گم شدہ افراد کا فسانہ غائب


\"\"اغوا کیے جانے والے سوشل میڈیا کے کارکنوں کے ہمدردوں کو تسلی دینے کے لیے آج کل فیض کی وہ نظم سنائی جاتی ہے ۔ نثار میں تیری گلیوں کے۔ اس نظم میں فیض صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے۔ لیکن اس میں بھی جسم و جاں بچانے والے کو پوری امید ہے کہ وہ سلاخوں کے اس پار سے بھی اپنے دوستوں، یاروں ، ہم خیالوں سے مخاطب ہو سکے گا۔ کال کوٹھڑی سے وہ باہر کی دنیا کے ساتھ ایک رابطہ بنائے رکھے گا۔ چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے کہ اندر باہر صبح شام ایک ہی ہے۔

جیل میں بیٹھے شخص کا عہد وفا قائم ہے

یہ نظم ایک امید کی نظم ہے۔

سلمان حیدر کی نظم صفحے سے باہر ایک نظم میں کسی جیل کے سیل کی عیاشی میسر نہیں ہے۔ یہاں جسم و جان کو بچانے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پہ جسم و جاں کو غائب کر دیا گیا ہے۔ یہاں پہ جسم و جاں ایک فائل بن کر رہ گیا ہے جو عدالتوں میں پیش کی جائے گی۔ یہاں پر جسم و جا ں ایک تصویر ہے جس کو اس کا بیٹا فوٹو گرافر کی فرمائش پر چومے گا۔ یہ جسم و جاں بیوی کی زبان بندی کا اعلان ہے۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے آ پ کو اس ہولناک حوصلے کا خیال آتا جس کی بنیاد اس سے بھی ہولناک بے بسی ہے۔ نظم سسکتے سسکتے صفحے سے باہر نکل جاتی ہے اور صفحے سے باہر نکل کر نظم، نظم نہیں رہتی، ایک جرم بن جاتی ہے۔ یہی فیض سے سلمان حیدر تک کا سفر ہے۔

مسنگ پرسنز کہلانے والے لوگ نہیں ہیں بلکہ ہماری زندگی کے دروازے پر چپکایا جانے والا موت کا پروانہ ہیں ۔ ایک سرحد ہیں، جس کے آگے ہمارا خیال نہیں جا سکتا۔ غائب کئے جانے والے جسم و جاں کیا کہہ رہے ہیں، کیا کر رہے ہیں ۔ ان لکھ لٹ ، نیلم اور مرجان صفت افراد کے غائب ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو نفرت اور غصے سے پر کیا جا سکتا ہے۔ وہ کون تھے؟ قوم دشمن؟ مذہب کے دشمن ؟ ترقی کے دشمن؟ الزامات کی فہرست بتاتے جائیں اور آپ اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ اس غائب ہونے والے جسم و جاں کو تو مر ہی جانا چاہیے تھا اور یہ آپ کو کبھی نہیں بتایا جائے گا کہ یہ جسم و جاں ابھی زندہ ہے یا مار دیا گیا۔ یقین صرف یہ دلایا جائے گا کہ اسے تو بہت پہلے مر جانا چاہیے تھا۔

مسنگ پرسنز کو غائب کر کے ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں تو کبھی نظر ہی نہیں آنا چاہیے تھا۔

آپ شاید اس وقت سوچ رہے ہیں کہ کیا میرے اعمال ایسے ہیں کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یا میرے جاننے والے کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ ویسے تو آپ تسلی رکھیں کہ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن کیا آپ ایسا تو کچھ نہیں کر رہے کہ آپ کی باری ذرا جلدی آجائے۔

سوچو اور سوچتے ہی جاﺅ۔

آپ کو سمجھانے والے بھی موجود ہیں۔ دیکھیں جب ریاست کمزور ہوتی ہے تو اسے ایسے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن جب ریاست طاقتور ہو جاتی ہے تو آپ کی بینائی بھی اس کے قبضے میں ہے۔ قومی مفاد میں آپ کی نظروں سے کسی کو غائب کرنا ہے تو کر دیا جائے گا۔ غائب کئے جانے والے جسم و جاں سیاسی کارکن بھی ہو سکتے ہیں۔ باغی، قاتل لٹیرے، فرقہ وارانہ دہشت گرد یا ریاست کے اپنے پالے ہوئے دہشت گرد، صحافی اور اب سوشل میڈیا پر اپنی آواز اٹھانے والے۔ لیکن ان میں سے جب بھی کوئی غائب ہو گا تو ہم میں سے کوئی یہ ضرور کہے گا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس کے لیے ہمیں ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ہم نے اتنے لوگ مرتے دیکھے ہیں۔ اتنی بے بسی دیکھی ہے کہ ہم ایک وحشی، طاقتور ریاست چاہتے ہیں۔ اتنی طاقتور کہ جب ایک فرقہ وارانہ دہشت گرد مارا جاتا ہے تو ریاست یہ نہیں بتاتی کہ کس قانون کے تحت مارا ہے بلکہ یہ کہتی ہے کہ شکر کرو کہ مارا گیا۔ ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ چلو جان چھوٹی۔

غائب کئے گئے جسم و جاں ہمارے بس میں نہیں ہیں لیکن ان کے غائب ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے الزامات اور نفرت انگیزی سے نہ بھرنے دیں اور یہ یاد رکھیں کہ مضبوط ریاست کے اس فسانہ غائب میں نظر چرا کے اور جسم و جان بچا کے چلنے کے دن اب ختم ہو چکے۔

 (دی نیوز آن سنڈے میں 22 جنوری کو شایع ہونے والی محترمہ سارہ ہمایوں کی اس تحریر کو معروف صحافی اور ناول نگار محمد حنیف نے خصوصی طور پر \”ہم سب\” کے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments