کچرا کنڈی سے ملی بچی


محبی پروفیسر سی ایم نعیم نے روز نامہ ڈان میں یہ تحریر پڑھی اور تڑپ اٹھے۔ از رہ شفقت خود ترجمہ کی اور یہ بھی فرمایا کہ ممکنہ طور پر ڈاکٹر سمیہ سید طارق کے نام کا املا شاید درست نہ ہو۔ پروفیسر صاحب، ڈاکٹر صاحبہ ایک ماں ہیں اور ماں کے نام کے ہجے کبھی غلط نہیں ہوتے۔ 

\"\"وہ ایمبولنس میں رکھی ’گرنی ‘ پر پڑی تھی، ایک جھُنّی سفید چادر سے آدھی ڈھکی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں جامد تھیں۔ ’گرنی ‘ چونکہ لوہے کی تھی اس لئے مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ اسے کتنی ٹھنڈ لگ رہی ہو گی۔

ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو چھوا تو میں چونک پڑی۔ وہ برف کی طرح ٹھنڈی تھی۔ ’اب کیا زندہ ہو گی؟ ‘ میں بڑبڑائی۔

’نہیں، نہیں، ڈاکٹر ساب ‘ ایمبولینس کے ڈرائور نےزور دے کر کہا، ’دیکھئے تو۔ سانس لے رہی ہے۔ ‘

تب ایسا لگا جیسے کوئی دھماکہ سا ہوا۔ ایک شور ہونے لگا۔ ’زندہ ہے۔ ‘ ’زندہ ہے۔ ‘ اور ڈاکٹر اور پیرامیڈک ہر طرف سے دوڑ پڑے۔

میرے لئے اسے دیکھنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہو رہا تھا کیونکہ اس کا گلا ایک کان سے دوسرے کان تک کٹا ہوا تھا۔ میرا ماٴوف ذہن نہیں سوچ پا رہا تھا کہ یہ بچّی جس کے گہرے زخم کے اندر خون کے لوتھڑےجمے تھے کیسے چند منٹ بھی زندہ رہی ہوگی، چہ جائیکہ کئی گھنٹے۔ ایک پیرامیڈک نے بے یقینی سے مجھ سےپوچھا: ’تو آپ کے خیال میں یہ کچرا کنڈی میں دو گھنٹے سے پڑی تھی؟ ‘ ’ہاں ‘ میں نے جواب دیا، ’کم و بیش دو گھنٹے سے۔ ‘

اچانک میرے ہاتھ کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور مجھے احساس ہوا کہ میری مٹّھی میں ابھی تک اس کا ہاتھ بند تھا۔ بہت آہستگی سے میں نے اس کے بازو پر ہاتھ پھیرا۔ اس کا بازو اور کلائی دونوں بری طرح زخم خوردہ تھے۔

اور اس لمحہ مجھے یہ احساس ہوا کہ اس کےبدن پر تو شلوار بھی نہیں۔ وہ مشکل سے پانچ یا چھ برس کی ہوگی، لیکن میں برسوں سے ڈاکٹر ہوں۔ میری آنکھیں اس سے بھی کم عمر مظلوم دیکھ چکی تھیں۔

ذرا دیر میں سرجن جمع ہو گئے۔ انھوں نے اس کی کٹی ہوئی گردن کا معائنہ کیا اور بولے، ’اس کا اب تک زندہ رہ جانا ایک معجزہ ہے۔ ‘

’بڑی خوش قسمت ہوگی، ‘ ایک نرس بولی۔ ’خوش قسمت؟ ‘ میں نےسوچا، ’خوش قسمت ہوتی تو یہاں کیوں ہوتی، اپنے گھر میں اپنے ماں باپ کے پاس ہوتی۔ ‘

اب ہم آپریشن روم میں تھے۔ اس کا مُنّا سا ہاتھ اب بھی میری مٹّھی میں تھا۔ میں نے جھک کر اس کے کان میں کچھ کہنا چاہا لیکن زخم سے اٹھتی بو کی بھپکی سے مجھے ابکائی آ گئی۔ ایک لمبی سانس کھینچ کر میں کچھ دیر کھڑی رہی۔ میں سوچ نہیں پا رہی تھی کہ اس پر کیا بیتی تھی۔ آخر میں نے جھک کر اس سے اس کا نام پوچھا۔ اس کے منھ سے ایک بے معنی آواز ہی نکلی۔ جب میں نے دوبارہ پوچھا تو اس نےتھکن سے آنکھیں موند لیں۔

’کیا بہت درد ہورہا ہے؟ ‘ میں نےپوچھا۔ اس نے آنکھیں کھول کر اس طرح مجھے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو: ’بیوقوف، کیا یہ پوچھنا بھی ضروری ہے؟ ‘ پھر اس نے اپنے زیریں بدن کی طرف اشارہ سا کیا، اور اس کی آنکھوں کا سارا درد میری آنکھوں میں اتر آیا۔

مجھے ’فورنسک ‘ میں کام کرتے پندرہ برس ہوچکے ہیں۔ ہمیشہ اپنے جذبات پر قابو رکھنے پر مجھےناز ہے۔ چاہے جتنی بےدردی کا واقعہ ہو، میں اپنا فرض پورا کرنا ہی ضروری سمجھتی ہوں۔ میں خوب دیکھ چکی ہوں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر کیا ستم کرسکتا ہے، اور کس طرح بعض افراد سب کچھ برداشت کرنے کے بعد زندہ بھی رہتے ہیں۔ لیکن اس چھوٹی سی بچّی پر جو گذری تھی اس کو عام زندگی کی محض ایک حقیقت سمجھنا میرے لئے ناممکن تھا۔ وہ تو ایک چیتھڑے کی طرح استعمال کرکے گھورے پر پھینک دی گئی تھی۔ جن لوگوں نے یہ کیا تھا ہم انھیں انسان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ آزاد اور بےفکر گھوم رہے ہیں، اور میں یہ سوچ سوچ کر اب بھی کانپ رہی ہوں کہ پتہ نہیں وہ اور کیا کریں گے۔

آپریشن روم میں اسے پوری طرح بےہوش کرکےسرجری کی گئی۔ تہہ بہ تہہ درستگی اور سلائی کرکے سرجنوں نے آخر اس کی گردن کا زخم بخوبی بند کردیا۔ اس میں انھیں تقریباً دو گھنٹے لگے۔ تب اسے ICU میں پہونچا دیا گیا۔ اسکے بازو اور کلائی کے زخموں کی درستگی کچھ دن بعد کی جائیگی۔

اس رات میں بس یہ چاہتی تھی کہ کسی طرح جلد از جلد گھر پہونچ کراپنے بچّوں کو سینہ سےلگالوں اور انھیں بار بار بتاتی رہوں کہ میں ان سے بےحد پیار کرتی ہوں۔

دوسرے دن میں اسے دیکھنے گئی۔ میری آہٹ پر اس نے آنکھیں کھولیں اور ایک ادھوری سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا۔ میں حیران رہ گئی۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس چھوٹی سی بچّی میں کتنی جان کتنی ہمت بھری تھی۔

http://www.dawn.com/news/1310621/left-for-dead-a-doctors-account-of-rescuing-a-6-year-old-rape-victim

ڈاکٹر سمیہ سید طارق
Latest posts by ڈاکٹر سمیہ سید طارق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments