دارالحکومت میں اسکول شفٹ اور ایک توبہ کا قصہ


\"\"کیا آپ کے بچے وفاقی دارالحکومت کے کسی سرکاری اسکول کی شام والی شفٹ میں پڑہتے ہیں اور آپ نے کبھی ان بچوں کی شفٹ تبدیل کروانے کے لئے کوئی کوشش کی ؟اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دارالحکومت میں سب کام میرٹ پر ہوتے ہیں اور اسکول کی شفٹ تبدیل کروانا آسان کام ہے تو اس خام خیالی سے باہر نکل آئیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی سفارش نہیں ، کسی وزیر مشیر سے ذاتی تعلق واسطہ نہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک ٹیلیفون سے آپ کا کام ہو سکتا ہے تو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہیں۔

اوپر تک رسائی نہ رکھنے والوں نے اگر ایسی کوئی کوشش کی ہوگی تو ان کو لگ پتا گیا ہوگا کہ دیکھنے میں آسان کام درحقیقت کتنا مشکل ہے۔ میرے ایک دوست کو اپنی بچی کی داخلہ شام سے صبح کروانے میں پورے پانچ سال لگے، لیکن بچی نے اسکول تبدیل کرلیا، شفٹ تبدیل نہیں ہو سکی۔

کچہ سال پہلے میرے دوست کا تبادلہ کراچی سے اسلام آباد ہوا، چھوٹی موٹی پرائیوٹ ملازمت کرنے والے میرے دوست کی یہ کہانی دلچسپ اپنی جگہ لیکن ایک ناکامی کا داستان ضرور ہے۔

میرے دوست الفت کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے معیار نے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔ اسے اسلام آباد کی حد تک تو یہ توقع نہیں تھی کہ تعلیم کے میدان میں دکانداری عام ہوگئی ہے۔ پہلے لوگ کمرشل مارکیٹ اور دکان وغیرہ کھول لیتے تھے اب پیسا کمانے کے لئے اسکول، کالیج اور یونیورسٹی کھولنا معمول کی بات ہے۔اب تو میڈیکل کالج اور انجنئرنگ یونیورسٹیز کھولنے کے لیے بس آپ کے پاس این اوسی حاصل کرنے کی فیس اور کچھ اوپر فی سبیل اللہ جتنے پیسے ہوں تو ایک ہفتے میں پورا ادارہ اپنے نام کروا سکتے ہیں۔ پورے ملک کی طرح دارالحکومت میں بھی اس وقت گلی گلی اور گلی کے ہر نکڑ پر مدارس کی تعداد میں علم، اہلیت اور قابلیت نہیں صرف سرٹفکیٹ اور ڈگریاں بیچنے کی دکانیں کھول دی گئی ہیں۔

میرے دوست نے سب سے پہلے تو اپنی بچی کو چھٹی جماعت میں محلے کے ایک فیڈرل اسکول میں داخلہ دلوایا، پھر ماڈل اسکولز و کالجز کی تعریف سن کر وہاں داخل کروانے کی کوشش کی، ان کے پڑوسی انور میاں کی بیگم ماڈل کالج فار گرلز میں ٹیچر تھیں، جن کی کوشش سے بچی کا داخلہ ایک ماڈل کالیج میں ہوا لیکن صبح کی شفٹ نہیں مل سکی، داخلہ دلانے والی ٹیچر نے شفٹ تبدیل کروانے کے لئے دوست کو سفارش لگوانے کا مشورہ دیا، جس پر میرا دوست یہ سوچ ہو کر حیران ہوا کہ یہاں بھی سب کام سفارش پر ہوتا ہے؟ سرکاری اسکول میں اس بچی کا داخلہ ہوا، ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی ہو گیا، لیکن شام والی شفٹ کی مشکلات دوست کو بعد میں سمجھ میں آئیں۔

ایک تو اسکول میں صبح اور شام والی شفٹ میں تعلیمی معیار کا فرق ہے، شام والی شفٹ والے بچوں کے گھر پہنچتے ہی رات ہو جاتی پھر پڑھائی، ہوم ورک، کھیل کود مطلب کہ کچھ نہیں ہو پاتا، دن 12 بجے اسکول جانا پڑتا اور شام کو سات بجے اسکول سے واپسی، نہ کھانے پنیے کا مقرر وقت یعنی سارا ٹائم ٹیبل ہی اس شام والی شفٹ نے الٹا کر کے رکھ دیا، جب معاملات روز بروز الجھتے گئے تو دوست نے بھی سنجیدگی سے سفارش ڈھونڈنا شروع کردی۔

سب سے پہلے مرے دوست اسی گرلز اسکول کی پرنسپل سے ملے، جس نے درخواست لے کر دراز میں رکھ لی اور ایک سال تک اس کا جواب تک نہیں دیا، دوربارہ پرنسپل سے رابطہ ہوا تو وہ سب کچھ بھول چکیں تھی،اور درخواست بھی دراز میں سے گم تھی۔

اگلے سال میرا دوست وزارت تعلیم کے کسی افسر تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن اس سینئر سیکشن افسر نے جواب دیا کہ ’’ یار مسئلہ تو جینوئن ہے پر میرے ہاتھ میں کچھ نہیں، یہ کام اوپر کے ہیں، آپ سیکریٹری صاحب کی سفارش نکالیں تو کام ہو جائے گا‘‘۔

دوست خو د شہر میں نیا نیا تھا، اب سیکریٹری تعلیم کی سفارش کہاں سے ڈھونڈ کر لائے؟ وزیر یا سیکریٹری تک رسائی خاصی مشکل تھی، میرے دوست کو سیکریٹری کا کوئی بندہ نہیں ملا، ایسے ہی ایک اور سال اور گذر گیا اور شفٹ بدل نہیں سکی۔

شفٹ بدلنے کے لئے گھر میں روزانہ نئی منصوبابندی ہوتی، میاں بیوی کے درمیاں بحث ہوتی اور کبھی کبھی چپقلش بھی۔ ایک دن میرے دوست ایک مملکتی وزیر کے چیمبر تک پہنچ گئے۔ وزیر صاحبہ نے تفصیلات لیں، اپنے پی اے کو دیں اور دوست کو روانہ کر دیا۔ معاملہ گم، یاد دہانی کے لیے رابطہ بھی ہوا لیکن کام نہیں ہوا۔ وزیر کا پی اے ایک ہی جواب دیتا رہا کہ آپ کو اطلاع کر دی جایئے گی، ایک دن اس پرسنل اسسٹنٹ کا تبادلہ ہو گیا۔

ایسا نہیں کہ سرکاری اسکولوں میں شفٹ تبدیل نہیں ہوتی، میرا دوست مجھے بتا رہا تھا کہ اس کے لئے لازمی ہے کہ آپ کے پاس ایسی زبردست سفارش ہو جو تعلیمی افسران کے لیے موثر ہو۔

کچھ ہفتوں مہینوں کے بعد دوست ایک دوسرے وزیر کے چیمبر تک پہنچ گیا اور اسی ضمن میں مدد کی درخواست کی۔ وزیر نے پھر وہ ہی مشق دہرائی، اپنے پی اے کو بلایا، اس کو خصوصی ہدایات دیں،اس بار دوست کو لگا کہ اب شفٹ تبدیل ہو جائے گی۔ اسی آسرے میں ایک سال بیت گیا۔ اگلے سال وزیر کا محکمہ ہی بدل گیا، اس سال کے دوران وزیر موصوف کی آفس سے یہ ہی جواب ملتا رہا کہ معاملہ ’’انڈر پراسز‘‘ہے۔ وہ معاملہ پورا سال انڈر پراسز رہا، اس پورے عرصے میں میرے عزیز دوست کی بچی چار امتحانات دے کر اگلی کلاسوں تک پہنچتی رہی۔ ایک دن میرے دوست نے کسی جاننے والے کے مفید مشورے پر کالج کے کلرک سے سارا قصہ بیان کر دیا،اور آخر میں عرض کیا کہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر میرا کام کردو۔۔۔ کلرک نے سینا ٹھوک کر کہہ دیا جناب الفت صاحب یہ کام ہو جائے گا لیکن اس کے لیے شراط دو ہیں۔ دام میں طے کروں گا اور کام کی مدت کے بارے میں سوال آپ نہیں کریں گے۔ اور رقم بھی ایڈوانس میں دیں گے۔ یہ سودا گھاٹے کا ہے، یہ کہہ کر دوست اسکول سے نکل آیا۔ کلرک تک رسائی آخری حربہ تھا، اور یہ آخری سال تھا۔ بچی میٹرک میں پہنچ چکی تھی۔ اس دوران شفٹ بدلنے کی تمام کوششیں ہوئیں ، لیکن سب بے سود رہیں، اس بچی کی اسکول کی شفٹ تب تبدیل ہوئی جب اس نے لیونگ سرٹفکیٹ لے کر دوسرے کالج میں داخلہ لیا۔۔۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments