اخلاقی بحران… آنسو ٹھہر جاتا ہے


\"\"برادرم حامد میر نے حالیہ کالم میں ہماری ناکام قیادت اور اس کے پس پشت کارفرما اخلاقی بحران کے کچھ زاویے بیان کئے۔ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے غزل لکھی ۔ ’تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں‘۔ علامہ اقبال کو دکھائی ۔ فلسفی شاعر نے فرمایا ۔ کاغذ قلم لو اور لکھو ۔ یوں اردو شعر کی روایت میں وہ غزل ایزاد ہوئی ۔ ’اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں‘۔ اشارہ یہ تھا کہ کچھ سوال اٹھانا ابھی باقی ہے۔ رواں ہفتے کی کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ پھر ایک پیش پا افتادہ کہانی سنائیں گے اور پھر کچھ سوال اٹھائیں گے۔ سوال اٹھانے کا بار ہمارے کندھوں پر ہے ۔ سوالات کا جواب پڑنے والے کے ضمیر میں پوشیدہ ہے۔ سوال کی مضراب پیش کی جا سکتی ہے ۔ نغمے کی نوا پڑھنے والے کے تارنفس میں ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے سعودی سفیر سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ ہم سعودی عرب کے دفاع کو پاکستان کے دفاع کے برابر جانتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنے حلقے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسلام کے خلاف اٹھائی جانے والی ہر آواز کا جواب دیا جائے گا۔ سابق صدر پرویز مشرف خلیج کے ایک نیم روشن کوچے میں لمحہ موجود کی داد دیتے پائے گئے ہیں۔ ایک مختصر ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش میں ہے اور دلوں کو گرما رہی ہے۔ کوئی طبی نکات اٹھا رہا ہے تو کوئی عدالت کے فیصلوں پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ سیاسی سوال کے ہاتھی سے سب چشم پوشی کر رہے ہیں کیونکہ ہم پاناما کی پیچ دار گلیوں میں دیانت کی شفاف سوئیاں چن رہے ہیں ۔ امداد پتافی نے نصرت سحر سے سندھ اسمبلی میں نازیبا طرز تخاطب پر معافی مانگ لی ہے۔ وجہ غالباً یہ کہ عمران خان نے دو ٹوک بیان دیا تھا کہ عورتوں کے بارے میں نازیبا لب و لہجہ قابل قبول نہیں ۔ ن ۔ م راشد نے کہا تھا ’کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیںہم ‘۔ الجھن زیادہ گرہ دار ہو جائے تو اسے سلجھانے کا ہنر شہرزاد نے الف لیلیٰ میں بیان کر رکھا ہے۔ کہانیاں کہتے چلو کہ کچھ رات کٹے… تو آئیے ایک کہانی جرمنی کی سنتے ہیں ۔
1933 ء کا برس تھا ۔ جرمنی میں ہٹلر کی نازی پارٹی اقتدار میں آگئی۔ ہٹلر نے عالمی جنگ میں شکست خوردہ اور معاشی طور پر بدحال جرمنی کے لئے نسلی بالادستی ، عسکری فتح اور معاشی قوت کا نسخہ تجویز کیا تھا۔ اس سیاسی بیانئے کو عوامی پہچان دینے کے لئے یہودیوں کے خلاف نفرت اور تفرقے کی مہم چلائی گئی۔ اس مذہبی گروہ کے عقائد ، خدوخال ، رہن سہن ، کاروبار اور تخلیقی سرمائے کو تمام مسائل کی جڑبتایا گیا۔ یورپ کی سب سے ترقی یافتہ قوم نے امتیاز اور تفرقے کا فلسفہ قبول کر لیا۔ مفروضہ نسلی خصوصیات کی بنیاد پر انسانوں میں درجہ بندی کو فطری سائنس قرار دیا گیا۔ 1935 ء میں نیورمبرگ قوانین آئے۔ نومبر 1938 ء میں شیشے توڑنے کی رات منائی گئی۔ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں۔ ایک برس بعد دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی۔ یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہا ۔ نفرت کا نشانہ بننے والے گروہوں میں کمیونسٹ ، ہم جنس پرست، خانہ بدوش ، پاگل ، جمہوریت پسند ، روسی اور سلاف بھی شامل کر لئے گئے۔ جنگ ختم ہوئی تو ساٹھ لاکھ یہودی مارے جا چکے تھے۔ ان میں پندرہ لاکھ کمسن بچے بھی شامل تھے ۔ یورپ میں بسنے والے ہر تین میں سے دو یہودی صفحہ ہستی سے غائب ہو چکے تھے۔ نارمنڈی کی لڑائی میں شکست کے بعد جنرل جوڈل نے فیلڈ مارشل رٹن اسٹیتھ سے پوچھا کہ اب کیا کیا جائے۔ پچھتر سالہ فیلڈ مارشل نے آنکھ جھپکائے بغیر جواب دیا ۔ ’جنگ ختم کر کے گھر واپس چلتے ہیںاور ہم کیا کر سکتے ہیں‘۔ کچھ سوالات عسکری ذہن نہیں اٹھایا کرتا۔ ایسے سوالات تمدن کے قلم سے اٹھائے جاتے ہیں ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی کے سامنے تین سوال تھے۔ گروہی نفرت اور نسل پرستی کے فلسفے سے جنگ کے نتیجے پر کیا فرق پڑا؟ایک تعلیم یافتہ اور قانون پسند گروہ کے خلاف امتیازی سلوک سے معیشت میں کیا بہتری آئی؟ریاستی تشدد سے جرمنی کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب تھا ۔ کسی قوم کے لئے بدترین اخلاقی بحران یہی ہوتا ہے کہ بندوق کے بل پر سوال کی آواز دبا دی جائے ۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہمارے ہاں بہت سے سوالات اٹھنا ناگزیر تھے۔ ہم نے آسان راستہ اختیار کیا ۔ مفاد ، تقدیس اور جبر کا ترشول سوال کے نرخرے پر رکھ دیا۔ کاٹھ کے بت تخلیق کیے۔ کاغذ کے سپاہی بنائے۔ کھیتوں میں صلیب گاڑ دی اور گلیوں میں ہجوم طفلاں کو کھلا چھوڑ دیا۔ چھ برس بعد محافظ تبدیل ہوئے تو نظربندی کا حصار کچھ اور بلند ہو گیا اور تفرقے کی فصیل پر پہرہ بڑھا دیا گیا۔ خوش قسمتی سے ہمیں نارمنڈی کی لڑائی نہیں لڑنا پڑی۔ ہمیں آپریشن ضرب عضب میں نمایاں کامیابی ملی ہے۔ یہ سوال اٹھانے کا وقت ہے۔ ہماری رہنمائی کی جائے کہ آئین کی کس شق کے تحت مملکت برادر عرب کا دفاع ہماری مسلح افواج کی ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ ایک جمہوریہ اور ایک بادشاہت میں سیاسی ارتباط کی صورت کیا ہو گی۔ ہماری معیشت ، تاریخ اور ثقافت کے خدوخال جداگانہ ہیں ۔ جغرافیائی طور پر ہم متصل نہیں ہیں۔ ایسے دفاعی اتحاد کا ہدف کیا ہو گا اور کیوں؟ محترم وزیرداخلہ سے پوچھنا ہیے کہ پاکستان میں کس نے ملک اور مذہب کے خلاف کب آواز اٹھائی ؟ تیس برس میں ستر ہزار کتبے ہمارے قبرستان میں نمودار ہوئے ہیں ۔ ان کشتگان دہشت کے قاتل گروہوں میں سے کون تھا جس نے مذہب کی مخالفت کے نام پر ہتھیار اٹھائے ہوں۔ ہمیں اپنے سیاسی مکالمے کو بے معنی اصطلاحات سے آزاد کرنا چاہئے۔ ہمارے آئین میں پارلیمنٹ کے لئے شوریٰ کی اصطلاح کب شامل کی گئی۔ عدلیہ میں تقرریوں کی مشاورت پر بات ہوئی تو کھلا کہ آئینی مشاورت کو بامعنی ہونا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ منتخب پارلیمنٹ کی رائے کو فیصلہ کن کیو ں نہیں ہونا چاہئے۔ اگر مشاورت کا بامعنی ہونا ضروری ہے تو پارلیمنٹ کا حق فیصلہ سازی بھی غیر مشروط ہونا چاہئے۔ صادق اور امین کی اصطلاح تاریخی طور پر صرف ایک مقدس ترین ہستی سے منسوب رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے اس اصطلاح کو کب آئین کی دفعات 62اور 63کا حصہ بنایا گیا۔ غیر متعین اصطلاحات کو کتاب قانون کا حصہ بنانے سے ناگزیر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صاحبان وقار کو اپنے فرمودات پر اعتذار کرنا پڑتا ہے۔ اعتذار غلطی پر کیا جاتا ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ ہم انفرادی غلطی پر معذرت چاہتے ہیں۔امداد پتافی سے معافی مانگنے کو کہتے ہیں ۔ ہمارا اخلاقی بحران انفرادی کوتاہیوںسے نہیں، اجتماعی ترجیحات کی غلطیوں سے پیدا ہوا ہے۔
ہمیں ایسی قانونی اور سیاسی ثقافت مرتب کرنی چاہئے جس میں نصرت سحر ، شہلا رضا ، مریم نواز اور شیریں مزاری سمیت اس ملک کی ہر عورت کے احترام کو بلاامتیاز یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں اپنے اخلاقی بحران کے پس پردہ مفروضات پر تفصیل سے غور کرنا چاہئے۔ امتیاز ، ناانصافی اور تفرقے کی تمام صورتوں پر سوال اٹھانا چاہئے۔ ناانصافی سے آنسو جنم لیتا ہے… اور آنسو ٹھہر جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments