ادب، فلم، اور محترم عبد الروف کے شکوے


\"\"عبد الروف صاحب نے ”ہم سب“ میں دوسرا کالم لکھا، جس میں یہ موقف اختیار کیا، کہ ہمارے یہاں ویسی فلم نہیں بنتی جیسے ہالی ووڈ کی شان ہے۔ بل کہ ان کہ اشارہ ان فلموں کی جانب ہے، جو ادب کی چاشنی لیے فن کا اعلا نمونہ مانی جاتی ہیں۔ انھوں نے امثال پیش کیں، کہ فلاں عظیم ناول پر فلاں عظیم فلم بنائی گئی۔ ان کی بات ایک خاص تناظر میں درست مانی جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، کہ ”وہاں“ ادب کو آرٹ کو سمجھنے والوں نے جنم لیا۔ یہ بھی تسلیم۔ انھی سی چند باتیں پوچھنا ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ بیان ہو، کہ پاکستان کا کون سا شعبہ ہے، جو روز افزوں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، یا جہاں‌عظیم لوگ پیدا ہو رہے ہیں؟ اب تک پاکستان کا کون سا عظیم ادارہ بنا ہے؟

اور بھی سوالات ہیں، لیکن بحث کا ایک رُخ متعین کرے کے لیے، پوچھا جا سکتا ہے، کہ فلم کس کے لیے بنائی جاتی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے، جس کا جواب واضح ہو، تو سارے راز کھل جائیں گے۔

جناب، اردو اور پاکستان کی سب زبانوں کو شامل کیجیے، تو ”یہاں“ کون سا عظیم ناول لکھا گیا ہے؟ نیز کتنے عظیم ناول لکھے گئے ہیں؟ آپ کی نظر میں وہ کون کون سے ناول ہیں، جن پر فلم بنائی جائے تو ثابت ہوگا، ہمارے فلم پروڈیوسر ذہین ہیں؟ عبد الروف صاحب مجھ سے بہ تر جانتے ہیں، کہ مبینہ طور پر بائیس تئیس کروڑ کی آبادی میں کل بائیس تئیس لاکھ اخبار بھی نہیں شائع ہوتے۔ کتب کی تو بات ہی دگر ہے۔ پانسو ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والی کتابیں عزیز و اقارب میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بھی کچھ بچ رہتی ہیں، جو ردی اکٹھا کرنے والے کی سائیکل پر ٹنگی بوری میں لد کر اپنی ”منزل مقصود“ تک جا پہنچتی ہیں۔ جس ملک میں یہ عالم ہو، وہاں‌ چند فلم سازوں کو خرابی کی جڑ قرار دینا عجب ہے۔

پاکستان کی آبادی سولہ سترہ کروڑ ہے، یا بیس بائیس کروڑ ابھی تک ہمی اسے اندازے کے سہارے تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں، کہ بیس   \"\"بائیس کروڑ کی آبادی کیا چاہتی ہے۔ ان پاکستانیوں کی اوسط آمدن کیا ہے، ان کی تعلیمی حالت کے اعداد و شمار کیسے دست یاب ہوں، ان کی شعوری سطح کیا ہے، فلم کے حوالے سے اہم بات کہ ان میں سے کتنے ہیں، جنھیں سینما ہال مہیا کیے گئے ہیں۔ کتنے ہیں، جو ٹکٹ جیسی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ایسے تمام سوالات کا جواب کامل یقین سے دینا ممکن نہیں۔ اسی کے برعکس ان ممالک کا احوال ملاحظہ ہو، جہاں سے مثالیں لائے۔ وہاں فلم انڈسٹری کا سفر کیسا تھا، نیز ریاستوں کے تعاون کا کتنا دخل رہا۔ دور مت جائیے، زرا دیوار کے اُس پار ہندستان ہی کا ذکر کر دیجیے، کہ ہمیں پاک و ہند کا تقابل پیش کرنا پسند ہے۔ بتائیے تو سہی، ریاست ہند نے اپنے فلم سازوں، اپنی فلمی صنعت کو اس مقام تک لانے میں کیا کردار ادا کیا۔ عجب ہے، کہ محض چند مخصوص فلموں کا حوالہ دیتے، یہاں کی فلم انڈسٹری کا ماتم کرتے ہیں۔

فلم کا کاروبار، ٹیلے ویژن کے کاروبار کی طرح نہیں، جس میں ”پیپلز میٹر“ جیسی ”مناپلی“ سے حتمی بات کی جائے کہ پاکستان کے عوام یہ چاہتے ہیں، یا وہ وہ چاہتے ہیں۔ پھر اسی ”کنٹرولڈ ریٹنگ چارٹ“ کو دکھا کر اشتہاری کمپنیوں سے اشتہار لیے جائیں؛ آپ کا کلائنٹ خوش ہے، تو سب ٹھیک ہو گیا۔ وہیں فلم کی بات کی جائے، تو کسی فلم کی ”ریٹنگ“ کیا ہے، یہ گیٹ منی بتاتی ہے۔ کراچی، لاہور، پنڈی/اسلام آباد کے نواح میں نصب چند سو ”میٹرز“ نہیں۔ فلم کا کلائنٹ ٹکٹ خریدنے والا ہے، ٹکٹ خریدنے والا الفریڈ ہچکاک کو نہیں دیکھنا چاہتا تو الفریڈ ہچکاک پر اصرار کیوں؟ طلب و رسد کے قوانین کو نظر انداز کرتے اصرار کیا جائے، کہ تماش بین کی ذہنی سطح کو بلند کرنا فلم ساز کا کام ہے، تو فلم ساز کے لیے سہولیات مہیا کرنا کس کا فرض ہوا؟

یہاں جیسے تیسے ناول لکھے گئے، جیسی تیسی فلمیں بھی بنیں۔ جب کوئی صنعت نفع بخش ہو، تو ہی تجربے بھی ہوتے ہیں، انھی تجربوں \"\"سے بہ تری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، نیا خون، نئی فکر، نئی سمت سامنے آتی ہے۔ پاکستانی فلم کے عروج کے دس پندرہ برسوں میں فیض احمد فیض جیسوں نے ”جاگو ہوا سویرا“ بنائی۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ فلم اچھی تھی، یا بری۔ کام یاب رہی یا ناکام۔ اسی دور میں خواجہ خورشید انور نے جو فلمیں بنائیں وہ کسی طرح کم تر نہ تھیں۔ یہ سب انفرادی کوششیں تھیں۔ حکومت یا ریاست کے لیے یہ کام ہی ”حرام“ ہونے جا رہا تھا، تو وہ اسے کیوں پرموٹ کرتی۔ آپ کے تئیں یہاں ”دماغ“ نہیں ہیں، جو فلمیں بنا سکیں۔ اسے مان لیتے ہیں، اگر آپ ”دماغ“ یہاں کے نظام (system) کو تسلیم کرلیں۔ ”گجروں“ کی طرح ریاست کا نظم و نسق چلاتے ہوئے، یہ امید رکھنا کہ گجروں کے ناموں والی فلمیں نہ بنیں کیوں کر ممکن ہے؟

قیام پاکستان کے بعد چھہ کے قریب جلے ہوئے اسٹوڈیو سے اپنا سفر شروع کرنے والے فلم سازوں کے سر پر کس نے ہاتھ رکھا؟ کسی نے نہیں۔ یہ فلم انڈسٹری کہلاتی ہے۔ اس انڈسٹری پہ جو ٹیکس ہیں، وہ معمولی تو نہیں؛ لیکن مالی مدد تو دور، کوئی پالیسی بھی نہیں بنائی گئی، کہ نئے ٹیلینٹ کو ابھرنے کا موقع ملے۔ ادارے تو ہمارے یہاں بنے ہی نہیں۔ ہر ایک اپنی ذات میں ایک ادارہ بنا پھرتا ہے۔ سو جب جب قضا فرد کو لے جاتی رہی، ایک ایک کر کے ادارے اٹھتے گئے۔ ہانپتے گرتے پڑتے 65ء میں داخل ہوئے تو ریاست نے ان فلم سازوں سے ہندستان کی مارکیٹ چھین لی۔ ڈھاکا ڈوب گیا، تو ہمارے فلم سازوں کے پاس فلم مارکیٹ، کراچی (جنوب کے کچھ سینما) اور پنجاب کے نمایاں شہر ہی باقی بچے۔ بنگلا دیش بننے کے بعد اردو سینما کی موت کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ پنجابی فلمیں تو پہلے بھی بنتی تھیں، ایک ”ہیر رانجھا“ ہی نہیں، بہت سی فلموں کی بات کی جا سکتی ہے۔ 70ء کی دہائی میں جب ”گیٹ منی“ ہی پنجاب سے تھی، تو یہی پنجابی فلم اردو فلم کا متبادل بن گئی۔ شو مئی قسمت ”بشیرا“، اور ”مولا جٹ“ کو بھی اسی دور میں ہِٹ ہونا تھا۔ بالآخر ندیم کی ”مکھڑا“ ہو، یا نذر شباب جیسے ہدایت کاروں کی ”کالے چور“ سبھی پیٹ پالنے کے لیے پنجابی فلموں کا رُخ کرنے لگے۔ یہ وہ دور تھا، جب ”کنجر“ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، کسی نے خوب کہا ہے، کہ بقا کی جنگ میں ارتقا کا کیا سوال!\"\"

یہاں کے لوگوں کا مزاج ایسا ہے، یا شعوری سطح؛ اس پر کیا رائے دی جائے، لیکن ہوتا یوں ہے، کہ اس محدود سی مارکیٹ میں ”پاپولر سینما“ ہی کی گنجائش ہے۔ ایسے میں ذہین فلم ساز وہی کہلائے گا، جو ”پاپولر ازم“ کے اندر رہتے، کوئی اچھی بات، فکر، سمت پر بات کر جائے۔ بہ تدریج فلم بین کے ذوق کو بہ تر کرے۔ آپ گزشتہ بیس برسوں میں شعیب منصور کی ”پروپگنڈا موویز“ کو بہ ترین فلموں کی فہرست میں رکھتے ہیں، تو ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ گر چہ یہ فلم ”ریاست“ ہی نے اسپانسرڈ کی ہے۔ اور جن کراچی کی فلموں سے آپ مایوس ہیں، ان کے پیچھے ان ٹیلے ویژن چینلوں کا ہاتھ ہے، جو انھیں اسپانسر کر رہے ہیں۔ ان چینلوں کے سر سے ”پیپلز میٹر“ کا جادو ہی نہیں اتر کے دے رہا، تو کراچی کی ان فلموں کو بڑی اسکرین کی ٹیلے فلم سمجھ لیں۔ ان کا خیال ہے، کراچی ہی پاکستان، اور پاکستان ہی کراچی ہے۔ جب 3000 میں سے چودہ پندرہ سو ”پیپلز میٹر“ کراچی میں نصب ہوں، تو آدھا پاکستان تو بن ہی گیا۔

آپ ہوئے، میں؛ یا چند ہزار، چند لاکھ۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو سینما ہال ہی نہیں جاتے۔ ان کے لیے فلم بنائی بھی جائے تو کیوں؟ جب کہ ان کی تسکین کے لیے ہالی ووڈ یوروپ اور کسی حد تک ہندستان کچھ فلمیں بنا ہی دیتا ہے۔ ان فلموں‌ کا ذکر کر کے ہم ایک مخصوص محفل میں یہ ثابت کرنے میں کام یاب رہتے ہیں، کہ ہمی جانتے ہیں، فلم کیا ہوتی ہے، اور کیسے بنائی جاتی ہے۔ مکرر افسوس! آپ ہوئے، یا میں۔ ہم ایسے فلم بنانا تو دُور، اس کا اسکرپٹ لکھوانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ معدودے چند کو چھوڑ کر یہاں سینما ہال میں بھی وہی انگریز فلمیں ریلیز ہوتی ہیں، جو ایکشن فلم کہلاتی ہیں۔ آپ میں اپنے مضامین میں ان فلموں کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ کیوں کہ یہ اس معیار پہ پورا نہیں اُترتیں، جیسی فلمیں آپ یا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

آپ نے جن انگریز فلموں کے نام گنوائے، انھی فلموں کو انھی ”دماغوں“ کی مدد سے یہاں کی زبان میں بنا کر کسی سینما ہال میں ریلیز کر دیکھیے، گر پروڈیوسر کا دوالیہ نہ نکل گیا، تو کہیے گا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments