شیخ رشید۔۔۔ لال حویلی کا مایوس منڈا


\"\"میں نے اس شخص کو کئی برس سے پریشانی اور مایوسی کی حالت، کمشکش اور اضطرابی کیفیت میں دیکھا ہے۔ وہ اس کا اظہار حکومت، سیاسی جماعتوں اور موجودہ پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد سے کرتا ہے، جس کے لیے وہ کسی دوسری جماعت کا سجایا ہوا اسٹیج یا پریس کانفرنس کا روسٹرم استعمال بڑی بے تکلفی سے کرتا ہے۔

اس ملک میں اپنی وزارت، حکومت اور پارٹی کے زمین دوز ہونے کے بعد مایوسی نے شیخ رشید کے ذہن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ عمران خان، چودھری شجاعت حسین، پرویز الہیٰ، طاھر القادری، جمشید دستی اور کچھ باقی افراد بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں، لیکن ان سبب کا محبوب قائد شیخ رشید ہی ہے۔

شیخ صاحب اس ملک میں ان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو جلتی پر آگ ڈالنے، تیلی لگانے، مارو یا مر جاؤ ، بھاگنے نہ پایے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، اور ان دنوں ایسا سوچنے والے تمام حضرات کافی مایوس ہیں، ان کی مایوسی کا پہلا سنگ میل نومبر 2016 تھا۔

جنرل راحیل شریف کی ریٹائرٹمنٹ کے بعد آنے والی ڈپارٹمینٹل تبدیلیوں نے تمام سیاسی بونوں، یتیموں، مسکینوں اور\"\" پیراسائیٹ ذھن سیاستدان اور ان کے حامی صحافیوں کی شکل میں پلتے ان اینکرپرسنز نما کالی بھیڑوں کو بہت مایوس کیا ہے۔ اس متاثرہ ٹولے کی کھلی نمائندگی شیخ رشید نے کی ہے۔ اس مایوسی کے کئی اسباب ہیں۔ وہ مایوس اس لئے بھی ہوئے کہ بار بار مدعو کرنے کے باوجود جنرل راحیل شریف نے غیر آئینی اقدام اٹھا کر حکومت کا دھڑن تختہ کیوں نہیں کیا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو پکڑا کیوں نہیں گیا۔ یہ مایوسی اس لئے بھی ہوئی ہے کہ دعوت دینے کے باوجود کابینہ کے وزرا کو ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگائی گئیں۔ وزیراعظم بلکل محفوظ اور ابھی تک اپنی کرسی پر بیٹھ کر دو ہزار اٹھارہ میں انتخابات کروانے کی بات کیوں کر رہے ہیں۔ حاصل مطلب یہ کہ ایسا کوئی جوان کیوں نہیں اٹھ رہا جو اس سارے منتخب نظام کو لپیٹ ہی دے۔ دھڑن تختہ کی خواہش دل میں لئے روز کانفرنس کرنے والے جو بھی ہیں، ان کی چھوٹی بڑی جماعتیں موجود ہیں لیکن شیخ رشید اس ملک کا وہ بڑا لیڈر ہے جس کی جماعت ان کاغذ کے ٹکڑوں میں دفن ہے جو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں ہیں۔

شیخ صاحب کی اس سسٹم سے مایوسی آج کی بات نہیں، یہ تو ق لیگ حکومت کے خاتمے، پھر پرویز مشرف کی \"\"ایوان صدر سے دربدری اور ملک سے جلاوطنی، پھر 2008ء کے انتخابات میں ق لیگ اور اپنی بدترین شکست سے چلی اور بڑھتی آ رہی ہے۔ 2008ء کی زرداری حکومت کو کوستے کوستے پانچ سال گذر گئے۔ ان دنوں بھی \”حکومت جاوے جاوے\” اور \”کوئی اور آوے آوے\” کی رٹ زبان پر تھی۔ اس زمانے میں بھی این آر او مقدمے ، اسامہ بن لادن آپریشن، پھر میموگیٹ سکینڈل سے لے کر رینٹل پاور مقدمہ تک یہی امیدیں تھیں کہ کبھی تو کوئی آئے گا اور حکومت کو دبوچ لے گا۔ لیکن اس حکومت نے پانچ سال پورے کر دیے۔ پھر موجودہ حکومت کے جانے کی خواہشات، دہائیاں اور بددعائیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں اور 2014ء کے عمران خان اورطاھر القادری گٹھ جوڑ والے دھرنے سے وہ خواھشیں پوری ہونے کا یقین بھی تھا لیکن ایمپائر کے نہ آنے کی وجہ سے وہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد دھڑن تختہ کی خواہش اسلام آباد کو لاک ڈاوں کرنے سے وابستہ کردی گئی \"\"لیکن سپریم کورٹ نے پاناما معاملہ اپنے ہاتھوں میں لیا تو شیخ صاحب نے دھڑن تختہ کی خواہشوں کو کاغذی فائل میں بند کر دیا اور پہلے عدالتی کمرہ نمبر ایک اور پھر کورٹ نمبر دو میں روسٹرم کے آگے کھڑے ہو گئے۔ وہاں بھی بات وہی کہ تمام دنیا کی نظریں عدالت پر ہیں بس آپ کچھ کر ہی دیجیے۔ ان کے پاس قانونی دلیل ایک نہیں۔ وہ عمران خان کی پیش کردہ تمام دستاویزات کو ثبوت ماننے پر زور دیتے رہے۔ عدالت میں ان کے دلائل بلے کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانے سے شروع ہو کر ملک کو دشمن کے چنگل سے چھٹکارا دلانے کی استدعا پر ختم ہوئے ہیں۔ اور عدالت سے امید یہ کہ وزیراعظم کو کم از کم بھٹو جیسی سزا دی جائے۔ اس سے پہلے دھڑن تختہ کی امیدیں ڈان لیکس سے وابستہ کی ہوئی تھیں۔ اگر ان کی پیش گوئیوں پر کوئی اعتبار کر لے تو ابھی تک اس ملک میں کچھ بھی نہیں بچا ہوتا۔

شیخ صاحب ایک مدت سے متنازع ترین سیاسی کردار بن چکے ہیں۔ شاید عمران خان ہی اکیلے سیاستدان ہیں جو شیخ \"\"رشید پر اعتماد کرتے ہوں گے باقی سیاستدان شیخ رشید کو ’’ مقامی غیبی مدد‘‘ سے انتخابات جیتنے والے سیاستدان کے سوا کوئی مقام دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے اپنی پہچان خود بنائی ہے، شیخ صاحب کو جو چیزیں منفرد بنا تی ہیں ان میں ان کی زبان اور اس سے نکلے تیکھے، نازیبا، ذومعنی اور تحقیر آمیز جملے، پنجابی لہجے کی اردو، حاضر جوابی، جگت بازی، اس کا وکھری ٹائیپ انداز، ایک وقت میں ایک سو پیش گوئیاں کرنا، (کوئی تو سچی ہو گی) غیرسیاسی اور جمہور دشمن قوتوں سے گہرے مراسم پر نازاں ہونا، سیاستدانوں سے دشمنی کی حد تک نفرت اور آمروں کے گیت گنگنانا، پیغام رسانی، مشورے، سگار، دورہ شارجہ، بوسیدہ فلمی اداکاراؤں سے تعلقات اور کئی طرح کے دوسرے قصے ہیں۔۔۔

یہ سچ ہے کہ ٹی وی چینلز اور شیخ رشید ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ اب تو وہ ایک بڑی پارٹی کے چینل پر اینکر پرسن بن کر آ رہے ہیں۔ ویسے بھی ان کی ساری سیاست ٹی وی شوز تک ہی محدود ہے۔ اگر میڈیا \"\"اور اس کا ناتا توڑ دیا جائے تو پھر شیخ رشید نامی کوئی سیاستدان اس ملک میں نہیں بچتا، ان کا میڈیا سے اس قدر بے تکلفی سے جڑے رہنے کا ایک اور بھی سبب ہے۔ ملکی میڈیا کو آزاد کروانے اور پچاس کے لگ بھگ ٹی وی چینلزکے لائسنس جاری کرنے کے وہ اکیلے دعویدار ہیں۔ ہاں اس کا تھوڑا بہت کریڈٹ وہ اپنے سابقہ باس اور ملک کے فوجی آمر پرویز مشرف کو تو دیتے ہیں لیکن میڈیا کی آزادی کے لئے برسوں پر محیط جدوجہد کو ماننے کے لئے بلکل تیار نہیں۔۔۔ میڈیا میں بھی زیادہ تر وہ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں جن کے دل کے کسی خانے میں انتخابات کے نتیجے میں آنے والے حکومتوں کی ناکامی اور ان کا تختہ الٹنے کی خواہشات نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید سیاست میں اب بھی وہ سہگل حویلی کے منڈے کا کردار ادا کر رہے ہیں جو بندھان بائی کے لئے بازار سے سودا سلف، پان بیڑی اور دودھ مکھن لے آتا تھا۔

شیخ رشید کی لال حویلی کا تو قصہ ہی دلچسپ ہے۔ اس وقت کی آسٹن کار میں سوار ہوکر گھومنے والی اس مشھور \"\"گائیکہ بندھن بائی کو کیا پتا تھا کہ ایک دن گلی کے نکڑ پر کیسل سگریٹ کے خالی ڈبوں سے کھیلنے والا منڈا اسی حویلی کا مالک بن جائے گا۔

لال حویلی کو بیرسٹر دھن راج نے بندھن بائی کو دے دیا۔ بٹوارے میں سرکار نے اسے متروکہ ملکیت قرار دے کر بندھن بائی کو دو کمروں تک محدود کردیا ایک دن اسی حویلی میں اس کا خون ہو گیا۔ جب حویلی کو سرکار نے بیچنا چاہا خریداروں کی لائن لگ گئی۔ ایک کے بعد ایک حویلی کے مالکان تبدیل ہوتے رہے اور ایک دن شیخ رشید نے حویلی خرید لی۔ اس وقت بھی شیخ رشید کی جیب میں حکومت کا وہ خط موجود ہے جس میں حویلی مالک کو گھر پر قبضہ گیر کہہ کر پکارا گیا ہے۔

لال حویلی میں کتنی سیاسی حکمت عملیاں تیار ہوئیں اور کیا کیا سازشیں ہوئیں، یہ کبھی طے نہیں ہو سکے گا۔ شیخ رشید کی زبان، جملہ بازی، اور جگت بازی شیخ صاحب کی سیاسی سنجیدگی کا پتا دیتی ہیں، شادی کے سوال پر ’’تازہ دودھ ملنے پر بھینس پالنے سے پرہیز‘‘ کا جواب اور دوسرے کی شادی پر’’بڑی عمر کی شادی کو بینک کی\"\" چوکیداری‘‘ سے تشبیہ دینا، ایک وزیراعظم کو’’ ایزی لوڈ وزیراعظم‘‘ کہہ دینا کسی نوجوان پارلیمنٹ ممبر کو’’ گاڑی کے آگے ناچنے والا‘‘ کہہ کر طعنہ دینا، کسی کو’’ کرپشن کا بیٹا‘‘ کسی کو ’’بدعنوانی کا باپ‘‘ کہہ دینا، یہ ان کی زبان ہی تھی جس نے اسے پارلیمنٹ سے جیل کا قیدی بنا دیا۔ یہ اس لئے ہوا کہ بھری پارلیمنٹ میں انہوں نے اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف نازیبا جملہ کہہ دیا تھا۔ اور پھر قید میں جو کچھ ہوا، اس کا ذکر صرف نجی محفلوں میں ہی ہو سکتا ہے۔۔

یہ لال حویلی تب ہی چکمتی دمکتی ہے جب اس کے مالک کا ستارہ اقتدار کے عروج پر ہوتا ہے۔ اب تو کئی برس سے وہ اسی مقام پر پہنچنے کے لئے سر کی بازی لگائے ہوئے ہیں لیکن ہر بار ناکامی اس کے قدم چھوتی ہے۔ دس سال سے بغیر کسی وزارت کے رہنا اور اسے حصول کے لئے بغیر فل اسٹاب بس بولتے ہی رہنا آسان تو نہیں۔ سیاست کے نام پر غیر جمھوری سرگرمیاں اور شیخ صاحب کی آنیاں جانیاں کسی حقیقی جمھوریت اورمضبوط نظام کے لئے ہیں؟ اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن \"\"جمھوری تبدیلی کبھی نہیں چاھیں گے۔ شیخ صاحب کو تحریک انصاف کا اقتدار میں آنا بھی اس صورت میں منظور ہوگا جب وہ ان کو گود میں لے گی۔۔ شیخ صاحب کی مارو یا مر جاؤ، ہلہ بول، گھس جاؤ، گھسیٹ لو والی دھکم پیل تحریک کے پیچھے بس ایک خواہش ہے کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ کرسی مرے قدموں میں ہو۔ اس لئے اگر کوئی غیر آئینی حکومت آئی تو بھی چلے گا۔ کوئی اور معجزہ ہوجائے وہ بھی سر آنکھوں پر۔ اگر میرے صدقے خان صاحب آ جائیں یا میں ان کے صدقے دوبارہ اقتدارکے کھلیانوں میں پھر سے جی اٹھوں تو بھی وا وا۔ لیکن یہ جو کچھ کچھ ابھی ابھی ہوا ہے، وہ شیخ رشید کے سیاسی فلسفے اور ان کی خواہشات کی نفی ہے۔۔

 

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments