میں شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی


\"\" شادی ہمارے معاشرے کا پسندیدہ کام ہے۔ ہم پیدا ہی شادی کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اپنی شادی، اپنے بچوں کی شادی، رشتے داروں کی شادی، محلے داروں کی شادی ۔ ہمارا بس چلے تو سڑک پر چلتے ہر انسان کی شادی کرا دیں۔

پاکستان میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ کے دل میں فوراَ اس کی شادی کا خیال آتا ہے۔ اگر تو بیٹا ہوا ہے تو ماں باپ فوراَ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ فلاں کی بیٹی بالکل نہیں لینی اور ڈھمکاں کی بیٹی کو تو نظر بھرکر دیکھنا بھی نہیں ہے۔ جہیز میں گاڑی اور اے سی تو لازمی لینا ہے۔ دوسری طرف جن کے بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ فوراَ اپنا بینک بیلنس چیک کرتے ہیں۔ اگلے پچیس سال کا بجٹ بناتے ہیں۔ کہاں کہاں سے پیسے بچا کر بیٹی کا جہیز بنانا ہے۔ سب پلان کر لیتے ہیں۔

ہمارے ہر کام کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے شادی۔ جب بچہ پڑھائی سے جی چراتا ہے تو اسے یہی کہ کر سمجھایا جاتا ہے کہ پڑھ لے ورنہ کون تجھ سے شادی کرے گا۔ جب بچہ پڑھ لیتا ہے تب نوکری کے لئے بھی یہی ریڈیو سناتے ہیں۔ اچھی نوکری ڈھونڈ و ورنہ کون تجھے اپنی بیٹی دے گا۔ اسی طرح بیٹیوں کو بھی الگ باتیں سننی پڑتی ہیں۔ کم کھائو، کم سو، زیادہ نہ ہنسو، ورنہ تم سے شادی کون کرے گا۔ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ سانس لینے پر بھی پابندی لگا دیں گے کہ وہ بھی اپنے گھر جا کے لینا۔

بچپن میں تو مجھے شادی کا شوق تھا۔ نیا گھر، کپڑے، جوتے، زیور،میک اپ اورخودمختاری۔ ان سب کا نشہ سا ہونے لگا۔ اس کے علاوہ شوہر اور بچے ان کا تصور کر کے تو لگتا تھا جیسے زندگی باغ و بہار ہو جائے گی۔ لیکن اس نشے کو رفع ہونے میں دیر نہیں لگی۔ سب سے پہلے تو شروعات اپنے گھر سے ہوئی۔ذرا سی بات پر اماں ابا کے جھگڑے، دادی اور پھپھو کے طعنے، ابا کا گھریلو خرچہ روک لینا، ماما کا سسکنا، نانی کا اماں کو تسلی دینا۔ یہ سب روز مرہ کی باتیں تھیں۔ مجھے لگا کہ شاید یہ ہمارے گھر کی ہی کہانی ہے۔ میں نے گھر کی دنیا سے باہر کی دنیا میں جھانک کر دیکھا تو پتا لگا کہ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔

یہ مسائل رشتہ طے ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ ہاں ہوتے ہی لڑکی پر بڑے نا محسوس طریقے سے مختلف پابندیا ں لگنی شروع ہو جاتی ہیں۔ پردہ کرو۔ پڑھائی چھوڑ دو۔ نوکری کر رہی ہےتو وہ بھی چھوڑ دو۔ وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے گھر کی عورتیں یہ کام نہیں کرتیں لیکن یہی ہمارے گھر کی عورتیں جب باہر کسی کام سے جاتی ہیں تو انہیں ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر بھی چاہئے، بینک میں خاتون کیشئر بھی چاہئے، نادرا کے دفتر میں تصویر اتارنے والے کائونٹر پر بھی عورت چاہئے اور ائیر پورٹ کے سیکیورٹی چیک پوائنٹ پر بھی عورت ہونی چاہئے لیکن خود یہ باہر جا کر پڑھنا اور کام کرنا عورت کی شان کے خلاف سمجھتی ہیں۔

ان سب پابندیوں کے ساتھ ساتھ سسرال کی عزت بھی لڑکی کے ہر فعل سے منسلک ہو جاتی ہے۔ اتنی جلدی تو ایپلیکیشنز کی اپڈیٹس بھی نہیں آتی جتنی جلدی یہ سسرال والے اپنی عزت لڑکی کے حوالے کر دیتے ہیں اور عزت بھی ایسی جو کہ بہو کے اپنی مرضی سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے رُل جائے گی۔ لڑکی حیران پریشان رہ جاتی ہے کہ اچانک ہی اس کی زندگی کا کنٹرول اتنے لوگوں کے ہاتھ میں کیسے آ گیا۔ شادی ہی ہو رہی ہے یا نیا جنم ہو رہا ہے۔ جہاں اسے ہر کام مختلف لوگوں سے پوچھ کر کرنا ہے۔ ان مختلف لوگوں میں شوہر، اس کے والدین، بھائی بہن اور رشتے دار شامل ہوتے ہیں۔

شادی کے وقت بھی دلہن کا جوڑا، جوتے، پارلر کا انتخاب تک یہی لوگ کرتے ہیں۔ انتخاب سے پہلے ایک رسمی فون کیا جاتا ہے کہ ہم اس کی شادی کی شاپنگ کرنے لگے ہیں ۔ ہم تو سب کچھ اس کی مرضی کا ہی خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ اسے ساتھ بھیج دیں۔ اب کہنے کو تو کہ دیا لیکن دل میں یہی ہوتا ہے کہ جواب نہ میں آئے تبھی بہو کی عزت ہوگی کہ دیکھو کتنی نیک بچی ہے۔ اگر دوسری طرف سے ہاں کہ دی جائے تو لڑکی کو لے تو جاتے ہیں مگر پوری زندگی ملنے والوں کو سناتے رہتے ہیں کہ دیکھو کیسی دیدہ ہوائی لڑکی ہے۔ شادی کی شاپنگ کرنے ساتھ چل پڑی تھی۔

پھر شادی کے بعد آہستہ آہستہ سارے گھر کا کام بھی لڑکی کے حوالے کر دیتے ہیں کہ لو سنبھالو۔ اب تو یہ تمہارا گھر ہے۔ آگے سے ذرا لڑکی کہ دے کہ جی میرا گھر ہے تو اس کے کاغذات بھی میرے نام کر دیں تب تو آگ ہی لگ جائے گی دنیا میں۔ تمہارے گھر سے مراد یہ ہے کہ اس گھر کو چلانے کی ذمہ داری اب تمہاری ہے۔ صبح ناشتہ بنانے سے لے کر رات میں گھر کا مین گیٹ لاک کرنے تک ہر کام اب تمہیں ہی کرنا ہے۔ شوہر جو شادی سے پہلے اپنے کپڑے خود استری کرتا تھا شادی کی صبح بیوی کو کہتا ہے کپڑے نکال دو۔ اب وہ بے چاری جو پوچھ لے کہ پہلے کون نکالتا تھا تو میاں جی کی آنکھیں فوراَ باہر آ جاتی ہیں۔ اب شوہر کی بھی کیا غلطی۔ اس بے چارے نے پوری زندگی اپنےا با جی کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۔

شادی کے دس پندرہ سال بعد کی صورتحال دیکھو تو یہی لڑکی اب ایک آنٹی میں تبدیل ہو گئی ہوتی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا بدلہ دوسروں سے لینا چاہتی ہے۔ یہ آنٹی صبح اٹھتی ہیں۔ ناشتہ کرتی ہیں پھر فون کے پاس بیٹھ جاتی ہیں۔ باری باری مختلف رشتہ داروں کا نمبر ملاتی ہیں اور بس پھر دوپہر اسی چکر میں ہو جاتی ہے۔ فلاں کی شادی کب ہے تو فلاں کے صرف دو بچے کیوں ہیں؟ ارے وہ صاحب اپنی بیٹی کو باہر پڑھنے بھیج رہے ہیں؟ توبہ توبہ۔ جب اس سے فارغ ہوتی ہیں تو شوہر کو کوسنے لگ جاتی ہیں کہ تم نے آج تک مجھے کوئی خوشی نہیں دی۔

ایسی عورتوں کو دیکھ کر میں ڈر گئی ہوں۔ میں شادی کے نام سے بھی دور بھاگتی ہوں۔ یہ شادی نہیں جیل ہے جس میں داخلے سے پہلے مجھے اپنی خواہشات کو ذہن سے نکال کر دور کہیں پھینک دینا ہوگا۔ میں کیا کرنا چاہتی ہوں۔ میرے کیا خواب ہیں۔ یہ کوئی نہیں سننا چاہتا۔ میری زندگی کا مقصد بس مزیدار ٹینڈے بنانا ہونا چاہئے۔ اس کے آگے کچھ سوچنا گناہِ عظیم سے کم نہیں ہے۔ اگر اس سب کا نام شادی ہے تو معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔ مجھے کنوارا رہنا ہے۔ اپنے خواب پورے کرنے ہیں اور اپنی زندگی اپنے مطابق جینی ہے۔ اگر کوئی مجھے میرے خوابوں سمیت اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس سے پہلے، آنٹی پلیز! آپ کے گھر کی ملازمہ بننے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments