’گرم انڈے‘ کی آواز میں گونجتے ماؤں کے خواب


\"\"سردیوں کی شامیں اور راتیں اپنے اندر عجیب سا سناٹا لیے ہوتی ہیں۔ ایک گہری چپ کا احساس جسے سننے کے لیے خاموشی کی ضرورت نہیں کیونکہ احساس اتنی شدت سے گونجتا ہے کہ اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ ایسی خاموشی میں جو بظاہر تو پر ہنگم ہے مختلف آوازیں گونجتی ہیں جو اس سرد اور بے کیف احساس میں زندگی بھر دیتی ہیں۔۔ انہیں آوازوں میں ایک آواز حدت بکھیرتی ’’گرم انڈے‘‘ کی صدا بلند کرتی ہے۔ لوگوں کے لیے ہو سکتا ہے یہ وقتی خوشی کا باعث ہو لیکن بہت سے خواب، جیسے دو وقت کھانا کھانے کا خواب، گھر جلدی جانے کا خواب، سردی اور خوف سے بچنے کا خواب انہیں آوازوں کے پیچھے کہیں دبا ہوتا ہے۔ بات سننے میں عجیب لگتی ہے لیکن حقیقت ہے۔ کچھ لوگوں کے خواب یہی ہوتے ہیں، ان کے آنکھوں میں بڑے خواب بسیرا نہیں کرتے کیونکہ بھوک کچھ سوچنے کا موقع ہی کب دیتی ہے۔

لیکن خواہشیں پھر بھی اندھی ہوتی ہیں۔ امیر غریب کا فرق نہیں کر سکتیں۔ اگر کر سکتیں تو غریبوں کے صحنوں میں ڈیرے نہ لگاتیں۔ ان کی آنکھوں میں گھر نہ بساتیں لیکن اندھا ہونے کی وجہ سے کہیں بھی جا بستی ہیں۔ ان آنکھوں میں بھی جنہیں یہ تک خبر نہیں ہوتی کہ صبح کا کھانا کھایا ہے تو رات کا ملے گا بھی یا نہیں۔ ایسی خواہش اکبر کی ماں کے دل میں بھی تھی۔ گھر میں کھانے کو دو وقت کا کھانا نہ تھا لیکن خواب تھا اولاد کو پڑھانے کا۔ اولاد بھی وہ جس میں ہر نئے سال میں ہندسے کی طرح اضافہ ضروری تھا۔ ایسی اولاد کو پالنا کسی ریوڑ کی رکھوالی کے مترادف ہوتا ہے کہ سب کی بھوک پیاس کی ضرورت بھی پوری کی جائے اور ساتھ ہی ضد کرتی بھیڑوں کو بہلاوا دے کے راستے پہ بھی رکھا جائے۔ اور یہ بہلاوا تھا اچھے مستقبل کا۔ وہ کتنے سہل انداز سے بچوں کو سمجھاتی کہ وقت برا سہی گزر جائے گا۔ سکول جاؤ، کیا ہوا جوتے کپڑے نہیں، سرکاری سکول کی کتابیں تو ہیں، پڑھ لو۔

ماں صحیح کہتی تھی وقت برا تھا، بہت ہی بھیانک، لیکن گزر گیا۔ اکبر آج اپنے گرم بستر میں بیٹھا جب گرم انڈے کی آواز سنتا ہے تو اس کا دل نجانے کیوں ڈوب جاتا ہے۔ سردیوں کی شاموں کے پھیلتے سائے اسے بے چین کرتے ہیں۔ گھر کا سکون، بچوں کے ہنستے مسکراتے چہرے، بیوی کی محبت سب ماند پڑ جاتا ہے۔ ایک خواب ہے بہت بھیانک، خواب ہر طرف سے گھیرنے لگتا ہے۔ سردیوں کی راتوں میں جب اس کا دل چاہتا کہ آج ٹھنڈ بہت زیادہ ہے تو آج وہ باہر نہ نکلے لیکن وہی تو کمائی کا موقع ہوتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن، گاڑی کے آنے کی گڑگڑاہٹ، پھر بھاگ کے کسی ڈبے میں چڑھنے کی جلدی، لوگوں کی گھورتی، قہر کھاتی نگاہیں، کچھ بھی اس کا حوصلہ نہیں توڑ سکتا تھا۔ کیونکہ ایک خواب اس کو گرماتا تھا۔ لیکن منظر پھر بدلتا ہے چار پانچ گھنٹے کی مشقت بظاہر ختم ہو جاتی تھی لیکن گھر واپسی کا سفر پر خطر وادی کا سفر لگتا تھا کہ جس کے آخر میں اسے نیند کی مہربان دیوی سے واسطہ پڑے گا۔

کتنا دشوار تھا جب رات کو گھر واپسی ہوتی تھی۔ سات سال کا بچہ کتنا خوف ذدہ ہوتا جب راستے میں گلی کے کتوں کا غول نظر آتا۔ گھر پہنچنے کی جلدی، سردی اور خوف، پھر خوف سے بچنے کا راستہ چننا ناگزیر تھا۔ لمبے راستے سے گھر واپسی کرنی پڑتی۔ دل پھوٹ پھوٹ کے رونے کو چاہتا۔ کتوں پہ غصہ آتا کہ انہیں کوئی اور راستہ کیوں نہیں ملتا۔ رونا بے فائدہ تھا کہ چپ کون کرواتا؟ یہ خوف ایک فائدے کا باعث تھا۔ راستہ لمبا چننے کے باوجود وہ گھر جلدی پہنچ جاتا تھا۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد ماں کا چہرہ دیکھ کے کبھی کبھار اسے غصہ آنے لگتا۔ کیا ضرورت تھی اسے پیدا کرنے کی؟ لیکن تھکن اتنی شدید ہوتی کہ پرسکون نیند جلد ہی مہربان ہو جاتی تھی۔

وقت بدل گیا سب کچھ بہتر ہوگیا۔ لیکن دل کی پھانس نہیں جاتی۔ آج بھی گرم انڈے کی آواز اسے اندر ہی اندر رلا دیتی ہے۔ انسان ناشکرا جو ہوا، آج کے سکھ میں کل کا دکھ ملا کے ہنستے ہوئے رونا چاہتا ہے۔ وہ بھی ہنستے ہوئے روتا ہے۔ لیکن کبھی کسی سے کہتا نہیں کہ اس کے لیے انڈے بیچنے کی آواز کتنی خوفناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments