والد صاحب کے برے وقتوں کی ساتھی، میٹرو بس، اور آرمی چیف کی اراضی


\"\"یہ اس وقت کی بات ہے جب میرا تعلق متوسط طبقے سے نہیں تھا۔ والد صاحب کے پاس ایک 1989 ماڈل کی یاماہا 100 تھی جو ان کے علاوہ دنیا کا کوئی انسان نہیں چلا سکتا تھا۔ مکینک بھی اکثر ٹھیک کرنے کے بعد والد صاحب سے ہی سٹارٹ کرنے کی درخواست کرتا تھا۔ ہمارا گھر بند روڈ کے پاس تھا۔ آئے روز یہ موٹر سائیکل خراب ہو جاتی تھی اور والد صاحب کبھی اسے مال روڈ سے گھسیٹ کر لا رہے ہوتے تو کبھی سیکرٹریٹ سے۔ موٹر سائیکل کی حالت کچھ ایسی تھی کہ میری کبھی اسے چلانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ میں بائیس سال کا ہو کر بھی موٹر سائیکل نہیں چلا سکتا تھا۔ عموماً لڑکے دوستوں سے مانگ کر ہی بائیک چلانا سیکھتے ہیں لیکن بچپن کے کچھ واقعات ایسے تھے کہ کبھی کسی سے کوئی چیز مانگنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ یہ خوف کہ اگر نقصان ہو گیا تو میں کہاں سے بھروں گا، مجھے آدھے سے زیادہ کاموں سے روکے رکھتا تھا۔ قصّہ مختصر، بائیک چلانی مجھے نہیں آئی۔ اور ابھی بھی نہیں آتی۔

والد صاحب کی جوتوں کی دکان تھی جس سے بمشکل گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ والدہ سکول میں پڑھاتی تھیں جس سے میری اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات کسی طرح پورے ہو جاتے تھے۔ کچھ حصّہ ہم بہن بھائی ٹیوشن پڑھا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ جیسے تیسے بالآخر میں نے ایم بی اے کر لیا۔ اہلِ زبان تھے، اس لیے اردو پر اتنا تردد نہیں کرنا پڑا جتنا پنجابی بولنے والے بچوں کو کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے وہی محنت انگریزی زبان پر کر لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں ایم بی اے کر کے موبی لنک کے کال سنٹر پر انٹرویو کے لیے گیا تو میری سلیکشن ہو گئی اور میں نے وہاں نوکری کرنا شروع کر دی۔ نوکری کیا تھی، وبالِ جان تھا۔ شام چار بجے کی شفٹ ہوتی تو دوپہر ڈیڑھ بجے تپتی دھوپ میں گھر سے نکل کر، قریب ایک کلو میٹر پیدل چل کر چنگچی میں بیٹھتا، کچھ دیر داتا دربار کھڑے ہو کر پانچ نمبر قصوری ویگن کا انتظار کرتا، اور پھر قینچی پر اتر کر وہاں سے پیدل دفتر۔

یہ قصوری ویگن بادشاہ لوگ چلاتے تھے۔ جہاں چاہتے تھے روک دیتے تھے؛ \”ویگن بھرے گی تے چلّاں گے\”۔ اب بھرنے سے ان کی مراد کیا ہوتی تھی، یہ وہی سمجھ سکتا ہے جو ویگن کا سفر کر چکا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آدمی پر آدمی چڑھ جانے کے بعد جب جگہ ختم ہو جائے تو کچھ کو دہرا کر کے ان پر مزید آدمی چڑھا دیے جائیں۔ اس کے علاوہ عوام کا سامان الگ ہوتا تھا، جسے ویگن کے اوپر چھت پر ڈھویا جاتا تھا۔ کچھ عوام بھی سامان کے طور پر چھت پر بیٹھ کر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سیکرٹریٹ، چوبرجی، مزنگ، اچھرہ اور چلڈرن ہسپتال \’بڑے\’ سٹاپ ہوتے تھے۔ بڑے سٹاپ سے مراد یہ کہ یہاں گاڑی تقریباً دس منٹ کھڑی ہوتی تھی جب کہ باقی سٹاپ قدرے کم وقفے کے ہوتے تھے۔

غرضیکہ قینچی تک کا بیس سے پچیس منٹ کا یہ سفر کوئی دو گھنٹے میں پورا ہوتا تھا۔ شفٹ کے لیے گھر سے کوئی ڈھائی گھنٹے پہلے نکلنا پڑتا تھا۔ اوائل جوانی میں مذہب سے بڑا لگاؤ ہوتا ہے۔ جمعے کی نماز نکلنے پر اکثر افسوس کرتا تھا۔ مگر نوکری بھی تو کرنی تھی۔ انہی دنوں میٹرو کا پراجیکٹ شروع ہو گیا۔ وہ گیارہ مہینے شاید زندگی کے گیارہ مشکل ترین مہینے تھے۔ ایک تو سفر دو گھنٹے سے بھی بڑھ گیا۔ الٹا ویگن والے نے کرایہ بڑھا دیا۔ کرائے کا مکان تھا اور چودہ ہزار روپے تنخواہ۔ خرچے نکل جاتے تو تنخواہ ختم ہو جاتی تھی۔ مگر موبی لنک میں تنخواہ کھانے کے پیسے کاٹ کر ملتی تھی، لہٰذا معاملہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہتا تھا۔

دن گزرتے گئے اور بالآخر میٹرو بس چل پڑی۔ مجھے یوں لگا جیسے زندگی آسان ہو گئی ہو۔ نوجوان تھے تو ظاہر ہے عمران خان کا دیوانہ ہونا بھی ضروری تھا۔ مگر میٹرو بنائی تھی شہباز شریف نے۔ کچھ دن شدید مخمصے میں گزارے کہ میٹرو کی حمایت کرنی ہے یا عمران خان کی۔ پھر بالآخر فیصلہ کیا کہ بھائی میٹرو کے خلاف تو میں نہیں ہو سکتا۔ عمران خان سیاست کر رہا ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں مگر خان صاحب کی محبت میں اپنی محسن میٹرو بس سروس سے میں دشمنی نہیں کر سکتا۔

اس بات کو اب قریب چار سال ہو گئے ہیں۔ میں اب متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ایک چھوٹی سی گاڑی ہے جو کبھی خراب ہو جاتی ہے مگر زیادہ تر چلتی ہی ہے۔ چھوٹے بھائی کو نئی موٹر بائیک لے دی ہے لیکن والد صاحب ابھی بھی اپنے برے دنوں کی ساتھی کو نہیں بھولے۔ اسے ٹھیک کروا کے گھر میں کھڑا کر لیا ہے اور کبھی کبھی باہر کی ہوا بھی لگوا دیتے ہیں۔ یہ 1989 کی یاماہا 100 مجھے بھی وہ وقت بھولنے نہیں دیتی۔ لہٰذا بسوں سے مجھے ابھی تک نفرت نہیں ہوئی، غریب دیکھ کر مجھے کچیچیاں نہیں چڑھتیں۔ ہاں لیکن محنت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ جب تک میرے بچے جوان ہوں گے تب تک ایک فالتو گاڑی خرید لوں گا اور اللہ نے چاہا تو ایک عدد گھر بھی تب تک بنا چکا ہوں گا۔ میری تو شاید کبھی ہمت نہ پڑے لیکن میرے بیکن ہاؤس میں پڑھنے والے ناخلف بچّے ضرور یہ کہنے کے قابل ہو سکیں گے کہ \”یہ میٹرو کا عوام کو بہت نقصان ہوا ہے۔ ماڈل ٹاؤن سے ڈیفنس جاتے ہوئے گاڑی قینچی والے اشارے پر روکنی پڑتی ہے۔ اس سے اچھا تھا سکول ہی بنا دیتے، سڑک کے درمیان میں تو نہ ہوتا کم از کم\”۔

پسِ تحریر:

اگر اتنے ہی بہادر تھے نا تو ذرا سی جرات دفاعی بجٹ کے 720 سے 900 ارب ہونے پر بھی دکھانی تھی۔ 2014 میں کوئی ایک سٹیٹس اس حوالے سے بھی پوسٹ کر دینا تھا کہ یہ قوم کی 868 کنال اراضی ہر آرمی چیف کو کیوں ملتی ہے؟ اس پر 3 یونیورسٹیاں، 3 ہسپتال اور 27 کالج کیوں نہیں بنتے؟ اور کچھ نہیں تو کوئی خودکار معیشت گرد اس اراضی کی قیمت سے میٹرو میں سفر کرنے والے تمام افراد کو ایک ایک مہران لے کر دینے کی سفارش ہی کر دیتا۔ اور ابھی بھی جو ماں کے شیر بہادری دکھا رہے ہیں، ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کے بارے میں بات کرنا حلال تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کی بھی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ موجودہ آرمی چیف، اور ان کے بعد آنے والے سربراہانِ افواج کو بھی اتنی ہی اراضی ملے گی۔ اگر واقعی پبلک یونیورسٹی اور سرکاری ہسپتال اتنے پیارے ہیں تو اس اراضی دینے والے قانون میں تبدیلی کے لیے کیوں نہیں بولتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments