کیا مارکسزم ختم ہو چکا ہے؟


\"\"جدید دُنیا میں جس قطعیت سے لنکن نے غلامی کو رد کیا ہے اور مارکس اینگلز نے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کی ہے وہ انسانیت کا ایک روشن باب ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال مزید اہمیت اختیار کر جا تا ہے کہ کیا مارکسزم ختم ہو چکا ہے؟

بطور ایک فلسفیانہ نظام کے اس کا جواب اثبات میں ہے ۔ جس میں مارکس، اینگلز نے جدلیاتی مادیت کا طریقِ کار استعمال کرتے ہوئے، ’سائنسی‘ طور پر چند نتائج اخذ کئے تھے۔ اُن میں سے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے۔ ر یاست کا مطلب ہے کسی ایک طبقے کی حکمرانی۔ جاگیرداری دور میں یہ ادارہ فیوڈلز اور سب سے بڑے جاگیر دار یعنی بادشاہ کے مفادات کے لیے کام کرتا تھا۔ جب بوژوا دورِ حکومت آیا تو ریاست سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال ہونے لگی۔ ذرائع پیداوار اجتماعی ہو چکے ہیں لیکن ملکیت اب تک انفرادی ہے۔ اگلا قدم یہ ہو گا کہ صنعتی طور پر جدید ترین معاشروں میں پرولتاریہ موجودہ حکمران طبقات کا تختہ اُلٹ کر ریاست پر قبضہ کر کے پرولتاریہ کی آمریت قائم کرے گی۔ بتدریج ریاست جھڑنا شروع ہو جائے گی۔ یوں ایک ایسا سماج ظہور پذیر ہو گا جس میں ریاست اور استحصال نہیں ہو گا۔

مارکس، اینگلز کا جدلیاتی مادیت کی اساس پر تاریخی عمل کو بظاہر سائنسی بُنیادوں پر سمجھنے والا سائنسی طریقہ      \"\"کار، جدید ترین صنعتی معاشروں میں کیمونسٹ انقلاب کا اولین ظہور، یہ نظریات غلط ثابت ہوئے۔ ریاست کے جھڑنے کا ذکر ہم نے خود نہیں کیا کیونکہ یہ کمزور ترین حصہ ہے۔ چنانچہ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دُنیا میں عظیم فلسفیانہ نظام بنانے والے یہ آخری افراد بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔

لیکن اسی ’ناکام ‘فلسفے کے بطن سے انقلابِ روس نے جنم لیا۔ ( زار حکومت کا خاتمہ اس ضمن میں کسی خصوصی اہمیت کا حامل نہیں کیونکہ پہلی عالمی جنگ کا ایک خوش آئند پہلو سارے یورپ سے خاندانی بادشاہتوں کا خاتمہ تھا۔ اس میں روس کے ساتھ ساتھ پرشیا کے ہابس برگ، جرمنی کے قیصراور ترکی کے عثمانی سلطان نمایاں ہیں)۔

کیمونسٹ خیالات کے زیرِ اثر سوویٹ یونین شاید دُنیا کی پہلی ریاست تھی جس نے تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کو ریاستی ذمہ داری قرار دیا۔ غالباً دُنیا کی کسی بھی ریاست نے پہلی مرتبہ آئینی طور پر یہ ذمہ داری نبھانے کا اقرار کیا تھا۔ لینن کی ویژن اور سٹالن کی محنت نے پسماندہ روس کو ایک بڑی طاقت بنا دیا۔

سٹالن کے دور میں یو ایس ایس آر نے بے پناہ ترقی کی۔ اس ترقی کا صحیح اندازہ لگانے کا ایک پیمانہ دوسری عالمی جنگ ہے۔ جب دُنیا چھ سات طاقتور ریاستوں سے دو قطبی رہ گئی۔ یہ سٹالن کی قیادت میں سوویٹ یونین کی بے مثال کامیابی تھی۔ لیکن روسی قیادت اپنے آپ کو رہنما اور باقی پارٹیوں وممالک کو محض پیروکار یا مُرید تصور کرتی تھی۔ حتیٰ کہ دوسرے ممالک کو دی گئی ہدایات میں بھی روسی مفادات مقدم رکھے جاتے تھے۔ اُس کی سب سے \"\"مضحکہ خیز مثال دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے سوویٹ یونین پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال ہے۔ مولوٹوف، ربن ٹراپ معائدے کے ٹوٹنے سے ہندوستان کی کیمونسٹ پارٹی کو نروان ہوا کہ سامراجی قوتوں کے مابین جاری یہ جنگ اچانک مادرِ وطن پر حملے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس سے جہاں ہندوستانی ترقی پسندوں کے فکری و اخلاقی دیوالیہ پن کا پتہ چلتا ہے وہاں یو ایس ایس آر کے تسلط کا بھی ادراک ہوتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے کچھ دنوں بعد ماوزے تنگ کی قیادت میں پیپلز لبریشن آرمی نے چیانگ کائی شیک کی حکومت کو مار بھگایا۔ یوں عوامی جمہوریہ چین وجود میں آیا۔ یو ایس ایس آرپہلے ہی رقبے کے لحاظ سے دُنیا کا چھٹا حصہ تھا۔ اس میں مزید آدھا یورپ شامل کر لیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد روسی حلقہِ اثر میں چلا گیا تھا۔ اب دُنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا مُلک بھی کیمونسٹ ہو گیا تو امریکہ اور اُس کے حواریوں کے اضطراب کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اسی چکر میں امریکہ ویت نام کی جنگ میں شامل ہو گیا اور کافی خواری کے بعد وہاں سے جان چھڑا کے بھاگا۔

(اب یہ منظر نامہ زود یا بدیر، افغانستان میں دہرایا جائے گا)۔ لیکن جس امر کو امریکی تھنک ٹینک نظرانداز کر گئے، وہ تھا کیمونسٹ ممالک کا اندرونی تضاد۔

اگرچہ ایڈگر سنو نے روس اور چین کے باہمی ٹکراو کی بُنیادی وجہ فوجی قوت بتائی ہے، اس دلیل کا ثبوت وہ یوگوسلاویہ کے حوالے سے بھی دیتے ہیں ۔ روس اور یوگوسلاویہ کے درمیان بھی اختلاف ہوا کیونکہ یوگو سلاویہ بھی اپنی فوج رکھتا تھا۔ یعنی اختلاف کرنے کا حوصلہ کر سکتا تھا۔ لیکن اختلافات کی اساس اس سے گہری ہے۔ جس \"\"عالمی نظام کا آغاز ساری جدید دُنیا پر قبضہ کر لینے سے ہونا تھا،اُس کی اصل شروعات یورپ کے پسماندہ اور ایشیا کے غریب ترین ممالک سے ہوئی۔ لہذا عملاً اس کا اظہار وطنیت اور قومیت کی نظریاتی فکری فضا میں ہوا۔ اس تضاد کی وجہ سے اشتراکی نظریے کی جگہ قومی مفادات نے اولیت اختیار کر لی۔

ویسے بھی گہرا نظریاتی اختلاف جو ایک فکری تحریک میں تاریخی پھوٹ ڈالتا ہے اُس کا پہلا ظہور تیس سے پچاس سال میں ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ ایسے اختلافات کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک ارتقاء کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ چینی، روسی جھگڑے کا مطلب تھا مارکس، لینن کے فکری سانچے کو مانتے ہوئے دو بڑے مکتبِ فکرکی تشکیل۔

ماوزے تنگ کا پیش کردہ نظامِ فکر اورعمل کا نظریہ تیسری دُنیا یعنی ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو معروضی صورتِ حال میں بہتر سوٹ کرتا تھا۔ چونکہ جاپانیوں کے خلاف گوریلا جنگ میں چین کے پہاڑ بہت کام آئے تھے، اُس سے سبق سیکھتے ہوئے موزمبیق کے سامورا ماشیل نے، ماو کے گوریلا جنگ کے نظریات اور تجربے سے متاثر ہو کر یہ کلیہ پیش کیا کہ اگرچہ ہمارے پاس پہاڑ نہیں ہیں لیکن ’ ہمارے عوام ہمارے پہاڑ ہیں‘۔ انگولا، موزمبیق اور گنی بساو، یہ افریقہ کی تقریباً آخری مقبوضہ جات تھیں، جو قدیم ترین اور پسماندہ ترین سامراج یعنی پُرتگال کے قبضے میں تھیں۔

\"\"اشتمالی نظریات کی کامیابی کا سفر افریقہ سے ایشیا تک جاری تھا۔ ستر کی دہائی کے نصف کے بعد ویت نام نے اپنی طویل جدوجہد کے بعد سارے مُلک کو آزاد کروا لیا تھا۔ اُسی زمانے میں چینی تجزیے کے مطابق امریکہ ایک ڈھلتا ہوا سامراج تھا جبکہ سوشل سامراج یعنی روس ایک اُبھرتا ہوا خطرہ تھا۔ جس کے وزیرِ خارجہ کی گرم نگاہ افریقہ، یورپ اور ایشیا تینوں پُرانے برِ اعظموں میں صورتِ حال تلپٹ کر سکتی تھی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوویٹ یونین کی طاقت تھی یا اشتراکی نظریے کی عظمت؟ چونکہ اشتراکی نظریہ اسوقت پاش پاش ہو گیا جب 1979 میں ویتنام اور چین کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اُدھر سوشل سامراج کے خطرناک جارحانہ عزائم افغانستان پر قبضے کی صورت میں واضح ہو گئے۔ اس عروج سے سوویٹ یونین کے انخلا تک مارکسزم کی اہمیت بطور ایک سیاسی نظام کے روز بروز گھٹتی گئی۔ حتیٰ کہ سرکاری طور پر یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ریپبلکس کو ختم کر کے روس کو ’بحال‘ کر دیا گیا۔ دُنیا میں اسے یو ایس ایس آر کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کی بھی موت سمجھا گیا۔ ایک لحاظ سے یہ بات درست تھی کہ مارکسسٹ نظریے کا سرکاری درباری دور ختم ہو گیا جو ایک خاص مملکت سے منسلک تھا۔ اُدھر چین میں ڈینگ سیاو پنگ نے اپنے مشہور مقولے ’ جب تک وہ \"\"چوہے پکڑنے کے قابل ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی سیاہ ہے یا سفید ‘، کو بُنیاد بنا کر نظریات کو ایک طرف رکھا اور اس دن سے آج تک عوامی جمہوریہ چین چوہے پکڑنے کے عمل میں اس شاندار طریقے سے مشغول ہے کہ اور کچھ سوچنے کی بظاہر انہیں ضرورت بھی نہیں ہے۔

اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پچھلی صدی کی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جتنا زور نظریات پر تھا اس صدی کی دنیا اس سے بالکل ہی کوری ہے۔ سوچ اور نظریے کا قحط محض بائیں بازو پر نہیں آیا، اب ریپبلکن اور ڈیموکریٹ میں کوئی فرق نہیں، برطانیہ میں ٹوری اور لیبر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خصوصاً عمل میں۔ کیا اس فکری خلا نے کوئی اثر ڈالا ہے؟

2008 کے بحران میں جہاں امیر لوگوں کے لیے عملاً سرمایہ مفت میسر تھا، امریکہ اور یورپ میں تنخواہ، صحت اور کام کرنے کے اوقات کے حوالے سے نچلے طبقے کی آمدن گھٹ رہی تھی۔ اس میں ایک عنصر بائیں بازو کی کوئی موثر آواز کا نہ ہونا تھا۔ اس حوالے سے مارکس، اینگلز نے اپنے زمانے کے سماج پرجو اخلاقی اعتراض کیا تھا۔ وہ اعتراض آج بھی سچ ہے کہ دولت کے ڈھیر میں ایسے طبقات کی موجودگی جو بمشکل زندگی کی ڈور برقرار \"\"رکھ سکتے ہوں، انسانیت کے مُنہ پر ایک طمانچہ ہے۔ مغربی صنعتی دُنیا پر ان دو کے اعتراضات نے مزدور کی بہتری کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اور جب تک انسانی سماج رہے گا، اُفتادگا نِ خاک کے لیے ایسے احتجاج کی ضرورت بھی رہے گی۔

ویسے آج انسان ترقی کی جس سطح پر پہنچ چکا ہے، ہر معاشرے میں کم از کم غربت کی ایک حد مقرر کرنا لازم ہے جس سے نیچے کسی فرد کو جانے نہیں دیا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ دولت کی کسی حد کی ضرورت نہیں، کم سے کم دولت کی ایک حد ہونا ضروری ہے۔ جس میں انسان کی بُنیادی حیوانی ضروریات پوری ہو سکیں۔

یہی مارکس، اینگلز کی سوچ ہے جو کبھی مر نہیں سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments