بلدیاتی کونسلر ہی صوبائیت کی گائے کو حلال کریں گے


\"\"

ہمیں سب کو الطاف بھائی پسند نہیں ہے۔ بھتے بوری پردے میں رہنے دو والے آئٹم سانگ ہمیں یاد ہیں۔ بارہ مئی بھی یاد ہے۔ اس سے پہلے الطاف بھائی کا ہر اہم سیاسی لسانی گروہ سے پھڈا کرنا بھی یاد ہے۔ ہمیں اگر یاد نہیں ہے تو یہ یاد نہیں کہ الطاف بھائی سامنے کیسے آئے تھے کیوں آئے تھے۔ یہ کراچی کے مقامی مسائل تھے جو الطاف بھائی کو ابھار کر سامنے لائے تھے۔

تب کراچی کی اکثریتی آبادی اردو بولنے والوں کی تھی۔ یہ اکثریتی آبادی کوئی اور زبان بولنے والی ہوتی۔ الطاف بھائی تب بھی سامنے آتے تب ان کا نام کچھ اور ہوتا ان کی مادری زبان کچھ اور ہوتی۔ کراچی کے شہری مسائل اب پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ کراچی کا منتخب مئیر جیل سے تو باہر آ گیا ہے۔ اب خوار پھر رہا ہے کہ اس کے کرنے کو کام بہت ہے۔ اس کے پاس وسائل اور اختیار نہیں ہیں۔

الطاف بھائی سامنے نہ آتے تو پی پی ایک مختلف پارٹی ہوتی سندھ ایک مختلف صوبہ ہوتا۔ اب پی پی کی سندھ سیاست اتنی ہے سندھیوں کو الطاف حسین سے ڈراؤ، اقلیت بن جاؤ گے کے ڈراوے دو۔ سندھی ووٹ سے حکومت بناؤ، کراچی پر حکومت کے مزے لو۔ کراچی پر حکومت کا مزہ ہی لینا بنتا ہے۔ یہ پی پی نہ ہوتی کوئی اور پارٹی ہوتی یہی کرتی۔ سندھی ووٹر کی بجائے یہ پنجابی یا پختون ووٹر ہوتا اس کو ایسے ڈرایا جاتا وہ بھی یہی کچھ کرتا۔

سیاست ہر صورت میں ہر حال میں مقامی ہوتی ہے۔ الطاف حسین نے مقامی مسئلوں کو زبان دے کر ہی سیاسی طاقت حاصل کی۔ پی پی نے سندھی ووٹر سے مقامی سیاست ہی بھلا دی ہے۔ سندھی ووٹر کو مقامی سیاست یاد رہنے دی جاتی تو اندرون سندھ اس کے گوٹھ قصبے بھی ترقی کر جاتے۔

جماعت اسلامی ایک سخت ڈسپلن رکھنے والی جماعت ہے۔ ایم ایم اے نے صوبائی حکومت بنائی تو ہمارا ایک سکول فیلو بھی جماعت کا صوبائی وزیر بن گیا۔ ایک دن خبر پڑھی کہ اس کی قاضی صاحب نے اچھی طرح ٹکور کر دی ہے۔ اسے فون کر کے پوچھا یخ شوے یعنی ٹھنڈے ہو گئے۔ اس نے کہا تمھیں وہ کھوتا یاد ہے جو نمک سمیت ندی میں بیٹھ گیا تھا۔ جب وہ اٹھا تو نمک پانی میں بہہ گیا تھا اور وہ ہلکا پھلا پھر رہا تھا۔ اس دوست وزیر نے بتایا کہ وہ بھی ویسا سا ہلکا پھلکا ہو گیا۔

اس گپ شپ کے بعد وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ سالانہ صوبائی بجٹ پر اعتراض کیا تھا۔ میرے حلقے کے لئے سالانہ بجٹ میں ڈھائی لاکھ روپئے رکھے گئے تھے۔ ان پیسوں کے ساتھ میں حلقے کے کونسے مسائل حل کروں گا۔ حلقے کی مقامی سیاست تھی جو ایک منظم جماعت کے نوجوان وزیر کو مشتعل کر گئی تھی۔ اس وقتی اشتعال نے بھی اس کی قاضی صاحب سے بلے بلے ہی کرائی تھی۔

مقامی سیاست سے ہی یاد آیا پشاور کے اکثر ضلع ناظم اگر پختون بھی ہوں تو وہ ہندکو بھی اتنی ہی اچھی بولتے ہیں۔ یہ مقامی سیاست کے تقاضے ہی ہیں جو پشاور کوئٹہ کے رہنے والوں کو ایک سے زیادہ زبانوں میں رواں رکھتی ہے۔ پرویز مشرف نے جو ایک اچھا کام کیا تھا اپنے دور میں وہ بااختیار مقامی حکومتوں کا قیام تھا۔ الطاف حسین کی متحدہ کو جب کراچی میں اختیار ملا تو اس کا ناظم شہر کے کام کرانے کو بھاگتا دوڑتا دکھائی دیتا تھا۔ اس سے پہلے نعمت اللہ خان نے اپنی پارٹی کے لئے نام کمایا تھا۔

ہمارے بہترین سیاسی دماغ جب اٹھارہویں ترمیم کرنے مل کر بیٹھے تو انہوں نے بہت اچھے فیصلے کیے۔ پر دو کام برے کیے ضیا آمریت نے آئیں میں جو ترامیم گھسا کر ان کا حلیہ بگاڑا تھا ان کو چھیڑنے سے گریز کیا۔ دوسرا برا کام یہ کیا کہ کہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ فراہم نہیں کیا انہیں صوبائی معاملہ قرار دے دیا۔

صوبائی معاملہ قرار دینے سے یہ ہوا کہ ہماری چھوٹی سوچ اور تھوڑے دل والی سیاسی قیادت مقامی حکومتوں کے قیام سے ہی بھاگ گئی۔ سپریم کورٹ نے ڈنڈے کے زور پر بلدیاتی انتخابات کرائے۔ انتخابات ہو گئے ہیں مقامی حکومتیں قائم بھی ہو گئیں۔ اب اپنے اختیارات کے لئے منہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھ رہی ہیں۔

الطاف حسین کو پاکستانی سیاسی افق سے اوجھل کر دیا گیا ہے۔ ان کی وارث کے طور پر متحدہ پاکستان سامنے آئی ہے۔ یہ مقامی حکومت اور مقامی سیاست کا پریشر ہی ہے کہ متحدہ پاکستان بھی کراچی صوبے کی باتیں کر رہی ہے۔ جب ان حکومتوں کو اختیارات نہیں ملیں گے تو ایسی باتیں ہر جگہ سننے کو ملیں گی۔

کچھ دن پہلے اخبارات میں خبریں آئیں کے جنوبی پنجاب کے لئے مختص دو ارب کا فنڈ لاہور کے ترقیاتی کاموں کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ لاہور کا ترقی کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بری بات یہ ہے کہ صرف لاہور ہی ترقی کرے۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ یہ ترقی بھی دوسروں کا حق مار کے کی جائے۔

پاکستان میں نیشنل فائنانس کمیشن ایوارڈ صوبوں میں وسائل کی تقسیم کا ایک نظام ہے۔ یہی نظام صوبوں کے لئے ضروری ہے کہ اضلاع میں وسائل کی تقسیم کے لئے اختیار کریں۔ یہ ڈھیلا ڈھالا انتظام موجود بھی ہے۔ اس پر عمل درامد نہیں ہوتا۔ اضلاع یا مقامی حکومتوں میں بھی وسائل کی تقسیم کے نظام کو آئینی تحفظ دینا چاہیے۔

بلدیاتی ادارے ہم نے بنا تو لیے ہیں۔ انہیں اگر اختیار نہیں دیں گے تو انہی اداروں سے کوئی تحریک اٹھے گی۔ یہ تحریک اتنی طاقتور بھی ہو سکتی ہے جو پاکستان میں صوبوں کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دے۔ مقامی حکومتوں میں جیت کر آنے والے لوگ سیاست اور الیکشن کی مہارت رکھنے والے کھلاڑی ہی ہوتے ہیں۔ انہیں کپتان جیسے یا کسی نئے سیاسی چہرے نے اپنے حقوق کے لئے اکٹھا کر دیا تو سب کچھ بدل جائے گا۔

ایسا ہونا تو ہے کب ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ اتنا ضرور دکھائی دیتا ہے کہ یہ مقامی حکومتیں ہی ہوں گی جن کی وجہ سے مقدس گائے بنے صوبوں پر چھری پھر کے رہے گی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments