شاہدرہ اور ترلوک شاہ کے یار


شاہدرہ اب گراموفون کا وہ پرانا ریکارڈ ہے جسے صرف دل کی تسلی کے لئے سنبھال رکھا ہے۔ کچی پکی پگڈنڈیاں اب تارکول کی دبیز تہوں میں میرے اس بچپن کے ساتھ دفن ہیں۔۔۔ جس کی میں نے صرف آرزو کی تھی۔ اس باغ دلکشا میں اب ہر طرف پینا فلیکس ہیں، موبائل ٹاور ہیں اور شور مچاتے رکشے۔ نہیں ہے تو وہ کشادگی جسے دل ڈھونڈتا ہے۔۔۔۔

 ٭ ٭٭    ٭٭٭

 شاہدرہ کی کہانی ریل کی پٹڑی سے کچھ جڑی اور کچھ علحدہ سی ہے۔ پہلے پہل اس جگہ کا نام باغ دلکشا تھا۔ مکین بدلتے گئے تو نام بھی بدل گیا، اور اسے شاہدرہ باغ کہا جانے لگا۔ البتہ پچھلے کچھ عرصے سے اسے شاہدرہ کہا جاتا ہے۔ ریلوے سٹیشن کی تختی پہ البتہ اب بھی شاہدرہ باغ ہی لکھا ہے۔ بستی تو کچھ تین چار سو سال پرانی ہے مگر ہر ایک نانک چندی اینٹ صدیوں کا قصہ کہتی ہے۔ اندر ہی اندر ایک دوسرے کو ڈھونڈھتی ہوئی گلیاں، بوڑھی عورتوں جیسی محبتوں اور کدورتوں سے یکساں بھرپور ہیں۔ شاہدرہ کی سرشت میں اتنا اختلاف ہے کہ نیچے کی منزل پہ ساس دیور سامنے والوں سے ہاتھ نہیں ملاتے اور اوپر کی منزل سے بہوئیں چوری چوری کڑھی کے ڈونگے ایک دوسرے کو بھجواتی ہیں، اس بات سے بے نیاز کہ سب سے اوپر والی چھت پہ لڑکی صرف بال نہیں سکھا رہی اور لڑکا صرف پتنگ نہین اڑا رہا۔ اس پوری صورت حال کا ادراک سارے گھر میں صرف اس بوڑھے دادے کو ہے جو اب بھی کان سے ریڈیو اور حقے سے ہونٹ لگائے بیٹھا ہے۔

چلے چلتے کان پڑی آواز سنائی دی۔ شاہدرہ شاہواں دا، لاہور بادشاہواں دا، پتہ لگا کہ مغل بادشاہ ہر وہ جگہ پسند کرتے تھے جو دریا کے کنارے آباد ہو۔ لاہور تو امور سلطنت نبٹانے کے لئے رکھ لیا گیا اور شاہدرہ کو آخری آرام گاہ کے طور پہ منتخب کر لیا۔ کچھ دیر تک تو یہ جگہ خاموش، پر فضا اور پر سکون رہی مگر اب اس کی وجہ شہرت یہاں کی رونق اور گہما گہمی ہے۔ ہندوستان بھر سے آئے لوگ جب صدیوں تک راوی کا پانی پی پی کر بعد ایک ہوئے تو ایک مخصوص ثقافت نے جنم لیا۔ اس میں لوہڑی کا جشن، بسنت کا رنگ، عیدین کی سرخوشی، رمضان کا اہتمام اور محرم کا احترام سب کچھ تھا۔ شاہدرہ کے لوگ ہر تہوار کو اپنے رنگ میں پورے جوش سے مناتے ہیں اور مناتے ہی چلے جاتے ہیں۔ محرم کی آمد ہو تو سارا شاہدرہ سیاہ پوش ہو کر حزن کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور عید میلاد پہ ایک سبز سی چادر اسے اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ بسنت میں آسمان رنگ کے سیلاب میں اٹ جاتا ہے ۔ مگر اب شاہدرہ بہت پھیل گیا ہے، مریدکے سے ادھر ادھر اور بیگم کوٹ کے پرے، رنگ روڈ کی سرحد اور نہر دریا کے پاس سب کا سب شاہدرہ ہے۔ میں نے ایک پرانے باسی سے پوچھا کہ اگر دوبارہ زندگی ملے تو کہاں رہو گے کہنے لگا کہ اس بار راوی کے پار، کیونکہ اس طرف ٹریفک بہت ہو گئی ہے۔

بادشاہوں کی گزر گاہ کے باعث اس قصبے کا نام شاہدرہ رکھا گیا۔ جب مقبروں اور مزاروں کی تعمیر شروع ہوئی تو بہت سے لوگ روزگار کے وسیلے ڈھونڈھتے یہاں تک آ پہنچے۔ پتھر کوٹنے والے آئے تو ان کے ساتھ محلہ سنگ تراشاں آباد ہو گیا، چھوٹی چھوٹی بات سے بڑے مطلب نکالنے والے یہ لوگ بلا کے نکتہ بین ہیں۔ محنت کش پٹھان آئے تو ان کے ساتھ محلہ ککے زئیاں آباد ہو گیا۔ ککے زئی عورتیں لڑنے میں اور دامادوں کی پوجا کرنے میں بہت آگے ہیں، تعلق کے تاگے سے مضبوط بندھے یہ لوگ آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور حتی الامکان باہر نہیں نکلتے ۔ ضرورتوں نے منہ کھولا تو ساہوکار بھی آ گئے اور محلہ گوجراں بھی آباد ہو گیا۔ عقیدت کے ماروں نے مندر بھی آباد کئے، گرودوارے بھی تعمیر کئے اور ایک پیر قندھاری شاہ کا محلہ بھی ہے۔ ترلوک شاہ کی گلی سے پیر چنگی کے محلے تک شاہدرہ کی کہانیاں ڈھوتے ڈھوتے قلم کی آہیں نکل گئی۔

اب جس جگہ شاہدرہ موڑ ہے اور شیخو پورہ سے آنے والی سڑک شاہدرہ کو جاتے ہوئے جرنیلی سڑک سے آڑی ہو کر ملتی ہے، اس علاقے کو پہلے لکھی شاہ کا چوک کہتے تھے۔ لکھی شاہ کا اصل نام اب کسی پرانی اینٹ کے نیچے دب گیا ہے۔ یا ان تنگ گلیوں میں کسی سرگوشی کی مانند دبکا پڑا ہے مگر پنجاب کے اس حصے میں رزمیہ گیتوں کے نہ لکھے جانے کی اصل وجہ لکھی شاہ ہے۔ لکھی شاہ اس علاقے کا بہت بڑا جاگیردار تھا۔ کہتے ہیں جب پہلی جنگ عظیم لگی تو انگریزوں نے اسے طلب کیا اور فوج کے لئے جوان مانگے۔ لکھی شاہ نے پس و پیش کی تو انگریز نے جوان مہیا نہ کر سکنے کی صورت میں سزا کے طور پہ ایک لاکھ روپے کا جرمانہ کرنے کی دھمکی دی۔ لکھی شاہ شاہدرہ کو بہت قریب سے جانتا تھا سو سوچنے کی مہلت لے کر واپس لوٹا۔ اس نے ایک لاکھ روپے کا بندوبست کیا اور انگریز سرکار کے حضور پیش کیا، لیفٹینینٹ گورنر نے لکھی شاہ سے اس قدر جلد فیصلے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ شاہدرہ کے لوگ اپنے بیوی بچوں سے دور نہیں رہ سکتے۔ میں نے لوگوں کے فیصلے کا انتظار نہیں کیا اور جرمانے کی رقم لے آ یا ہوں۔

پرانی گلیوں میں ترلوک شاہ کی گلی ایک ہندو آڑھتی کے نام پہ آباد تھی۔ کچھ تو ترلوک شاہ صاحب ثروت تھا اور کچھ اس زمانے میں ابھی فارن کرنسی اکاﺅنٹ کا چکر نہیں چلا تھا سو سارے جمع جوڑ سے اس نے ایک بڑی سی حویلی بنائی۔ حویلی کے ایک طرف ارجن سنگھ کی چکی تھی جس سے پورا شاہدرہ اناج لیتا تھا۔ پاس ہی پری محل تھا، جو کسی نے کسی کی یاد میں بنوایا تھا اور اب یادوں کے کھندڑ کی مانند ویران ہے۔ اس میں مکین تو بستے ہیں مگر کچھ اوپرے اوپرے سے۔

 ترلوک شاہ کی حویلی پہنچے تو باہر بیٹھے ایک بوڑھے شخص نے حقے کی نے سے ہونٹ جدا کئے اور پرانے وقتوں کا قصہ شروع کیا۔

” جب تقسیم ہوئی تو سب کچھ ٹھیک تھا۔ تر لوک شاہ کی ماں کو پورا شاہدرہ بے جی کہتا تھا۔ حالات زیادہ بگڑے تو ترلوک شاہ نے ملٹری سے مدد مانگ لی۔ جس شام فوج نے آنا تھا اس دن سویرے ایک تانگہ شاہ عالمی سے آ کر رکا۔ تانگے کے تین سواروں نے آہستہ آہستہ کچھ مجمع اکٹھا کیا اور لوگوں کو پناہ گیروں کی داستان سنانا شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے محلے کے تیور بدلنا شروع ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہی تین لوگ ترلوک شاہ کی حویلی کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ جب وہ نیچے آ ئے تو ان کے ہاتھوں میں بڑی بڑی بوریاں تھیں جو سکوں اور زیوروں سے بھری تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے حویلی کے اردگرد مٹی کا تیل چھڑک کر آ گ لگا دی۔“

بوڑھے نے حقے کی نے دوبارہ منہ سے لگا لی۔ ترلوک شاہ کی کہانی بھی تقسیم کی ان گنت کہانیوں میں سے ایک ہے، جس میں مسلمانوں کا دین، ہندوﺅں کا مذہب اور سکھوں کا دھرم تو بچ گئے مگر انسانیت سسک سسک کر دم توڑ گئی۔ مسافر چلنے لگا تو حقے کی نے سے دوبارہ آ واز آئی،

”اتنا وقت بیت گیا تم اب کیوں آئے ہو، میں نے بتایا کہ تقسیم کی کہانیاں لکھتا ہوں۔ کہنے لگا۔ پھر یہ بھی لکھو کہ آزادی اب ستر برس کی ہو گئی ہے مگر میں اب بھی بے جی کی اس آواز میں قید ہو ں جو اس نے مجھے کوٹھے سے دی تھی۔۔وہ روتی جاتی تھی اور ہمیں کہتی جاتی تھی،

“پتر تسی تے ترلوک دے یار ہو….”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments