فورا جمعیت علماے پاکستان نے حکومت امارات سے با ضابطہ احتجاج کیا، کہ آپ ہماری ماضی کی خدمات کو فراموش کرتے ہوے، ہماری مخالف مسرت شاہین کو وزارت کا قلم دان کیوں سونپ رہے ہیں۔

تس پر دبئی کے حکم ران نے کابینہ کا ایک اور اجلاس بلا لیا۔ دن رات غور و فکر کرنے کے بعد، جمعیت علماے اسلام کو جواب دیا گیا کہ ہماری مسَرت کا آپ کی مسَرت سے کوئی تعلق نہیں۔ شیخ محمد بن راشد المکتوم نے یقین دلایا کہ ’یہ وزارت معاشرے میں اچھائی اور اطمینان لانے کے لیے پالیسیاں بنائے گی۔‘ لیکن مولان فضل الرحمان اس وضاحت سے مطمئن نہ ہوئے، بھلا مسرت شاہین معاشرے میں اطمینان لانے کی پالیسیاں کیوں کر بنا سکتی ہے۔ امن تو ہم لائیں گے۔ مولانا کے مسلسل احتجاجی خطوط کو دیکھتے ہوے متحدہ عرب امارات نے اب وزارت برداشت بھی بنالی ہے۔

بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اتر پردیش ریاست کے سینئر وزیراعظم خان نے کہا: ’وزیر اعظم مودی نے بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے اچانک پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ وہاں داؤد ابراہیم سے بھی ملے۔ انھیں اس سے انکار کرنے دیجیے۔ میں ثبوت دوں گا کہ وہ دروازوں کے پیچھے کس کس سے ملے؟‘

اس خبر نے ہندستان کے ان حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جو پہلے دن سے کہتے آئے ہیں، کہ سیاست دان ملک چلانے کے اہل نہیں۔ ان حلقوں نے ہندستانی فوج کے سپہ سالار سے درخواست کی ہے، کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع لیں، اور ممکن ہو، تو مودی کی نام نہاد جمہوری حکومت گرا کر، اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ فوج کے حامیوں کا کہنا ہے، کہ یہ جمہوریت کوئی جمہوریت ہے، جہاں آدھے سے زیادہ بھارت دیش بھوکا، ننگا اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ افسوس ناک اطلاع یہ ہے ،کہ بھوکے ننگے، گندے مندے ہندستان کے بے شعور جنتا کی اکثریت اپنی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف کے نام ہی سے واقف نہیں۔ اس لیے گمان غالب یہ ہے، کہ بھارت کبھی اکھنڈ نہیں ہو سکے گا۔

ادھر عظیم تر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے خبر ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت، جس کا مطالبہ، نہ پارلیمان، نہ عوام اور نہ ہی دیگر سیاسی جماعتوں سے، بل کہ فوج سے ہے۔ تفصیل کے مطابق، کچھ روز سے اسلام آباد، لاہور، اور فیصل آباد کے مختلف شاہراہوں پر فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی تصویر کے ساتھ بینر لگے ہیں جن میں آرمی چیف سے التجا کی جا رہی ہے ’خدا کے لیے، جانے کی باتیں جانے دو….‘

تھینک یو راحیل شریف!آرمی چیف کے فیصلے کا خیر مقدم۔

یہ بینر، فیصل آباد میں قائم نئی سیاسی جماعت ’موو آن پاکستان ‘یعنی آگے بڑھو پاکستان کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنرل راحیل شریف مدتِ ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ واپس لیں۔ جنرل راحیل شریف نے جنوری میں اعلان کیا تھا کہ اپنی مدتِ ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوں گے۔

اس نئی جماعت کے صدر میاں محمد کامران ہیں، جو فیصل آباد کے ایک کاروباری شخص ہیں۔ ان کی کمپنی ایسی پرائیوٹ لمیٹڈ ہے جو تعمیراتی کام کرتی ہے اور سکول، کالج اور اخبار چلاتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کرتے ڈر لگتا ہے، بس آخری سطر پر غور کیجیے، \’ان کی کمپنی ایسی پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔۔۔\’ وغیرہ وغیرہ۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کون سی ہے، جو اسکول، کالج، اور سارے میڈیا کو چلاتی ہے۔

ایک اور خبر بھارت سے ہے۔ ایک وکیل چندن کمار سنگھ نے حال ہی میں ہندوو¿ں کے بھگوان ’رام‘ کے خلاف مقدمہ کر کے اپنے کئی ہم وطنوں کو حیران کر دیا ہے۔

رام سنسکرت زبان میں 24 ہزار قطعات پر مشتمل ہندوو¿ں کی مقدس کتاب رامائن کے مرکزی کردار ہیں اور بھارت سمیت دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔
چندن کمار سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کیوں کہ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ’بھگوان کے اوتار رام نے اپنی بیگم سیتا کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا‘ اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارتی ریاست بہار کی عدالت ’اس حقیقت کو تسلیم کرے۔‘

افسوس سے کہنا پڑتا ہے، کہ چندر کمار سنگھ لبرل لوگوں کا نمایندہ ہے۔ رام رام، کیا اسے ہم سے معصوم لوگوں کا کیس دکھائی نہیں دیتا جو بیوی کا ہر ظلم \’دڑ وٹ\’ کے سہہ جاتے ہیں؟ چندن کمار سنگھ ہم جیسے پسے ہوے طبقے، یعنی شوہروں کا مقدمہ لڑیں۔ وہ ان شوہروں کی بات بھلے سے نہ کریں، جو بیوی کے ستم کا غصہ \’ہم سب\’ کے صفحات پر \’جوابی کالم\’ لکھ کر نکالتے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments