رسول عربی ﷺ کا ’ ایک ‘ اسلام


\"haseebیہ آج سے چودہ صدیوں پہلے کی بات ہے جب دنیا اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی ہر طرف سناٹا تھا کہیں سے بھی کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی کہ جو حق بیان کرتی ہو ایسی کیفیت میں جب رات اپنی پوری سیاہی کے ساتھ چھا چکی ہوئی زندگی سانس لیتی ہے۔

اور رات کی قسم جب وہ پھیل جائے۔ اور صبح کی کہ جب وہ سانس لے۔

یہ کون ہیں۔ ؟
یہ محمد عربی ہیں.

یہ کیا کہتے ہیں۔ ؟

یہ لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی کی طرف بلاتے ہیں.

ہم ان کی بات کیوں مانیں۔ ؟

کیونکہ یہ صادق ہیں یہ امین ہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا کبھی شرافت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ارے ان جیسا نہ تو پہلے کبھی بلاد عرب نے دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھے گا۔

جان لو جان لو ان کو کچھ جنون نہیں۔

وہ پہلی چیز کیا تھی جو رسول عربی نے امت کے سامنے رکھی کیا انہوں نے کوئی نظریہ پیش کیا یا پھر انہوں نے کوئی فلسفہ بیان کیا…. کیا؟

ان کے پاس کوئی ایکشن پلان تھا وہ سادہ ترین دلیل جس کی بنیاد پر قیامت تک آنے والی امت کے دین کا فیصلہ ہونا تھا کیا تھی۔ ؟

نبی اکرمﷺ پر نبوت کے ابتدائی مراحل میں جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ نبوت کے پیغام اور توحید کی دعوت کو علی الاعلان اپنے قبیلہ والوں تک پہنچا یا جائے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لاتے ہیں اور قریش کے قبائل کو آواز دیتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں :

اے قریش …! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟

پوری قوم یک زبان ہو کر کہتی ہے: ’ہاں! ہم نے آپ میں سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا‘۔ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4397)

اور پھر نبی کریم ﷺکے کردار اور ان کی صداقت و امانت کے تو عربی دل سے قائل تھے مکی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت تھی آپ کی صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی۔ مکی زندگی میں نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں آپ کی شناخت آپ کی صداقت و امانت، شرافت و پاکیزگی ، تواضع و انکساری اور تقوی و پاکبازی تھی، مکہ کا ہر باشندہ آپ کی شرافت و پاکیزگی اور اعلی اخلاق کا قائل تھا۔ آپ کو عام طور پر صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اس کے مقام تک اٹھا کر رکھنے میں قریش کے اندر جو سخت اختلاف پیدا ہوا اور جس کی وجہ سے خوں ریز جنگ چھڑنے والی تھی ، وہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن قریش کے سرداروں اور بڑے بوڑھوں کو جب یہ ہاشمی نوجوان دکھائی پڑا تو سب نے بیک آواز ہو کر کہا:

یہ محمد ﷺ امین شخص ہیں، ہم ان سے خوش ہیں، یہ امین ہیں۔

اور سب نے اس نوجوان کے حکیمانہ فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور اس طرح ایک خون ریز جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ (1) جی ہاں نبی کا کردار …..

یہ تھی اسلام کی پہلی دعوت۔

پہلے دین لانے والے کا کردار منوایا دشمنوں سے ان کی صداقت و امانت کا اقرار کروایا ان کی سچائی کے ڈنکے بجوائے پھر دین پیش کیا پھر بات کی توحید کی یہ کون لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نبوی زندگی کے بغیر وہ خالق حقیقی کی منشا کو سمجھ پائیں گے۔ کون ہیں یہ کیا ان کو جنوں ہے یا انہیں کسی عفریت نے لپٹ کر دیوانہ کر دیا ہے خدا کے واسطے سیرت پڑھو سیرت سے تعلق پیدہ کرو سیرت میں مشغول رہو بجز سیرت علوم دینیہ کا دروازہ نہیں کھلنے والا سیرت سے ہٹ کر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا نہ حدیث کا فہم حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ فقہ کا افادہ ہو سکتا اور نہ ہی تاریخ کی سمجھ آ سکتی۔ بلکہ سیرت کو اپنے اندر اتارے بغیر نہ تو جہاد ، جہاد ہے نہ دعوت ، دعوت ہے نہ علم ، علم ہے اور نہ ہی تزکیہ ، تزکیہ

’بے شک رسول کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے ‘ اور ایک جگہ فرمایا ’جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی ا±س نے میری اطاعت کی‘ ۔ (النسا :80)

اور پھر حجت ہی تمام کر دی : ’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے‘۔

اللہ اللہ ….بے شک آپ کا ذکر بلند کیا گیا یہ کون لوگ ہیں جنہیں محمد عربی کا ایک اسلام قبول نہیں یہ کیا چاہتے ہیں ان کی سوچ آخر ہے کیا …؟

یہ کس بیماری میں مبتلا ہیں ”یقیناً آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔“ یہ تو وہ ہیں جو لوگوں کی ہدایت کیلئے خود کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں اور خالق حقیقی کی شان رحمت جوش میں آ کر بولتی ہے ”اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے، تو شاید آپ اسی بات پرافسوس کرتے ہوئے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے۔“بے شک آپ کے اخلاق ہی تو اسلام ہیں ۔ اللہ کی رحمت کے سبب سے آپ ﷺ ان کے لئے نرم خو ہو گئے۔
اور اگر آپ ﷺ تند خو اور سخت دل ہوتے تو وہ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے۔” نبی کریم ﷺ تو سرا سر رحمت ہیں ، ”ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔

ڈاکٹر مصطفی سباعی مرحوم اپنی مشہور کتاب ”المستشرقون والاسلام“ میں مستشرقین کے پھیلتے ہوئے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اس نصف صدی کے اندر عالم اسلام میں اصلاح و ترقی (بالفاظ واضح تجدد و مغربیت) کے جتنے علم بردار پیدا ہوئے ان کے خیالات، اشتہارات، اعلانات اور طریق کار میں مستشرقین کی دعوت و تلقین کے اثرات صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ بات کہی جائے کہ اصلاح و ترقی کے داعی ان مصلحین کے فکر و عمل کی اساس مستشرقین کے پیدا کردہ خیالات ہیں تو حقیقت سے بعید نہیں ہوگی۔“جی ہاں بات ہو رہی ہے ان لوگوں کی جنہیں اقوال رسول قبول نہیں، وہ کلام الٰہی کو الٰہی منشا کے خلاف اپنی ہوائے نفس کے مطابق نبوی تعبیرات سے ہٹ کر سمجھنا چاہتے ہیں۔

بر صغیر میں اس سلسلے کی پہلی کڑی سر سید تھے جن کا سر ا استشراقی حلقے میں بندھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کے نزدیک استشراق کی تعریف اس طرح سے ہے : ”استشراق، کفار اہل کتاب کی طرف سے، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ، مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت، ثقافت، تہذیب، تاریخ، اور نظام حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعات کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں ، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم قائم کرنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور گمراہی میں مبتلا کرنا اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے۔“ اس استشراقی فکر کے پیچھے موجود فتنے کو عالم اسلام کے ایک عبقری، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، نے کچھ اس طرح کھولا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے قرآن مجید، سیرت، تاریخ، تمدن اسلام اور اسلامی معاشرہ کی تاریخ اور پھر اس کے بعد اسلامی حکومتوں کی تاریخ کا مطالعہ ایک خاص مقصد کے تحت کیا اور مطالعہ میں ان کی دور بیں نگاہیں وہ چیزیں تلاش کرتی رہیں، جن کو جمع کر کے قرآن، شریعت اسلامی،سیرت نبوی ﷺ، قانون اسلامی، تمدن اسلامی اوراسلامی حکومتوں کی ایک ایسی تصویر پیش کرسکیں، جسے دیکھ کر لوگ آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، مستشرقین نے اپنی آنکھوں پر خورد بین لگا کر تاریخ اسلام اور تمدن اسلا می اور یہ کہ آگے بڑھ کر (خاکم بدہن )قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ میں وہ ذرے وہ ریزے تلاش کر نے شروع کئے جن سے کوئی انسا نی جماعت، کوئی انسا نی شخصیت خالی نہیں ہو سکتی ہے اور ان کو جمع کر کے ایسا مجموعہ تیار کرنا چاہا جو ایک نہایت تاریک تصور ہی نہیں بلکہ تاریک تاثر اور تاریک جذبہ پیش کرتا ہے اور انہوں نے اس کام کو انجام دیا جو ایک بلدیہ کا ایک انسپکٹر انجام دیتا ہے کہ وہ شہر کے گندے علاقوں کی رپورٹ پیش کرے۔

1300ھ کے قریب قریب مولوی چراغ علی اور سر سید احمد خاں نے احادیث کو تاریخ کا ذخیرہ قرار دیا۔ اور اپنا یہ اصول بنایا کہ جو حدیث نیچر کے موافق ہو گی، وہ قابل قبول ہے اور جو نیچر کے موافق نہیں، وہ قابل قبول نہیں۔ 1300ھ کے بعد ایک ایسا گروہ آیا جس نے احادیث کا بالکلیہ انکار کر دیا۔ اس گروہ میں مولوی عبد اللہ چکڑالوی ، مستری محمد رمضان گوجرانوالہ، مولوی حشمت علی لاہوری اور مولوی رفیع الدین ملتانی شامل تھے۔ ان کے بعد 1400ھ میں ایک گروہ اور نمودار ہوا جنہوں نے قرآن و حدیث اور پورے دین اسلام کو ایک کھیل قرار دیا۔ اور ایک سیاسی نظریہ قائم کیا کہ اس میں ردّ و بدل کیا جا سکتا ہے۔ اس گروہ میں مولوی احمد الدین امرتسری اور غلام احمد پرویز شامل تھے۔ اسی زنجیر کی ایک کڑی ڈاکٹر غلام جیلانی برق بھی تھے جن کو لیکر دور جدید کے خود ساختہ کالم نگار تمام اہل اسلام کو للکارتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ برق صاحب کو ابو حنیفہ ؒ ، امام غزالیؒ اور ابن تیمیہؒ جیسے اکابر کی فہرست میں داخل کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کے نزدیک محمد عربی کا اسلام متروک ہو چکا ہے اور اب کسی دوسرے کسی جدید اسلام کی ضرورت ہے۔

یہ استشراقی فتنہ صرف مغربی مستشرقین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس نے اپنی فکر و تہذیب اور تاریخ پر شرمندہ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا۔ عالم عرب میں طہٰ حسین اور بر صغیر میں سر سید اس فکر کے شدید متاثرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ اول الذکر کی کتاب فی الشعر الجاہلی: یہ مشہور زمانہ کتاب 1962ءمیں شائع ہوئی اور مذہبی واسلامی حلقوں میں موصوف کی بدنامی کا باعث بنی جس میں زمانہ جاہلیت کے عربی ادب کے متعلق بحث کرتے ہوئے موصوف کج راستوں پر رواں ہوئے اور اپنے تئیں مخالف کتاب وسنت باتیں لکھ کر بعض اسلامی نظریات و افکار کو گڑھی ہوئی بے بنیاد باتیں قرار دے بیٹھے۔ دراصل موصوف کے قلبی تاثرات اور اسلام مخالف افکار و خیالات اس کتاب سے آشکارا ہوئے تھے۔ یہ ناپاک اثرات پروفیسر گائیڈی اور پروفیسر نل لنیو کی صحبت تلمذ اور ان سے محبت کا نتیجہ اور لادینی افکار کے حامل مستشرقین سے تعلق کا ثمرہ و حاصل تھا۔ موخر الذکر ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے۔ سر سید کی خود سپردگی کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو انہوں نے اسلامی عقائد و افکار کو ناقابل مدافعت سمجھتے ہوے ان میں باطل تاویلات کا دروازہ کھولا تو دوسری طرف ملک میں اٹھنے والی ہر حربی و فکری تحریک کی بنیادیں کھودنے کا کام کیا موصوف فرماتے ہیں ! ” جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بد خواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور حد سے زیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ زیادہ تر ان سے ناراض ہوا جائے \”

یہ اس طویل غلامی کا شاخسانہ تھا جس نے قومی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال دیا اور خود داری اور انا کے پرخچے اڑا دئیے۔ دور غلامی نے مسلمانوں میں تین مختلف طبقات پیدا کئے ۔ پہلا طبقہ علما ئے قدیم کا تھا جنہوں نے اس دور فترت میں اپنے مذہبی تشخص عقائد و افکار کو محفوظ رکھنے کے لئے مدارس و خانقاہوں میں پناہ لی اور ایک طرح کے خول میں چلے گئے تاکہ لاروا تتلی بننے کے ارتقائی مراحل طے کر سکے۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے تاویلات باطل سے اسلام کا چہرہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور جو کچھ باقی رہا ، وہ اسلام نہیں، کچھ اور تھا ۔

(مصنف جامعہ کراچی کے شعبہ قرآن و سنّہ سے بحیثیت ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments