نادیہ کی ڈائری کا ایک ورق


\"\"ویسے تو میں، جب گھر سے نکلتی ہوں تو چادر خوب لپیٹ کر نکلتی ہوں۔ آج میں نے سوچا کہ گھر سے نکلتے وقت نقاب بھی لے لوں۔ شاید اس طرح گلی کے نکڑ کے لڑکوں اور محلے کے فارغ بزرگوں کی نظروں کی چبھن کچھ کم محسوس ہو۔ جو صبح سے ہی محلے کی، ہر آتی جاتی لڑکی کو تاڑنا، اپنا فرض اور نصب العین سمجھتے ہیں۔ لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی دیوانگی اور حسرت سے سب نے اپنا فرض پورا کیا، جیسا کہ ہر روز کرتے تھے۔ بلکہ روزانہ جس طرح کے جملے کسے جاتے تھے۔ اس میں ایک جملے کا اور اضافہ ہوگیا۔ نجانے کیا غلطی ہوگئی کہ آج حسن بے نقاب نے، نقاب لے لیا، اگر کوئی غلطی ہو گئی ہے تو معاف کر دیں۔ اگلا مرحلہ مرکزی شاہراہ پر کھڑے ہو کر، سواری کا انتظار کرنا تھا۔ یہاں بھی ہر موٹر سائیکل سوار اور موٹر کار والے نے نظروں ہی نظروں میں، ہر قسم کی دعوت دے ڈالی۔ خیر یہ تو ہوتا ہے۔ مرد، عورت کے نہ چاہتے ہوئے بھی، اس کی مدد کو کمر بستہ رہتا ہے۔

میرا معمول ہے کہ ایسے رکشے میں بیٹھوں، جس کا ڈرائیور عمر رسیدہ ہو۔ آج، کیونکہ تجرباتی دن تھا۔ اس لیے سفر کے لیے باریش بزرگ کے رکشے کی تلاش شروع کی۔ تھوڑی دیر بعد، ہم رکشے میں سوار، محو سفر تھے کہ کچھ عجیب سا محسوس ہونا شروع ہوا۔ کچھ دیر بعد یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ رکشے میں لگے، لاتعداد شیشوں کی مدد سے معائنہ کیا جا رہا ہے۔ رکشے میں لگے ہر شیشے میں، ہمارا عکس نمایاں تھا اور اس کے ساتھ باریش بزرگ کی تاڑنے کی خصلت کے ساتھ، کردار بھی نمایاں تھا۔ دفتر پہنچے تو یہاں بھی، دفتر کے سب ساتھیوں نے تعجب خیز مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا۔ میں نے جلدی سے اپنے کاوئنٹرپر جا کر نشست سنبھال لی۔ تمام کاوئنٹرز میں لگی قطاروں میں، سب سے لمبی قطار میں نمٹا رہی تھی۔ گھر واپسی تک دن اسی طرح گزرا، جس طرح روز گزرتا ہے۔ صرف ایک تبدیلی محسوس ہوئی کہ مرد حضرات آج نقاب کے پار دیکھنے کی کوشش میں مصروف نظر آئے۔

گھر پہنچ کر روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ تمام گھریلو امورسے فارغ ہونے کے بعد، اپنی دوست کو فون کیا۔ دوست نے جب، یہ پوچھا کہ دن کیسا گزرا تو میں نے بلاکم وکاست دن بھر کی روداد سنا دی۔ دوست بہت ہنسی اور کہنے لگی تم کچھ بھی کرلو، مرد کی نظر تو سات پردوں میں سے بھی دیکھ لیتی ہے۔ ویسے بھی شریعت میں چہرا، ستر میں شامل نہیں ہے۔ یہ انکشاف میرے لیے حیران کن تھا۔ بچپن سے یہی سنتے آئے تھے کہ نقاب بھی لینی چاہیے۔ اپنا تردّد دور کرنے کے لیے مقامی دارالافتاء فون کیا اور چہرے کے ستر ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے سوال کیا۔ جواب تھا گو شریعت میں، چہرا ستر میں شامل نہیں لیکن فی زمانہ نقاب لینا چاہیے۔ بات کچھ سمجھ نہ آئی تو ہم نے کہا، ذرا تفصیل سے سمجھائیے۔ انتہائی خوش دلی کے ساتھ جواب ملا، تفصیلات اور اطمینان کے لیے کسی دن، آپ خود تشریف لے آئیں۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر، آج کے دن کی روداد لکھنے کے لیے ڈائری سنبھالی اور T.V کھولا تو خبر چل رہی تھی کہ گوجرانوالہ میں کم عمر لڑکی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ایک اور تاریخ رقم کی گئی ہے۔ خبر بہت افسوس ناک اور مایوس کن تھی۔ ا س لیے T.V بند کردیا۔ ذہن میں یہی سوال گونجتا رہا۔ کیا حیا صرف عورت کا زیور ہے۔ کیا مرد کے لیے بھی کوئی حیا کا حکم ہے؟ یقینا ہے۔ لیکن ہمارے مردانہ معاشرے میں، مرد اپنے اوپر حیا کے حکم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، حیا کی تلقین صرفٖ خواتین کو کرتا ہے۔ مرد کو کھلی چھٹی ہے کہ جس پیمانے پر چاہے، حیا کی دھجّیاں اڑاتا پھرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments