پاکستان میں لسانی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں


\"\"

پاکستان میں لسانیات کا موضوع ہمیشہ لڑائی جھگڑے اور فساد کا سبب بنا ہے۔ ملک میں انہی طبقات کو برتری حاصل رہی ہے جن کے ہاتھ میں اقتدار رہا ہے۔ ہمیشہ برسراقتدار طبقے نے بزور قوت ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان لوگوں کا ساتھ دیا اور اقتدار میں شریک کیا جو ان کے ہم زبان ہوتے ہیں۔ ملکی اسٹیبلشمٹ نے ہمیشہ سے جانب داری کا مظاہرہ کیا۔ میرٹ کے اصولوں کو پامال کیا گیا جس سے پاکستان میں نفرتیں پیدا ہوئیں۔ آج بھی جن کے ہاتھ میں وسائل اور اقتدار ہے انہوں نے عوام کے ذہنوں کو اس قدر منتشر الدماغ بنا دیا ہے کہ پاکستان میں لسانیات کا موضوع نفرت کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ مخصوص لسانوں کو افضل اور باقی لسانوں کو شودر بنا کر نصابی کتب میں پڑھایا جا رہا ہے۔

یہ نفرتیں ہمارے خطہ میں 1947ء کی تقسیم کے نتیجے میں آنے والی آبادی کے ریلے کی درآمد کے بعد دکھائی دی ہیں۔ ہمارے پرامن خطہ کو جہنم کا دروازہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لسان پر تحقیق ہونی چاہیے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایک طرح سے لسان پر تحقیق کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف مقتدر طاقتوں نے لسان کو خطرناک بنا کر پیش کیا۔ لوگوں کے دلوں میں نفرتیں پیدا کیں۔ زہریلے پراپیگنڈے کے ذریعے مختلف زبانوں کو نشانہ بنا کر مخصوص زبانوں کو فائدہ پہنچایا گیا جس سے نفرتیں پیدا ہوئیں۔ لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اشیرباد سے ہوا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے من چاہے دانشوروں اور ادیبوں کے ذریعے تحقیق کروائی اور اپنی پسند کے خود ساختہ نتائج حاصل کرنے کے لے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا تاکہ مطلوبہ ٹارگٹ کو حاصل کیا جا سکے۔

پاکستان میں لسان کو اژدھا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بظاہر بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کی صورت میں نظر آتی ہے حالانکہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی معاشی محرومی کے سبب ہوئی ہے۔ اس کا ذکر کوئی نہیں کرتا بلکہ زیادہ زور لسان کو جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کا جو مقصد تھا، اس سے الٹا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو شدید ترین خطرہ درپیش ہے۔ ایک طرف محمود اچکزئی افغانیہ بنانے کا اعلان کر چکے ہیں، دوسری طرف علیحدگی پسند تحریکیں بھی اسی لسانیت سے نفرت کے نتیجے سے پھوٹی ہیں۔

دوسری وجہ برسراقتدار طبقات پاکستان کی جغرافیائی اور لسانی تفریق سے کبھی روشناس نہیں ہوئے اس کی وجہ وہ طبقہ ہے جو تقسیم کے وقت ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آیا کیونکہ یہ طبقہ پاکستان کے جغرافیہ سے لاعلم تھا۔ اسی طبقے کے پاس اقتدار رہا ہے، طاقت رہی ہے۔ اسی طبقے نے اپنی مرضی اور منشا کے نتائج کو نصابی کتب کا حصہ بنایا کیونکہ انہی طبقات کے پاس طاقت تھی اور آج بھی انہی کے پاس پرنٹ اور الیکٹرانک کی میڈیا کی طاقت ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی کی مردم شماری اور اپنی مرضی کے اعدادو شمار کا ڈیٹا نصابی کتب میں لکھ رکھا ہے اور ہمیشہ سے یہ برسراقتدار طبقہ عصبیت پسند اور جانبدار رہا ہے۔ برسراقتدار طبقے نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے لسانی ڈیٹا مرتب کر رکھا ہے۔ حکومتی چھتری کے نیچے مخصوص لسانوں کو فروغ دینے کے لئے دوسری زبانوں کی نفی کی گئی اور تحقیق کے دروازے بند کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ہر گروہ نے دوسرے گروہ کے خلاف پراپیگنڈا کیا کہ فلاں لہجہ ہے اور فلاں زبان ہے۔ اس کے ساتھ اپنی مرضی منشا کے نتائج حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کی حدیں پار کی گئی ہیں۔ لسانی قواعد و ضوابط کو پامال کر کے اپنے اصول و قواعد کے مطابق لسانوں کی درجہ بندی کی اور تحقیقی مواد مرتب کیا گیا تاکہ اپنی عددی برتری ثابت ہو سکے۔ لسانی اصولوں کے برخلاف جو اصول، قواعد و ضوابط وضع کیے گئے اس سے پاکستانی قوم کے اندر ہیجان کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور پاکستان کے اندر لسانوں کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا جس سے افراتفری پیدا ہوئی جو پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

دنیا میں 6000 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان میں لگ بھگ 79 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سرائیکی، سندھی، بروہی، بلوچی پشتو کو لوگوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ پاکستان کے اندر معیار ی اور غیر معیاری لسان کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ پاکستان میں معیاری لسان بولنے والے سیاست میں اگر غیر متحرک ہیں تو ان کی معیاری لسان عصبیت کا شکار ہے کیونکہ سیاسی فورم پر ان کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس غیر معیاری لسان بولنے والے سیاست میں متحرک ہیں اور اقتدار میں ہیں تو اسی غیر معیاری لسان کے اوپر حکومتی فنڈ کو جھونکا گیا اور جھونکا جا رہا ہے کیونکہ ان سے وابستہ اشرافیہ سیاست میں متحرک ہے۔ غیر معیاری لسان سے کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے لیکن حکومتی کارندے اس چیز سے بے خبر ہیں اور غیر معیاری لسانوں پر وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ معیاری لسان اور غیر معیاری لسان میں بنیادی فرق صوتی آوازوں کا ہے۔ ان زبانوں میں صوتی آوازیں ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ لسانوں کا حروفی ڈھانچہ بھی صوتی آوازوں کی وجہ سے مرتب ہوتا ہے۔ جن زبانوں کی اپنی صوتی آوازیں ہیں وہ زبانیں اپنی منفرد صوتی آوازوں کی بدولت معیاری لسان کہلاتی ہیں۔ اس کے برعکس جن زبانوں کی منفرد صوتی آوازیں نہیں ہیں وہ غیر معیاری لسان کہلائی جا سکتی ہے کیونکہ ان زبانوں کی صوتی آوازیں تمام زبانوں میں مشترکہ طور پر موجود ہیں۔ یہ طفیلی لہجہ کہلاتی ہیں پنجابی بھی ایک ایسا ہی طفیلی لہجہ ہے۔

پنجابی لہجہ کی آوازیں فارسی، عربی اور ہندی میں پہلے سے مستعمل ہیں اس وجہ سے پنجابی کو لکھنے کے لئے الگ سے کسی حروف کو ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مشرق کی صوتی آوازوں کا مطالعہ کریں تو بعض صوتی آوازیں مشترکہ ورثے کی حامل ہیں۔ مشرق کی زبانوں میں مخصوص صوتی آوازوں کے علاوہ بہت ساری آوازیں مشترک ہیں۔ آپ ’الف سے لے کر ے ‘ تک صوتی حروف کا جائزہ لیں تو ان حروف سے نکلنے والی صوتی آوازیں ایسی ہیں جو بہت ساری زبانوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں۔ ان مشترکہ صوتی آوازوں کے علاوہ مشرقی زبانوں میں ہر زبان کی مخصوص جداگانہ صوتی آوازیں ہیں جو اس زبان کو دوسری لسان سے الگ کرتی ہیں، اس کو جداگانہ تشخص دیتی ہیں۔ الف کی مخصوص صوتی آواز بھی ایک ایسی آواز ہے جو ہمیں مشرق کی تمام لسانوں میں نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری آوازیں ہیں جو مشرقی خطے میں مشترکہ طور پر موجود ہیں ایسے حروف سے نکلنے والی صوتی آوازیں سب لسانوں کی مشترکہ صوتی آوازیں شمار ہوتی ہیں۔ یہ مشترکہ صوتی آوازیں گلوبل صوتی آوازیں کہلاتی ہیں۔

اب ہم پنجابی لہجہ کا جائز ہ لیتے ہیں۔ پنجابی پنجہ صاحب سے نکلا ہے جو سکھوں کا مقدس مقام ہے۔ سکھ بذات خود ثقافتی، تہذیبی، تمدنی، جغرافیائی اور لسانی طور پر ہندی قوم کا حصہ ہیں۔ سکھ عرصہ دراز سے ہندی قومیت سے الگ جداگانہ تشخص کے لئے جدوجہد کر تے رہے ہیں جس کے لئے1895 ءمیں برطانوی عدالت میں درخواست دائر کی گئی کہ پنجابی کو ہندی سے الگ زبان قرار دیا جائے۔ فارسی اور ہندی زبان میں پنجابی، سرائیکی زبان میں پنجابی اور عربی زبان میں پنجابی کہلائے جانے والے اس لہجہ کے حروف اور صوتی آوازوں کے مطالعہ کے بعد برطانوی عدالت نے پنجابی کو ہندی کا ترش لہجہ قرار دیا کیونکہ پنجابی کی تمام صوتی آوازیں عربی، فارسی اور ہندی میں پہلے موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سر توڑ کوششوں کے باوجود پنجابی کو ہندی کی صوتی آوازوں سے الگ نہیں کیا جا سکا۔

مرحوم آصف خان نے اس حوالے سے بہت کام کیا لیکن کیونکہ پنجابی کی صوتی آوازیں نہیں ہیں یا آپ یوں سمجھ لیں جو بھی لفظ لکھا جاتا ہے اس کی صوت مذکورہ بالا زبانوں میں پہلے سے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے عربی، فارسی اور ہندی کے حروف پنجابی لکھنے کے لئے کافی سمجھے جاتے ہیں اور وہی صوتی آوازیں اور حروف استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس قسم کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ پنجابی کے لئے الگ سے قاعدہ بنایا جائے یا کوئی الگ سے رسم الخط ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ جتنی بھی کوششیں ہوئی ہے وہ تمام کوششیں اس وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئیں کیونکہ لفظ کو لکھنے کے لئے صوتی آوازیں پہلے سے موجود تھیں جس سے ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ آگے چل کر بھی کوئی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں ہے۔ اس کا بنیادی سبب صوتی آوازیں ہیں جو ہم روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں جس کے لیے ہم نے حروف کا سہارا لیا ہوا ہے تاکہ جو صوتی آوازیں ہم ادا کرتے ہیں ان کو پڑھ اور لکھ سکیں۔

1895 ء میں مختلف ماہرین لسانیات کی موجودگی میں شواہد کی بنیاد پر جج اے ڈبلیو سٹوگن نے پنجابی کو ہندی کا رف لہجہ قرار دیا۔ ماہرین لسانیات کی رائے میں پنجابی معیاری زبان نہیں ہے بلکہ ہندی کا ترش لہجہ ہے جس کو زبان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈاکٹر طارق رحمان نے اپنی تحقیق میں برطانوی عدالت میں دائر پٹیشن کا ذکر کیا اس دائر پٹیشن کے نتیجہ کا ذکر ڈاکٹر طارق رحمان نے کچھ اس طرح کیا ہے۔

Wilson’s proposals were condemned even more savagely than those of Cust. Most of his colleagues were still of the view that Punjabi was a dialect or patois, despite Leitner’s details about Punjabi literature and the indigenous tradition of education in the province (1882). Indeed, some Englishmen even felt that Punjabi should be allowed to become extinct, Judge A. W. Stogdon, the Divisional Judge of Jullundur, wrote in his letter of 3 August 1895 that : As for the encouragement of Punjabi. I am of the opinion that it is an uncouth dialect not fit to be a permanent language, and the sooner it is driven out by Urdu

لسان میں اصل کردار صوتی آوازوں کا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ لسان یا لہجہ کہلاتی ہے۔ انہی صوتی آوازوں کی بنیاد پر لفظ تشکیل پاتے ہے اور یہی صوتی آوازیں ہیں جس کی بنیاد پر لسان کے حروف ایجاد کیے جاتے ہیں جن کو ہم ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ مشرقی زبانوں میں سرائیکی، عربی، ہندی، سندھی، فارسی اور پشتو کی صوتی آوازوں کا مطالعہ کریں تو ان کے کے لئے الگ سے حروف ایجاد ہو چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان میں مشترکہ صوتی آوازوں کے ساتھ ساتھ ان کی جداگانہ منفرد صوتی آوازیں ہیں جو ان زبانوں کو ایک دوسرے سے الگ شناخت دیتی ہیں لیکن دو صدیاں گذرنے کے باوجود آج بھی پنجابی اس کوشش میں ہیں کہ پنجابی کے لکھنے کا منفرد طریقہ ایجاد کیا جائے جو پنجابی کو ہندی سے الگ کر دے۔ یہ کوشش لاحاصل ہے۔ اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پنجابی کے اندر صوتی آوازیں جداگانہ نہیں ہیں جس کی بنیاد پر اس کی صوتی آوازوں سے مختلف حروف ایجاد ہو سکیں بلکہ پنجابی وہ صوتی آوازیں نکالتے ہیں جو ہندی میں موجود ہیں پھر پنجابی کے لیے الگ سے رسم الخط کیسے ایجاد ہو گا؟

کچھ ادیب گورمکھی کا رسم الخط پیش کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں الگ سے حروف ہیں جو عربی، فارسی اور ہندی میں موجود نہیں ہیں۔ جناب کبھی آپ کو توفیق ملے تو آپ گورمکھی کے صوتی قاعدہ کو سنیں۔ اس میں تمام آوازیں وہی ہیں جو ہندی میں پہلے سے موجود ہیں۔ پھر الگ سے حرف بنا لینے سے پنجابی کیسے ہندی صوتی آوازوں سے الگ ہو سکتی ہے؟ صوتی آوازیں ہی لسان کی جداگانہ شناخت کی ضامن ہیں۔ اگر صوتی آوازیں جداگانہ نہیں ہیں تو کیسے حروف ڈھلیں گئے؟ کیسے حرف ایجاد ہوں گے؟ جن لسانوں کے حروف ایجاد ہو چکے ہیں آپ انہی حروف کو استعمال کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پنجابی لہجہ کو لکھنے کے لئے ہم مذکورہ زبانوں کی صوتی آوازیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ پنجابی کے اندر جداگانہ شناخت کی حامل صوتی آوازیں نہیں ہیں۔ بنیادی سبب وہی ہے پنجابی ایک طفیلی لہجہ ہے جس میں لفظوں کے بننے کا عمل رک چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments