مفتی عدنان کاکا خیل اور مفتی ابو لبابہ شاہ منصور


\"\" بات تو اصل میں مفتی ابولبابہ شاہ منصور کی کرنا ہے لیکن ضمناً دوسرے مفتی صاحب کی بات بھی ہوجائے-

آجکل سوشل میڈیا پہ مفتی ابولبابہ صاحب کی درد بھری فریاد شیئر کی جا رہی ہے- مفتی صاحب بذات خود شامی مہاجرین کے کیمپوں میں موجود ہیں اور انکی لائیو حالت زار بیان کر کے قوم سے مالی تعاون کی اپیل فرما رہے ہیں-

اختصار کی مجبوری ہے کہ ماضی قریب کی ایک کہانی بے ربط انداز میں بیان کروں – آپ خود تصویر مکمل کر لیجئے گا-

طالبان کا ظہور ہوتے ہی، ہمارے ملک میں ایک مفتی رشید احمد صاحب نامی اللہ والے بزرگ کا شہرہ ہونے لگتا ہے- کراچی میں ان کا مدرسہ (دارالافتاء) تو پہلے سے موجود تھا مگر اچانک اس کی شہرت کو پر لگ گئے- آنجناب کی سرپرستی میں ایک رنگین ہفتہ وارمیگیزین \”ضرب مومن \” کے نام سے مارکیٹ میں آتا ہے۔ اخبار نکالتے ہوئے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو پسینے چھوٹ جاتے ہیں مگر مولوی صاحب کا لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والا اخبار، اپنی لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوتا ہے (5 روپے) اور مدارس اور طلباء کو مفت کاپیوں کی فراہمی اس پہ \"\"مستزاد- \” خدا کے غیبی خزانوں\” سے چلنے والے اس اخبار میں، افغان قوم کی حالت زار اور اس کے لئے اہل وطن سے مالی چندہ کی اپیل زوروشور سے شایع کی جاتی تھی- افغانوں کی مالی امداد کی خاطر، انہی بزرگ کے زیر سایہ \”الرشید ٹرسٹ\” بھی قائم کیا گیا تھا- برسبیل تذکرہ، انہی کے پائے کے ایک اور بزرگ بھی کراچی میں ہوا کرتے تھے- چونکہ ان کو، ان کے ٹرسٹ پہ ٹرسٹ نہیں تھا تو انہوں نے \”الاختر ٹرسٹ \” کے نام سے الگ ادارہ کھول لیا تھا- مقصد اور کاز ایک ہی تھا- (ضرب مومن اخبار اور اسلم بیگ دور میں پاک آرمی کی 20 ارب روپے لاگت والی \”ضرب مومن\” نامی مشقوں میں نام کی مماثلت، اتفاقیہ سمجھی جائے)-

مفتی رشید احمد صاحب بڑے دبنگ مفتی تھے جنہوں نے ضرب مومن کے بعد، روزنامہ اسلام بھی جاری کرنے کی اجازت عطا فرما دی تھی –اخبار کی ہیڈ لائین، انکا فرمودہ ہوا کرتا اور مفتی اعظم پاکستان کی سرخی لگی ہوتی- ( مجھ گستاخ سے رہا نہ گیا تو 2001ء میں انکو خط لکھ کر پوچھا کہ جناب مفتی اعظم کی کوئ خاص ڈگری ہوتی ہے یا حکومت نے آپ کو یہ ٹائیٹل دیا ہے؟)- ضرب مومن میگزین کے خاص موضوع، \” امت مسلمہ\”، \”خراسان کے لشکر\”،\” مہدی کی آمد\” اور \” غزوہ ہند\” ہوا کرتے جن کے بارے میں بڑے \”ایمان افروز\” اور تحقیقی مضامین\” شایع\"\" ہوتے- اخبار کے لکھاریوں میں کچھ مہمل ومبہم تو کچھ معلوم صاحبان قلم شامل تھے- خلافت قائم کرنے کے داعی اس اخبار کی مرکزی ادارت، مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور انکے ہم خیالوں کے ہاتھ تھی- اس دوران جامعہ الرشید میں صحافت کا شعبہ قائم کردیا گیا، مفتی ابولبابہ کے زیر اہتمام میڈیا ورکشاپ منعقد ہونے لگیں- ایں؟ دیوبندی مدرسہ اور جرنلزم کی کلاس؟ حکومت کی منت سماجت کے باوجود وفاق والے تو مدارس میں انگریزی پڑھانے کی اجازت دینے کے رودار نہ تھے- کیا جامعہ رشیدیہ نے اپنے اکابر بدل لئے تھے؟ برسبیل تذکرہ، مدارس کے نصاب پر مجھے بھی کئی اعتراضات ہیں مگر میں اسلامی مدارس کے مہتمم صاحبان سے دست بستہ عرض کروں گا کہ اپنے بڑوں سے کٹ کر فیصلے نہ کریں- اس لئے کہ جن کے تکئے پر آپ سولو فلائیٹ کریں گے، وہ آپ کو لال مسجد جیسی چند روزہ شہرت دلوا دیں گے مگر انجام بھی وہی کریں گے-

قصہ مختصر، سادہ دل پاکستانیوں نے خلافت اسلامیہ کے نام پر، اپنے بچے اور مال وزر دان کئے رکھا حتی کہ ان صدقات کو قبولیت حاصل ہوئی اور دنیا میں خلافت امریکیہ قائم ہوگئی جسے یونی پولر ورلڈ کہتے ہیں- (خوابوں کی تعبیر الٹا ہونے کا بیان بھی تعبیر الرویا میں مذکور ہے)- ان افتاد کے دنوں میں کہ جن دنوں پاکستانی نوجوانوں کے لاشے سرحد پار سے لائے جا رہے تھے، ضرب مومن کا قلم قبیلہ، آسمانوں پہ اٹھا لیا گیا تھا جس کا اب دوبارہ نزول ہورہا ہے-

آگے پڑھتے ہیں- \” انٹی طالبان لبرل دور\” کا پاکستان ہے جس میں جنرل مشرف کا آہنی کنٹرول قائم ہوگیا ہے- اس \"\"دوران ایک ویڈیو کلپ ، یوٹیوب پہ آتا ہے اور پاکستان کے دینی حلقوں میں تہلکہ مچا دیتا یے- اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ، ایک دینی مدرسہ کے نوجوان طالبعلم نے جنرل مشرف پر ایسے چبھتے سوالات کئے ہیں کہ جنرل کی دھجیاں اڑا دی ہیں- یہ ہیرو طالبعلم عدنان کاکا خیل تھے- مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ جنرل مشرف سے حد درجہ نفرت کی بنا پر ایسے کلپ نے دل باغ باغ کردیا تھا – تاہم تجربہ یہ کہتا تھا کہ ایسے فنکشن اور ان میں پوچھے گئے سوالات \”پری پلینڈ\” ہواکرتے ہیں- ( اسی کلپ کا دوسرا حصہ، جس میں جنرل مشرف ان تیکھے سوالات کا معقول جواب دیتے نظر آتے ہیں، یہ ثابت کرنے کافی تھا کہ پہلا حصہ سکرپٹ کا ہی حصہ تھا- ملاحظہ رہے کہ یہ دوسرا حصہ کئی دن بعد سامنے لایا گیا تاکہ اس دوران پہلے حصے کو قبولیت عامہ حاصل ہوجائے)- بہرحال، اس وقت مجھے یہ گمان ہوا کہ شاید مولوی صاحب نے داؤ کھیلا ہے یعنی کہنا کچھ اور طے کیا تھا مگر کہہ کچھ اور گئے- سوچتا تھا کہ اگر لکھے ہوئے سکرپٹ سے ہٹ کر مولوی صاحب نے نعرہ مستانہ بلند کیا ہے تو یہ عام مسکین مولوی نہیں ہوگا- کسی بڑے شیخ الحدیث کا صاحبزادہ ہی ایسا کرسکتا ہے کہ جسکی پشت مضبوط ہو- کھوج لگائی تو معلوم ہوا موصوف کے والد ہماری محترم خفیہ ایجنسی کے افسر ہیں- تصویر ابھرنے لگی تھی- بعض دوست کہتے ہیں کہ ان کے والد مولوی تھے- روشن خیال مولوی ہونگے کہ بیٹے کو بچپن میں نایجیریا بھیج دیا ،پھر ساری دنیاوی ڈگریاں حاسل کروانے کے بعد، حفظ و علم کرایا- عدنان صاحب کی اپنی ویب سائٹ پہ انکی ڈگریوں وغیرہ کی لمبی لسٹ پے بس والد بارے معلومات نہیں ہیں- بہرحال، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے- پس میں نے بھی عنان کاکا خیل بارے اپنی رائے کو محتاط و محفوظ کر دیا-

\"\"مگر جب مفتی رشید احمد کی وفات کے بعد، مفتی محمد یا دیگر اکابر علماء کی بجائے ، نوجوان عدنان کاکا خیل کو  جامعہ الرشید پر مسلط کردیا گیا تو تصویر واضح تر ہوگئی- موصوف لمبا عرصہ دبئ میں گذار کر واپس آئے (اپنے جنرل پاشا والا دبئی) اور آتے ہی اس \”مشکوک\” مدرسے کی کلیدی پوسٹ پہ فائز ہوگئے- اس کے بعد موصوف کی وہ بھرپور سوشل میڈیا پروجیکشن شروع ہوگئ جسے میں \”پاشا سٹریٹجی\” کا نام دیتا ہوں- موٹر سائکل ٹرکس کے ذریعہ موصوف کی ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کی پبلسٹی وغیرہ دیکھی تو ہمارا شبہ مزید گہرا ہو گیا کہ نیا کھیل اور نیا چہرہ سٹیج کیا جارہا ہے- بہر حال، عدنان کاکاخیل کے بارے میں ہمارے شبہات کو، جاوید چوہدری کے لکھے گئے کالم مورخہ 19 جنوری 2017 نے کنفرم کردیا کہ موصوف خانقاہ آبپارہ کے پہنچے ہوئے گدی نشین ہیں- جاوید چوہدری نے نام لے کر لکھا ہے کہ دھرنے کے پس پردہ جرنیل صاحب نے آرمی چیف بننے کیلئے عدنان کاکا خیل کا راستہ استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی- (اپنے چوہدری صاحب بھی گھر کے بندے ہیں- ضرب مومن میں یاسر محمد خان کے نام سے لکھے کالم، ان ہی سے منسوب کئے جاتے ہیں )-

دیکھئے، خانقاہ آبپارہ کے کئی چہرے اور سلسلے ہیں- ایک تو اس کا سیاسی چہرہ ہے- آپ کو دفاع پاکستان کونسل تو\"\" یاد ہوگی جہاں سٹیج پر جنرل حمید گل کے دائیں ہاتھ جماعت اسلامی کے منور حسن تو بائیں ہاتھ شیخ رشید کھڑے ہوتے تھے- پیر مغاں کا ایک چہرہ، غیرسیاسی \” اللہ والوں\” کی لاٹ بھی ہے جس میں نامی گرامی داعی حضرات شامل ہیں – کام ان کا بھی یہی ہوتا ہے اپنے مریدوں کو جمہوری نظام سے بد ظن کرتے ہوئے، خلافت اسلامیہ کے رومان کا اسیر رکھیں –مگر انکا طریقہ واردات ذرا وکھرا ہوا کرتا ہے-

المختصر، ضرب مومن کی ٹیم واپس فارم میں آرہی ہے تو قوم کو مبارک ہو-

مفتی ابولبابہ صاحب اتنا عرصہ مراقبے میں گذارنے کے بعد، شامی مہاجرین کی حالت زار دیکھنے ترکی جا پہنچے ہیں- اپنے یہاں وزیرستان کے آی ڈی پیز کی حالت زار معلوم کرنے کے لئے شاید ان کے پاس اسباب میسر نہیں ہوں گے تبھی تو ترکی کا قصد باندھا ہے- بے فکر رہیئے، مفتی ابولبابہ کی امدادی اپیل کو پاکستان میں بھرپور پذیرائی ملے گی کہ یہ ان کا پرانا شعبہ ہے- تجربہ بڑی چیز ہے صاحب-

شامی مہاجرین کی حالت زار کے بارے میں مفتی ابولبابہ سچ کہہ رہے یا نہیں؟- اس سے مجھے غرض نہیں- لیکں اتنے عرصے بعد مفتی ابولبابہ کا فعال ہوجانا، شتویشناک ہے خاص طور پر ان سادہ دل جمہوریت پسندوں کیلئے جو پہلے جنرل مشرف کے باہر جانے پر اور پھر شکریہ شریف کی روانگی پر، اپنی آنکھوں میں عوام کی حاکمیت کے خواب سجا بیٹھے تھے-

محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کالی قوتوں کو عوام کا حق حاکمیت گوارا نہیں- معلوم پڑتا ہے کہ آخر شب کے نقب زن، ہنوز منڈیروں پہ چھپے بیٹھے ہیں-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments