لبرل ازم کی اصل حققیت اور اسلامی نقطہ نظر 2۔


\"\"

پہلا حصہ۔

لبرل ازم کا ایک اور اہم اصول مساوات ہے۔ مساوات کی اصطلاح تین مختلف مفاہیم کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ مساوات کا ایک مفہوم وہ ہے جو سوشلزم کے مدنظر تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ تمام دولت کو افراد کے درمیان برابر برابر بانٹ دیا جائے۔ اس اصطلاح کادوسرا اطلاق اس مساوات پرہوتا ہے جو لبرل ازم کے مدنظر ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر فرد کو برابری کی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع میسر ہونے چاہئیں اور سب افراد کو وسائل تک برابر رسائی حاصل ہو۔ میرا نہیں خیال کہ مساوات کی اس صورت پر اسلام کو کوئی اعتراض ہوسکتا ہے بلکہ معاشی حوالے سے اسلام کا مطالبہ بھی یہی ہے جیسا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی سورہ حشر کی ایک آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ”اموال محض دولتمندوں کے الٹ پھیر میں ان کی مخصوص جاگیر بن کر نہ رہ جائیں جس سے سرمایہ دار مزے لوٹیں اورغریب فاقوں مریں“۔ تاہم لبرل ازم کے فری مارکیٹ اکانومی کے تصور سے سود و قمار وغیرہ کے اسلامی نکتہ نظر سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کا لبرل ازم سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اسی سرمایہ دارانہ نظام کے لازمی اثرات ہیں جو پہلے ہی ہمارے اسلامی جمہوریہ میں نافذ العمل ہے اوراس مسئلے کے دو ہی حل ہیں یا تو اس کو برا مانتے ہوئے اس سے استفادہ جاری رکھا جائے یا پھرحضرت مفتی محمد تقی عثمانی کی طرح اس سسٹم کو اسلام کے دائرے میں لانے کی کوششیں جاری رکھی جائے۔

مساوات کی تیسری قسم سے مراد تمام شہریوں کے مساوی حقوق ہیں اور صنف، عقیدے یانسل کی بنیاد پر ہر قسم کی امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔ جہاں تک صنفی لحاظ سے مرد و عورت کی مساوات کی بات ہے تو ان میں سے ہر ایک کی فطری صلاحتیوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ مساویانہ رویے کی رائے اسلام میں موجود ہے چنانچہ مصر میں جنرل نجیب اور جمال عبدالناصرکے انقلاب لانے کے بعد یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ آیا عورت سیاست میں حصہ لے سکتی ہے یا نہیں؟ جب یہ سوال جامعہ ازہرکے مفتی سے پوچھا گیا اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں فتوی دیا کہ سیاست عورت کے دائرہ کار سے باہر ہے مگر جب یہی سوال امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ”میری توجہ مصرکے مفتی اعظم شیخ حسین محمد مخلوف کے ایک فتوی کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عورتوں کو حق رائے دہی اور ان کو پارلیمینٹ کے لئے منتخب ہوجانے کی اجازت دینا اسلام کی روسے جائزنہیں (جبکہ حقیقت یہ ہے) کہ اسلام سیاسی یا پبلک زندگی میں عورتوں اورمردوں کے امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام انہیں اجازت دیتا ہے کہ اپنے کیرئیرکا انتخاب کرلیں“۔

مولانا آزاد کے زمانے تک تو یہ محض ایک نظری بحث تھی اب تو عملاً ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر ہر جماعت کی نمائندگی موجود ہے اور کسی بھی جماعت نے اپنے حصے کے کوٹے کو اس بنیاد پر خالی نہیں چھوڑا کہ اسلام میں عورت کے سیاست اور دیگر اجتماعی سرگرمیوں میں حصہ لینا ناجائز ہے۔ اور جہاں تک شہریوں کی مساوات کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کی بات ہے تو اس سلسلے میں پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اس مسئلے کا براہ راست تعلق قانون سازی سے نہیں بلکہ ریاست کی ساخت سے ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں شہریوں کی حیثیت کا تعین ضروری ہے جس کے لئے اہل الذمہ، مستامن وغیرہ جیسی اصطلاحات کا ذکر فقہ اسلامی ملتا ہے۔ البتہ میرے خیال میں اس قانون کو ”امتیازی قانون“ کہنے میں مجھے خود تامل ہے۔ امتیازی قانون سے مراد یا تو یہ ہے کہ ایک ہی جرم کی سزا ایک فرد یا طبقے کے لئے مختلف ہو اور دوسرے طبقے یا فرد کے لئے مختلف ہو یا پھر امتیازی قانون یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی عمل ایک طبقے یا فرق کے لئے تو جرم سمجھا جائے اور دوسرے طبقے کے لئے نہیں، اس لئے ”امتیازی قانون“کے مفہوم کا اطلاق ایک زمانے میں امریکہ میں کالوں اور گوروں کے لئے نسلی بنیاد پر بننے والے مختلف قوانین پر تو ہوسکتا تھا مگر پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد قادیانیوں کے وہ کون سے قانونی اورشہری حقوق ہیں جو ان کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد متاثر ہوئے ہیں؟ بات صرف معاشرے میں ”دوسرے درجے“ کے شہری سمجھنے میں ہے مگر اس کا تعلق قانون سے نہیں معاشرتی رویوں کی تہذیب سے ہے ہندوستان جو کہ آئینی اعتبارسے ایک مکمل سیکولر ملک ہے وہاں بھی مسلمانوں، دلتوں اوردوسری نسلی اقلیتوں کومعاشرے میں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور آئین کی سیکولر حیثیت اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی قانون کے ذریعے معاشرے کو مہذب بنایا جاسکتا ہے۔

لبرل ازم کے مذکورہ بالا اصولوں کے ساتھ اس کا ایک اہم اصول فرد کی اہمیت پرزور اوراس کے مقابلے میں ریاست کی اختیارات اورمعاشرتی ومعاشی سرگرمیوں پر اس کی دخل اندازی اور قدغنوں کو کم سے کم کرنا ہے۔ لبرل ازم کے اس اصول کی زد مذہب پرنہیں بلکہ سوشل ازم پر پڑتی ہے جوکہ اجتماعی ملکیت اور فرد کو بے دست و پا کر کے ریاست اور معاشرے کا ایک انتہائی غیر ضروری اور ناقابل تکریم پرزہ بنا کر رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔

بہرحال! اب آتے ہیں لبرل مسلمان کی اصطلاح کی طرف۔ لبرل ازم کے تصور آزادی کے تحت ایک مسلمان اپنے دینی عقائد سے منحرف ہو کرمرتد بن جاتا ہے۔ اس کا معاملہ تو مختلف ہے۔ جبکہ دوسرا شخص اپنے خیال کے مطابق لبرل ازم کی ہی دی ہوئی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے خدا کے وجود، اس کی وحدانیت، معاد و نبوت اور اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت پر بدستور ایمان رکھتا ہے اور اپنی زبان سے اس کا اقرار کرتا ہے تو پھر اس کو مسلمان کیونکر نہیں سمجھا جائے گا؟ جب ہم سے مسلمان ہوتے ہوئے بھی مغربی جمہوریت کو قبول کرنے کا سوال کیا جاتا ہے تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ہماری جمہوریت آئینی طور پراللہ تعالی کے اقتدار اعلی کو قبول کرنے کے بعد اسلامی جمہوریت بن جاتا ہے تو ایک دیسی لبرل کے ضروریات دین پر ایمان لانے کے بعد اس کا مسلم لبرل ہونا کیوں قابل قبول نہیں ہوسکتا؟

جہاں تک فیس بک پر دینی مقدسات اور مذہبی تعلیمات کی تضحیک و توہین کو لبرلز کی جانب منسوب کرنے کی بات ہے تو اس طرز عمل کا لبرل ازم خود ہی روادارنہیں ہے جس سے دوسرے انسانوں کو ذہنی یا جسمانی اذیت ہوتی ہو۔ اس لئے یہ کام یا تو ملحد انتہاپسند لبرل ازم کا لبادە اوڑھ کر کر رہے ہیں یا پھر اس کے پیچھے لبرلز کا وہ طبقہ ہو گا جو خود اپنے نظریے کے تقاضوں اورتعلیمات سے منحرف ہوچکے ہیں۔ اس لئے کم از کم اسلام کے عقیدے پرکاربند رہنے والے مسلمانوں پر اس کی تہمت لگا کر ان کی اسلام سے دوری اور بیگانگی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

آخری عرض یہ ہے کہ جس طرح صدر اسلام میں جب مسلمان مختلف علاقوں تک پھیل رہے تھے تو اس وقت انہیں مقامی ثقافتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام کے نفاذ سے سامنے آنے والے عملی پیچیدگیوں کا ادراک تھا اور انہوں نے اس مشکل کو اس انداز سے حل کیا کہ کسی مقامی ثقافت کو مٹنے اور فنا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا گیا۔ اسی طرح عصر حاضر میں ثقافتوں کی جگہ جدید نظریات نے لی ہے اور ایک بار پھر اسلام کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ ان نظریات کو کس حکمت عملی کے تحت ڈیل کیا جائے جو کہ اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت کے دعوے کا لازمی تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں لبرل ازم کے مقامی تناظر کو اس کے مغربی تناظر سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا اور یہی وہ تناظر ہے جس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم اپنی موجودہ ٹرم میں کم ازکم دومرتبہ مختلف الفاظ میں یہ بات دہرا چکے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل لبرل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ ظاہر ہے ان کا مقصد پاکستان کی بہتری اور اسلام کی سربلندی ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments