کائنات اور کم علم لبرل دانشوروں کا المیہ


\"\"مذہب اور سائنس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ سائنسی مفروضہ جات کو تجربے سے ثابت کرنا ہوتا ہے لیکن مذہب مفروضے کو بلا تصدیق حقیقت مان لینے کا نام ہے۔ کائنات کی تخلیق کے بارے میں سائنسی مفروضہ یہ ہے کہ اس کا بننا اور برباد ہونا ایک مسلسل عمل ہے، لیکن برباد ہونے سے کائنات کے سمٹ کر ایک نقطے میں مرتکز ہونا لیا جاتا ہے، جیسے ایک مہین بیج میں ایک تناور درخت کا وجود ہوتا ہے لیکن کائنات جس نقطے میں مرتکز ہوتی ہے اس میں پوری کائنات کے ستاروں، سیاروں، کہکشاؤن غرض تّمام اجرام قلکی کا پورا وزن بھی ہوتا ہے جسے وزن کی بجائے کمیّت کہنا درست ہوگا۔ پھر یہ نقطہ ایک مہیب دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے اور یوں پھر سے کائنات کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے۔

کائنات کی تخلیق کے عمل کو سمجھنے کی خاطر سائنسدانوں نے، کچھ ہی عرصہ پیشتر، اس فرضی دھماکے، جسے \”بگ بینگ\” کہا جاتا ہے، کے اولین سیکنڈ کے اربویں لمحے کو جاننے کی خاطر، اربوں ڈالر کے خرچ سے فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر زیر زمین تعمیرونصب کی جانے والی مشین \” لارج ہیڈرون کولائڈر\” میں اس سے مماثل ایک بہت ہی کم طاقت کا دھماکہ کیا تھا اور فی ا لحال اس دھماکے سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔

عام آدمی کے لیے یہ بات سمجھنا خاصی مشکل ہو جاتی ہے کہ اول تو \”بگ بینگ\” سے کائنات کی تخلیق ہونے کا تصور ایک مفروضہ ہے، دوسرے کائنات کی اس طرح سے تخلیق کے پہلے سیکنڈ کے اربویں لمحے کے بارے میں جان کر بھلا کیا حاصل ہو گا۔ کائنات بذات خود سنکھوں، پدموں میلوں پر محیط ہے اور تصوّر یہ ہے کہ یہ لمحہ بہ لمحہ مزید پھیل بھی رہی ہے۔ کائنات میں ارب ہا کہکشائیں ہیں جن میں سے ہر ایک میں سینکڑوں نظام ہائے شمسی ہیں، جو درجنوں سیّاروں، دمدار ستاروں اور بڑے، چھوٹے شہابیوں پر مشتمل ہیں۔ کئی ستارے پیدا ہو رہے ہیں اور کئی ستارے مر رہے ہیں، مرنے والا ستارہ مرنے سے پہلے سینکڑوں، ہزاروں گنا پھول جاتا ہے، یعنی سورج سوا نیزے پہ آ جاتا ہے، کئی سیاروں کو یہ خود نگل لیتا ہے اور باقی اس کی موت کے بعد فنا ہوجاتے ہیں۔ ہر شے کی ایک انتہا ہوتی ہے، انتہا کے بعد مراجعت اور مراجعت کے بعد عدم، لیکن مادہ جو ٹھوس، مائع اور گیس پر مشتمل ہوتا ہے، عدم نا آشنا ہے، مادہ ختم نہیں ہو سکتا، بس ہئیت بدل لیتا ہے یعنی ٹھوس سے مائع اور مائع سے گیس، شکل یا ہئیت کی اس تبدیلی کو ہی عرف عام میں عدم یا فنا کا نام دیا جاتا ہے۔

بگ بینگ تھیوری کے مطابق کائنات تخلیق کے پہلے لمحے کے اربویں، کھربویں حصے میں ہی اربوں کھربوں میل میں پھیل جاتی ہے، پھر بکھر چکے ذرات سے ہی اجرام بنتے ہیں جو سبھی ایک مخصوص سمت میں انتہائی تیزی کے ساتھ گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ انتہائی گرم اجرام یعنی ستارے اپنے ہی محور کے گرد متحرک رہتے ہیں مگر جو اجرام آہستہ آہستہ بظاہر سرد پڑ جاتے ہیں، اگرچہ ان کا اندروں ویسے ہی دہکتا ہوا مائع ہی ہوتا ہے، اپنے محور کے گرد گھومنے کے علاوہ نزدیک ترین ستارے کا بھی طواف کرنے لگ جاتے ہیں۔

ذرات کے اجتماع سے تخلیق پانے والے اجرام کا باوزن ہونا اور باوجود تیز ترین تحرّک کے ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلے پر ہی رہنا اور آپس میں نہ ٹکرانا، ابھی تک ایک راز ہے۔ عام فہم تصور یہ ہے کہ سبھی اجرام و اجسام فلکی، جن میں ظاہر ہے ہماری آپ کی یہ زمین بھی شامل ہے جس پر میں، آپ اور باقی سب محسوس کیے بغیر خلا میں معلّق ایک کرّے پر بستے ہیں بلکہ اس پر پاؤں کے بل جمے متحرّک مگر معلّق ہیں۔ اپنی اپنی کشش ثقل کے باعث تناؤ یا کھچاؤ کی بدولت ایک مخصوص فاصلے پر رہتے ہیں۔ ایک اور کم فہم تصور یہ ہے کہ ایک نا دیدنی خاص مادہ ان سبھوں کو خاص خاص مقامات پر رکھے ہوئے ہے۔ اس نظر نہ انے والے مادے کو \”بلیک میٹر\” یعنی مادہ سیاہ کا نام دیا جاتا ہے۔

پروفیسر ھگس 80 برس کے ہیں۔ انہوں نے چالیس برس پہلے ایک مفروضہ دیا تھا کہ کائنات کی ابتدا میں جوہر یعنی ایٹم سے بھی مہین تر ایک اور ذرہ تھا، جس کے سبب تمام جوہروں میں کمیت پیدا ہوئی تھی اور یوں تمام اجرام و اجسام فلکی کو وزن مل پایا تھا۔ اس کے علاوہ کائنات میں مختلف کہکشاؤن بیچ ایک یا ایک سے زیادہ بے حد مہیب اور جثیم دھبوں کا وجود ملا ہے جو سورج سے بھی کئی سو گنا بڑے اجرام فلکی کو نگل لیتے ہیں، ان دھبوں کو \”بلیک ہولز\” کہا جاتا ہے۔ ان سیاہ سوراخوں کے بارے میں ریاضیاتی مفروضہ جات کے خالق، بولنے چلنے سے قاصر دنیا کے نابغہ روزگار سائیندان سٹیفن ہاکنگ ہیں، جن کے مطابق یہ وہ مقامات ہیں جہاں کشش ثقل اپنی انتہائی گاڑھی حالت میں مجتمع ہوتی ہے، اتنی گندھی ہوئی کہ روشنی تک کا بھی اس میں سے گزر نہیں ہو پاتا، اسی لیے وہ بالکل سیاہ ہیں۔ لامتناہی کشش ثقل کے باعث وہ ہر باوزن جسم کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔ سیاہ سوراخ کے دوسری جانب کیا ہے اور اس کے اندر کیا عمل پذیر ہے، کسی کو معلوم نہیں۔

رہی روشنی، تو ضمناً بتاتے چلیں کہ اس سے متعلق، کچھ عرصے سے تا حال مانا جانے والا مفروضہ یہی ہے کہ روشنی توانائی کے گچھوں کے مجموعے سے بنتی ہے۔ روشنی بذات خود دکھائی نہ دینے والی شے ہے، روشنی تب ھی روشنی کہلاتی ہے جب وہ کسی مجسم شے پر پڑتی ہے۔ خلا میں ماسوائے اندھیرے کے اور کچھ نہیں اگرچہ کائنات میں ہمارے سورج سے بھی ہزاروں، لاکھوں گنا بڑے سورج (ستارے) روشن ہیں۔ ویسے یہ کتنا عجیب لگتا ہے کہ اگر زمین، عمارتیں، درخت، پتھر، بکری، نالی، کتاب، گھڑی، شلوار، دوپٹہ اور دیکھنے والی آنکھیں نہ ہوں تو ہمارا سورج بھی نہ نظر آنے والا ستارہ ہے، باقی اربوں ستاروں کی طرح۔ تبھی تو روشنی یا نور اس قدر الوہی اور پر اسرار حیثیت کا حامل ہے۔ ایک اور مظہر بھی اس سے کمتر پراسرار نہیں یعنی وقت۔ عام طور پر وقت گھڑی پر دیکھے جانے والے گھنٹوں، منٹوں کو سمجھا جاتا ہے یا مہینوں، دنوں کو مگر یہ سب خود کو وقت سے آگاہ کرنے کی خاطر وقت کے لیے وضع کردہ پیمانے ہیں۔ زمیں کی سورج کے مدار کے گرد گردش کو بارہ حصوں میں بانٹ کر، زمین کی اپنے محور پر گردش کو ایک دن رات جان کر اور الوہی کتابوں میں درج زمین آسمان بنائے جانے کے چھ روز اور ایک روز آرام کو سات دن کا ایک ہفتہ مان کر، ہفتوں کو مہینوں میں منقلب کیا گیا اوریوں زمین کی سورج کے مدار کے گرد گردش کی تکمیل کو ایک سال کہا گیا۔ کسی بھی دوسرے سیارے پر وقت کے یہ پیمانے ناکارہ ہو جاتے ہیں اگر ہم کچھ اس بارے میں سمجھ پاتے ہیں تو محض اپنے مفروضہ وقت کے تقابل سے۔ وقت سکڑ بھی سکتا ہے اور پھیل بھی سکتا ہے۔ وقت ایک لچھے دار سپرنگ کی مانند ہے لا منتہا، ازلی اور متنوّع۔

لا علمی تو ویسے ہی موجب اطمینان ہے لیکن کم علمی خوف وخدشات کو جنم دینے کا باعث بنا کرتی ہے۔ لارج ہیڈرون کولائیڈر کے تجربے سے پہلے سائنس کا کم علم رکھنے والے \”روشن دماغوں\” نے بہت خوف پھیلایا تھا، کہ اس تجربے سے ایک بلیک ہول پیدا ہوجائے گا جو زمیں کو ہی نگل لے گا، مگر ایسا نہیں ہوا، اور اس تجربے کے شواہد سے سائنسی تکنیکی انقلاب اپنی کامیابی کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا، کیونکہ عام بجلی سے ڈیجیٹل کمیونیکیشن یعنی انٹرنیٹ تک ذرات سے وابستہ سائنس یعنی \”پارٹیکل فزکس\” کے طفیل ہی ہمیں دستیاب ہیں۔ اور اس بارے میں مذکور تجربے سے جو علم حاصل ہوگا، آج تک حاصل شدہ علم اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔

ذراتی عمل کے ضمن میں ایک واقعے کا بیان کیا جانا باعث دلچسپی ہوگا۔ یہ واقعہ 30 جون 1908 کو سائیبیریا کے ایک دورافتادہ مقام \”تونگ اسک\” پہ پیش آیا تھا۔ دھوپ بھری گرمیوں کی صبح تھی۔ سورج پوری آب وتاب سے درخشاں تھا کہ ایک اور سورج ابھر آیا، جو تیزی کے ساتھ زمین کی طرف آ رہا تھا۔ پھر دھماکے اور گڑگڑاہٹیں سنائی دیں۔ زلزلے کی شدت ماپنے والا آلہ 1938 تک ایجاد نہیں ہوا تھا لیکن بہت بعد میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق اس دھماکے کی شدت 3۔5 درجے کے زلزلے کی سی تھی۔ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا وہاں سے دور دراز اکّا دکّا چھدری آبادیاں تھیں، جبکہ اس زمانے میں ذرائع رسل و رسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ پہلی سائنسی تحقیقی مہم 1928 میں روانہ کی گئی تھی۔ اس محیّرالعقول واقعے کے باعث 1080 مربّع کلومیٹر علاقے میں تمام کے تمام درخت پتوں اور ٹہنیوں سے خالی دھماکے والے مقام سے دوسری جانب رخ کیے گرے پڑے تھے۔ کہیں بھی آسمان سے گرنے والی کسی شے کا سراغ نہیں ملا تھا۔ سارے جاندار مر چکے تھے۔ ابتدائی اندازہ یہ تھا کہ شاید گرنے والا گیس اور ذرات سے بنا دمدار ستارہ ہو، بعد میں اندازہ کیا گیا کہ ایک شہاب ثاقب تھاجو ریزہ ریزہ ہو گیا ہو گا۔ اس کے بعد دوسری مہمیں 1990 کے بعد ہی وہاں جا سکی تھیں۔ دمدار ستارہ یا شہاب ثاقب، جو کچھ بھی تھا اگر گرنے سے پہلے ہی جل کر خاک ہو کر کے زمیں تک پہنچا تھا تو پھر وہ دھماکہ کیا تھا جس کے سبب درخت سر بسجود ہو گئے تھے، جانور ہلاک ہو گئے تھے اور زمین دھل گئی تھی۔ اگر کوئی بڑا شہاب ثاقب زمین سے ٹکراتا تو زمیں مین ایک بہت بڑا گڑھا ہوتا۔ درختوں کے گرنے کے انداز اور ان کے بے برگ و بار ہونے سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ یہ جوہری دھماکہ تھا، مگر سوال یہ تھا کہ جوہری دھماکہ کیونکر ہوا۔ یہ مفروضہ بھی سامنے آیا کہ جوہری توانائی سے چلنے والی کسی اڑن طشتری کو حادثہ پیش آیا ہوگا، لیکن پھر اس مٍفروضہ طشتری کے اجزا کہاں گئے۔ بالآخر اب تک جو اجزا تلاش کیے جا سکے وہ کسی خلائی مخلوق کے جہاز کے اجزا کی بجائے شہاب ثاقب کے ہی اجزا ثابت ہوئے۔ ہوا میں ہونے والے دھماکے کے زمین پر مرتب ہوئے اثرات کے بارے میں روسی سائنس اکادمی کے ماہرین طبیعات نے جو باتیں کی ہیں وہ لگتی ما بعدالطبیعات کی سی ہیں لیکن ہیں درست ۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین ایک زندہ وجود ہے جو اپنے تحفظ کی خاطر اپنے وسائل بروئے کار لا سکتی ہے، جب ایک بڑا شہاب ثاقب زمیں کی طرف بڑھ رہا تھا تو زمین نے اپنی انتہائی برقی مقناطیسی توانائی اس پر داغ کر اسے خود سے ٹکرانے سے پہلے ہی دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس توانائی کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ذرہ جاتی طبیعاتی عمل کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ ماورائی نوعیت کی اس فطری سائنس کے حق میں اکثر سائیندان متفق ہیں کہ زمین پر کچھ ایسے مقامات ہیں، جہاں برقی مقناطیسی توانائی کے ارتکاز کے سبب ماورائے شعور سے لو لگانا ممکن ہوتا ہے اور انسان ماضی و حال و مستقبل کے واقعات و حادثات، عوامل و اسباب سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ روسی سائنسدانو ں کی کہی یہ باتیں ریکارڈ پر ہیں۔ ماورائے شعور، کلّ شعور اور ماورائیات پر امریکہ کے علاوہ روس کی یونیورسٹیوں میں بھی بہت کام ہو رہا ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک انسٹی تیوٹ کے تحقیقی ادارے کے ایک پروفیسر کے کیے گئےتجربات کے نتائج کے مطابق ہر انسان کے دماغ میں اس کے مستقبل کے واقعات، ساتھی اور دشمن سبھی کا اندراج ہوتا ہے تا حتّی ان کے نام تک عمل تنویم کے ذریعے معلوم کیے جا سکتے ہیں۔

ہمارے انتہائی روشن خیال، بے حد سائنسی سوچ کے حامل مادیت پرست دانشور ایسی باتوں پر چاہے کتنی ہی ناک بھوں کیوں نہ چڑھائیں لیکن دنیا میں طبیعات اور مابعدالطبیعات کو لازم و ملزوم گردانے جانے کی خاطر تجربات ہو رہے ہیں اور یہ تجربات انسانیت کی معراج کے ضمن میں ضروری ہیں۔ کم علمی سے بچنا خوف سے نجات ہے اور بہت زیادہ علم مزید خواب وخیال کی انگیخت کا سبب، جس سے مزید مفروضے جنم لیں گے، اور تجربات ہونگے اور نئے در وا ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments