عامر لیاقت، پیمرا اور آزادی اظہار کے تضادات


\"\"پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگو لیٹری اتھارٹی پیمرا نے بول ٹیلی ویژن پر عامر لیاقت کے پروگرام ’ایسا نہیں چلے گا‘ پر پابندی لگاتے ہوئے پروگرام کے میزبان عامر لیاقت کو کسی بھی طرح ٹیلی ویژن کے کسی بھی پروگرام میں شرکت کرنے سے منع کردیا ہے۔ پیمرا کے حکم میں کہاگیا ہے کہ اگر بول ٹیلی ویژن نے اس حکم کی کسی بھی طرح خلاف ورزی کی تو اس ٹیلی ویژن اسٹیشن کے خلاف قواعد کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ عامر لیاقت پر نفرت پھیلانے، نا م لے کر بے بنیاد الزامات لگانے اور دوسروں کی زندگی کے لئے خطرہ بننے کے الزامات عائد ہیں۔ ان سنگین الزامات اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ پیمرا کو اظہار کا حق استعمال کرنے کے خلاف اقدام کرنے کا اختیارکیوں کر دیا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے ایک شخص جبران ناصر نے پیمرا کو شکایت میں بتایا ہے کہ عامر لیاقت نے انہیں دہریہ قرار دینے کے علاوہ توہین مذہب کا مرتکب کہا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ دنوں لاپتہ ہونے والے بلاگرز پر بھی عامر لیاقت نے اپنے پروگرام ’ایسا نہیں چلے گا‘ میں اسی قسم کے الزامات عائد کئے تھے۔ حالانکہ وزیر داخلہ گزشتہ ہفتہ کے دوران ایک بیان میں اس قسم کی افواہوں کی تردید کر چکے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان خبروں کی تردید کی تھی کہ لاپتہ بلاگرز کو توہین مذہب کے الزام میں پکڑا گیا ہے یا ان کے خلاف اس الزام میں مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ لاپتہ افراد کے اہل خاندان بھی اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ یہ لوگ لادین ہیں یا وہ توہین مذہب میں ملوث تھے۔ اس کے باوجود بعض انتہا پسند عناصر ان لاپتہ بلاگرز کے خلاف سنگین الزامات کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ اور ان لوگوں کو جو اپنے دفاع میں ایک لفظ بھی کہنے کے لئے موجود نہیں ہیں، اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دے کر ان کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔ تاہم جب ایک قومی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں ایسے ہی الزامات عائد کئے جائیں اور غیر قانونی طور سے لاپتہ ہونے والے افراد پر سنگین اور ہلاکت خیز الزامات لگائے جائیں تو اس فعل کی سنگینی، شدت اور تباہ کاری سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے الزامات اور دعوے صرف ان چند لوگوں کے لئے ہی مشکلات کا سبب نہیں بنتے بلکہ ملک میں انتہا پسندی اور نفرت کے رجحان میں اضافہ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بنائے گئے قومی ایکشن پلان کے تحت ایسی کسی کارروائی کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اس بات میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس حوالے سے رائے کا اظہار کرنے والے، تبصرے اور تجزئے کرنے والے اور رپورٹ کرنے والے صحافیوں اور ماہرین پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ صرف ایک اینکر یا رپورٹر یا مبصر کو منفی رائے کا اظہار کرنے پر مورد الزام ٹھہرانے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت میں پورے ادارے اور صحافت کے پورے شعبہ کو اس کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔ پاکستان کے درجنوں ٹیلی ویژن اسٹیشن ریٹنگ اور کمرشل مفادات کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں ۔ یہ مقابلہ بازی صحت مند روایت کی حدود سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک کی صحافی تنظیمیں اور میڈیا ہاؤسز نہ تو صحافتی اخلاقیات کو سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کے لئے کوئی اخلاقی ضابطہ کار اور ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو ذاتی حملوں ، بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے رجحان اور اشتعال و نفرت سے بھرپور مواد تیار کرنے یا نشر کرنے پر صحافیوں ، اینکرز اور میڈیا ہاؤسز کی گرفت کرسکے۔

ان حالات میں صحافت سے وابستہ افراد اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مقابلہ بازی کی اس منفی فضا اور اس کے نتیجہ میں گھٹیا و ناقص پروگراموں اور اعلی صحافتی اقدار سے گرے ہوئے معیار پر ہراساں اور پریشان ہیں۔ اس موضوع پر مختلف حلقوں میں گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن صورت حال کی اصلاح کے لئے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔ ہر ٹیلی ویژن اسٹیشن بلکہ ہر پروگرام کا اینکر خود کو سب سے بڑا صحافی اور اخلاقیات کا سب سے زیادہ پابند قرار دیتے ہوئے دوسروں کو براہ راست یا بالواسطہ قصور وار ٹھہراتا ہے۔ لیکن خود ستائی کے اس ماحول میں اصولوں پر اتفاق رائے اور ان کے نفاذ سے متعلق تربیت اور کنٹرول کو کوئی پیشہ وارانہ ادارہ یا طریقہ کار استوار نہیں ہو سکا ہے۔ دنیا بھر میں صحافی خود احتسابی کا ایک مؤثر نظام قائم کرتے ہیں۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے کوئی بھی صحافی جان بوجھ کر اخلاقی اور پیشہ وارانہ اصولوں کی روایت سے روگردانی کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا ۔ اگر ایسی غلطی سرزد ہو جائے تو متعلقہ ادارے کے ذریعے فوری طور پر اس کی گرفت کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی متاثرہ شخص اس سلسلہ میں چارہ جوئی کے لئے صحافتی کارکردگی کو کنٹرول کرنے والے ادارے سے رجوع کرسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وکیلوں کے بھاری مصارف بھی برداشت کرنا نہیں پڑتے۔

پاکستان میں یہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری کنٹرول کے ادارے پیمرا سے یہ ساری توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں۔ حکومت بھی اسی ادارے کے ذریعے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو کنٹرول کرتی ہے، عدالتیں بھی اسی سے کارروائی کرنے کا تقاضہ کرتی ہیں اور صحافی بھی پیمرا کو ہی مدمقابل اداروں یا افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی دہائی دیتے ہیں۔ قانون اور پیمرا کے قواعد میں اس کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ پیمرا بھی اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اینکرز اور مبصرین پر پابندی لگانے ، ٹیلی ویژن نشریات بند کرنے یا بھاری جرمانہ عائد کرکے اس اختیار کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ کارروائی تخصیصی ہے۔ اس بار عامر لیاقت زد میں ہے لیکن ایسی ہی ہرزہ سرائی کرنے والے دیگر اینکرز یا کالم نگاروں سے کوئی پرسش نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ملک میں آزادی رائے کے اصول کو تسلیم کروانا ہے اور اگر صحافی اور صحافت کو سرکاری کنٹرول اور دسترس سے آزاد ہوناہے تو پیمرا جیسے نیم سرکاری ادارے کے اس اختیار کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ملک کے صحافی، اینکرز یا میڈیا ہاؤسز مروجہ قوانین سے بالا ہیں اور ان پر ان قوانیں کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ نفرت پھیلانا اور تعصب کا پرچار کرنا ملک کے متعدد قوانین کے تحت قابل دست اندازی پولیس جرم ہے ۔ تو ایسے جرم پر پولیس، استغاثہ یا عدالتیں کیوں اقدام کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ یا ملک میں یہ تاثر کیوں قائم ہو چکا ہے کہ ملک کے صحافی اور اینکرز ’مقدس گائے‘ ہیں۔ نہ تو قانون ان کی گرفت کر سکتا ہے اور نہ ہی سیاست دان، سیاسی ادارے، یا عدالتیں ان کی ’چیرہ دستیوں‘ کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عامر لیاقت اگر نفرت کا پرچار کررہا تھا اور بول کی انتظامیہ اگر اسے نشر کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں کررہی تھی تو اس کی کیا وجہ ہے۔ سب سے پہلے ملک کی حکومت اور منتخب پارلیمنٹ کو اس کا جواب دینا چاہئے۔

عامر لیاقت نے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے لیکن جب پیمرا جیسا ادارہ جو ملک میں نشریاتی اداروں کو لائیسنس جاری کرنے کی مجاز اتھارٹی ہے ، رائے کے اظہار کے معاملہ پر پولیس اور عدالت کا کردار ادا کرے گا تو یہ نہ صرف آزادی رائے ہر حملہ تصور ہو گا بلکہ اس سے ملک میں میڈیا کی صورت حال میں بہتری کی بجائے خرابی پیدا ہو گی۔ یہ تاثر زیادہ قوی ہو جائے گا کہ وہی اینکرز اور ٹیلی ویژن ادارے کامیاب ہو سکتے ہیں جو کسی نہ کسی ادارے یا نادیدہ قوت کی سرپرستی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے دوڑ جاری رہے گی۔ پیمرا نے عامر لیاقت پر پابندی لگاتے ہوئے اپنے ہی وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور پابندی عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریجنل شکایات کونسلز اس پروگرام اور اینکر کے خلاف شکایات پر غور کرکے فیصلہ کریں گی ۔ اس دوران عامر لیاقت پر پابندی برقرار رہے گی۔ یعنی جرم ثابت ہونے سے پہلے سزا کا تعین کردیا گیا۔ کسی میڈیا اتھارٹی کو اس طرح خدائی فوجداری بننے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے آزادی رائے کا اصول مجروح ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ بول، اس میڈیا ہاؤس کے صحافیوں اور ملک کی صحافتی تنظیموں کو کسی مسلمہ طریقہ کار کے تحت کرنا چاہئے۔ یا ملک میں فوجداری کارروائی کرنے کے مجاز ادارے قانون شکنی پر متحرک ہوں۔ پیمرا میڈیا ہاؤسز کے کمرشل مفادات کا نگران ہے۔ اس لئے اسے نشریات کے مواد پر ادارتی حق حاصل نہیں ہو سکتا۔

ملک میں صحافیوں کی تربیت اور انہیں اخلاقی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لئے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ ملک کی متعدد یونیورسٹیوں میں میڈیا کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس دوران زیر تعلیم طالب علموں کو صحافی کی ذمہ داری، جوابدہی اور قانون کے احترام کے حوالے سے خصوصی طور سے آگاہ کیا جائے۔ عملی زندگی میں ایک صحافی کو پیشہ وارانہ اصولوں پر اصرار کرنے پر ملازمت کا تحفظ فراہم کرنے کے لئے مناسب قانون سازی کی جائے اور نشریاتی یا اخباری مواد کو کنٹرول کرنے کے لئے مالکان کے حق اور اختیار کو محدد کیا جائے۔ اس حوالے سے اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو نہ صرف ملک میں آزادی رائے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا بلکہ میڈیا ہاؤسز اور بے لگام اینکرز ملک کے جمہوری نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments