قریبا نصف صدی قبل کا اور آج کا کراچی!


\"\"

کئی دن کی تگ و دو کے بعد، آج ’چندا ‘ لائبریری سے سلیم کی آپ بیتی، اِس شرط پر ملی ہے کہ کل تک پڑھ کر واپس کرنی ہے۔ کتاب کو جلدختم کرکے سونا بھی ہے۔ کیونکہ کل اتوار ہے اور ہمارے پسندیدہ کھیل کرکٹ کا میچ بھی ہے۔ اور ہاں، پاپا نے یہ بھی تو کہاتھا۔ اس اتوار گھر پر آم کی آئس کریم بھی بنے گی۔ بستر پر جاتے ہی کتاب پڑھنے میں منہمک ہوگئے۔ کتاب ختم کرتے ہی، رات دس بجے تک، ہم سو بھی چکے تھے۔

صبح سویرے اٹھ کر، نہا دھوکر، گھر کے صحن میں قائم باورچی خانے کا رخ کیا۔ جہاں امی گرما گرم دال بھرے پراٹھے پکا رہیں تھیں۔ ہم وہیں پٹری پر بیٹھ گئے اور امی نے دال بھرے پراٹھے، اچار اور دہی کے ساتھ، ہمارے سامنے رکھ دیے۔ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے کہ ٹین کی چھت پر ٹپ ٹپ کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔ ہم گھبرا گئے، مون سون کا مہینہ ہے۔ بوندا باندی تیز ہوکر بارش کی شکل اختیار کرگئی تو ہمارے میچ کا کیا ہوگا۔ بارش توہونی تھی، ہوگئی۔ میچ تو ہو نہ سکا۔ اس لیے پڑوس میں، اپنے دوست کے گھر چلے گئے۔ اسٹیمپ بک، جمع شدہ دنیا بھر کے کرنسی نوٹ اور سکے بھی ساتھ لے لیے کہ آپس میں اسٹیمپ اور سکوں کا تبادلہ کیا جا سکے۔ ان امورسے فارغ ہوئے تو دوست نے تجویز پیش کی۔ بارش ہورہی ہے، کیوں نہ فالسے اور جامن کے بیج بو دیں۔ گھر کے داخلی دروازے کی سیڑھیوں کے برابر میں موجود کیاری میں بیج بودیے۔ ٹماٹر اور مرچ کے پودوں پرپھل آچکا تھا۔ جو دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ جی بھر کر دیکھا اور خوش ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد، پاس پڑوس کی خواتین، لڑکیاں اور بچے ہمارے گھر آنے لگے کیونکہ اتوار کے دن ٹی وی پر فلم بھی دکھائی جاتی ہے۔ کم عمر ہونے کے ناطے، ہم کو فلم سے دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے گھر والوں کی اجازت سے چند دوستوں اور بڑے بھائی کے ساتھ، اورنگ آباد ریلوے اسٹیشن (ناظم آباد) کا رخ کیا۔ ٹکٹ خریدتے ہی، ٹرین آگئی۔ دوران بارش ٹرین کا سفر بہت سہانا ہوتا ہے۔ سفر سے لطف انداز ہو ہی رہے تھے کہ لیاقت آباد کا اسٹیشن آگیا۔ یہیں تک کی اجازت تھی، سوا تر گئے اور پیدل گھر کی طرف چل پڑے۔ موسم خوشگوار ہو تودو، چار میل کا سفر کہاں پتا چلتا ہے۔

گھر پہنچے تو فلم ختم ہوچکی تھی۔ برف کوٹی جارہی تھی اور پاپا آئس کریم مشین میں برف اور شورے کی تہیں لگارہے تھے۔ ہم سب نے مشین چلائی۔ جب مشین چلنے میں دشواری پیش آنے لگی تو پاپا نے اعلان کیا، آئس کریم تیار ہوگئی ہے۔ کھانا پہلے ہی چنا جا چکا تھا۔ کھانا کھاکر، سب نے ڈٹ کر مزیدار آئس کریم کھائی۔ امی نے تمام کاموں سے فارغ ہو کر، ہم سب سے کہا، تم سب بھی آرام کرو اور مجھے بھی آرام کرنے دو۔ دوپہر کے وقت بچوں کو خاص تنبیہ ہوتی تھی، شور نہ مچے۔ چپ چاپ لیٹے ہوئے تھے کہ بہن نے کہا۔ عثمانیہ لائبریری چلتے ہیں۔ وہاں روسی کہانیوں کی کتابیں آئی ہوئی ہیں۔ چند قدم کے فاصلے پر قائم لائبریری پہنچے۔ بچوں کی کتابیں اوپری منزل میں تھیں۔ ہماری کوشش تھی۔ ہر کہانی کی کتاب سے ایک ایک کہانی، چگ لی جائے۔ ایسا ہی کیا اور گھر کو لوٹ آئے۔ شام ہو چلی تھی۔ گھر کے سامنے والے پارک میں چلے گئے۔ فاروقی صاحب کے گر د حسب معمول بچوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ ہم بھی وہیں چلے گئے۔ پتا چلا، فاروقی صاحب آج بچوں کی دوڑ کا مقابلہ کروائیں گے۔ ہم بھی دوڑ کے مقابلے میں شریک ہوگئے اور اوّل آئے۔ کھیل کود کر، نہا دھوکر، کھانا کھایا۔ پھر دوستوں کے ساتھ جاکر، کتاب واپس کی اور دوسری کتاب ’ عالی پر کیا گذری‘ لے آئے۔ بستر پر لیٹتے ہی کتاب پڑھی اوراگلے دن کی منصوبہ بندی کرتے کرتے سو گئے۔ یہ سب ا حوال، قریبا نصف صدی قبل کے کراچی کا ہے۔

اب کراچی کے سیاسی و سماجی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ بچے آزادانہ گھر سے باہر نکل سکیں اور کھیل و کود جیسی سرگرمیوں میں حصّہ لے سکیں۔ گزشتہ دنوں معصوم طوبی کے ساتھ، جس طرح ظلم و زیادتی کی گئی ہے۔ انتہائی افسوس ناک اور دل دہلا دینے والی ہے۔ اس صورتحال میں حکومت سندھ کی ذمّہ داری ہے کہ اس واقعے میں ملوّث ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرکے کیفر و کردار کو پہنچائے۔ تاکہ والدین اور بچوں کا اعتماد بحال ہو۔ ہماری دعا تو یہ ہے کہ موجودہ دور کے بچے بھی، اسی طرح اپنا بچپن گزاریں۔ جیسا کہ ان کے بڑوں نے گزارا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments