یہ سلسلہ ٹوٹا نہیں دور کی زنجیر کا


\"\" ہماری زندگی سے حیرت ختم ہوگئی صرف حیرانی باقی رہ گئی ہے۔ اب آپ پانامہ کا قصہ ہی لے لیں کسی کو حیرت نہیں کہ پانامہ کے پردے میں کیا کیا کھیل ہوا۔ بس یہ مقدمہ تو عمروعیار کی داستان سا نظر آتا ہے۔ بس ہماری حیرت تو گم ہے مگر حیرانگی بہت ہے۔ کتنے ماہ سے پانامہ کا جاپ خواص کی زبان پر ہے۔ قصہ اور کہانی طول پکڑتی جارہی ہے۔ حیرت کے سمندر میں تو جج صاحبان ہوسکتے ہیں۔ عوام کو تو فقط حیرانگی ہے کہ ایسے مقدمے کا فیصلہ بھی کوئی حیران کن ہی نہ ہو۔ فریقین کی تاویلیں ایسی جیسے کے سٹاک مارکیٹ کا ریٹ۔ پاکستانی معیشت بھی دنیا بھر کو حیران ہی کررہی ہے۔ آئی ایم ایف کے غیر محفوظ قرضوں پر بنی مضبوط ترین معیشت کا پرچار ہمارے میر منشی جناب اسحاق ڈار صاحب خوب کرتے رہتے ہیں۔ پھر سٹاک مارکیٹ کی تیزی دیکھئے۔ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ قرضوں کی معیشت پر ایسے ریکارڈ کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان روپے کی قدر میں کمی سٹاک مارکیٹ کی تیزی کو مشکوک بنا رہی ہے۔

ہماری مضبوط معیشت کا تذکرہ عالمی اقتصادی فورم میں خوب ہوا جس میں شرکت کے لیے ہمارے سیماب صفت وزیراعظم خصوصی طور پر سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس عالمی اقتصادی فورم میں شرکت ایک مبصر کی حیثیت سے کی۔ جناب پاکستانی وزیراعظم کو دعوت نامہ ورلڈ اکنامک فورم کے ایگزیکٹو چیئرمین نے دیا تھا۔ جناب نواز شریف، ڈیووس میں بہت ہی مصروف رہے۔ اگرچہ ان کے وفد کے بارے زیادہ معلوما ت نہیں ملتیں مگر ان کے قیام کے دوران کافی پاکستانی تاجر اور کاروباری گروپ کے اہم لوگ اس فورم میں نمایاں رہے۔ ورلڈاکنامک فورم نے دنیا بھر میں کاروبار کرنے والوں کے لیے دس بنیادی اصولوں کو بھی مرتب کیا ہے۔ اس فورم میں سب سے اہم شخصیت چین کے صدر جناب شی چن پنگ کی تھی۔ انہوں نے جو سب سے اہم بات کی وہ دنیا میں معیشت کے بحران کے بارے میں تھی۔ ان کے مطابق دنیا کا اقتصادی بحران ناجائز منافع اور مالیاتی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ اس فورم کا آغاز بھی چینی صدر کی تقریر سے ہوا۔ اب یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ہمارے وزیراعظم نے چینی صدر سے کب اور کیسے ملاقات کی اور کن امور پر تبادلہ خیال ہوا۔

ہمارے وزیراعظم کے ساتھ تمام ملاقاتوں میں پرنسپل سیکرٹری جناب فہد حسن فہد بڑے ہی نمایاں رہے۔ وہ ہماری نوکر شاہی کا انمول ہیرا ہیں اور وزیراعظم اور ان کے پریوار کے مزاج کو خوب جانتے ہیں۔ چند دن پہلے ہی جب اسلام آباد کے گن کلب میں لیگی ایم این اے دانیال عزیز نے غیرضروری سا ہنگامہ کیا۔ اس پر گن کلب کے ملازمین نے کمزور سا دھرنہ بھی دیا تو موصوف نے وزیراعظم کے سیکرٹری جناب فہد حسن فہد سے مدد چاہی۔ انہوں نے پہلے تو نظر انداز کیا مگر جب مریم نواز شریف کی سفارش آئی تو وزیرداخلہ سے مدد کی درخواست کی۔ ہمارے وزیرداخلہ بھی بڑے دبنگ انسان ہیں۔ ان کو اندازہ تھا کہ لیگی ایم این اے نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔ مگر وزیراعظم کی پتری کی وجہ سے فریقین کو حوصلہ کا مشورہ دے کر معاملہ ٹال دیا۔ وزیراعظم کے سیکرٹری بڑے زیرک افسر ہیں۔ ایک عرصہ تک پنجاب میں صحت کے معاملات دیکھتے رہے۔ صوبدار پنجاب شہباز شریف ان کی صلاحیتوں کے قائل ہیں اب جبکہ پنجاب میں ہسپتالوں کا حال بہت خراب ہے ان کو فہد حسن فہد کی کمی بہت ہی محسوس ہورہی ہے۔ ہماری نوکر شاہی سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں رُل سی گئی ہے۔ اب ان میں دم خم کم ہی نظر آتا ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کے ملاقاتوں میں وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل سے خصوصی ملاقات کی اور شنید ہے کہ کشمیر کے تنازعہ پر اپنا موقف بھی دیا۔ اس کے علاوہ عالمی مارکیٹ کی اہم کمپنی علی بابا کے چیف جیک مانے سے اہم ترین ملاقات کی۔ علی بابا کمپنی دنیا بھر میں جدید انداز میں تجارت کو فروغ د ے رہی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مثبت انداز میں پیش کش بھی کی۔ ہمارے وزیراعظم علی بابا گروپ سے خاصے متاثر بھی نظرآئے۔ پاکستانی وزیراعظم جناب نوازشریف کے خصوصی سیکرٹری جناب فہد حسن فہد تمام اہم ملاقاتوں میں وزیراعظم کی مکمل مشاورت بھی کرتے رہے۔ اس اقتصادی فورم نے پاکستان سے بھی کافی لوگوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ ان میں ایک اہم شخصیت پاکستان کے سابقہ کمان دار فارغ جنرل راحیل شریف کی تھی۔ ان کودنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے مدعو کیا گیا تھا ۔ جنرل (ر)راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا مقدمہ بڑے مو ثر انداز میں پیش کیا اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بھی بنایا۔ ان کے قیام کا انتظام علیحدہ تھا۔ اتنا قریب ہونے کے باوجود وہ وزیراعظم کا قرب حاصل نہ کرسکے۔

پاکستان کی وزیرمملکت انوشہ رحمان کے علاوہ شرمین عبید چنائے، داﺅد گروپ( داﺅدہرکولیس) کے لوگ، پاکستان کے سابقہ سفیربھارت اور کینیڈا جناب شاہد ملک بہت ہی نمایاں رہے۔ جناب شاہد ملک دفتر خارجہ کے اہم لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے بھارت میں سفارت کاری کی پھر کینیڈا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ سرکاری ملازمت سے فراغت کے بعد میاں منشا کے لیے کام کرتے رہے۔ میاں منشا نے بھارت میں بینک کے حوالہ سے جو پراجیکٹ سوچا تھا اس پر شاہد ملک نے ان کی رہنمائی کی اور آج کل وہ داﺅد گروپ کے ساتھ ان کے معاملات کی نگرانی کررہے ہیں۔ وہ بھی کچھ اہم اجلاسوں میں نظر آئے۔ سابقہ امریکی سیکرٹری جان کیری نے ایک اجلاس میں پولیو کے حوالہ سے بات کی اور پاکستانی مندوبین کو اس معاملہ کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ہمارے بیشتر پاکستانی حضرات کا عالمی اقتصادی فورم میں شرکت نجی حیثیت میں تھی۔ مگران کو اس فورم میں شرکت سے اندازہ ہوا کہ ملک میں بدانتظامی سے ہی معیشت کی حالت خراب ہے اور اس کا احساس سرکار کو نہیں۔

وزیراعظم جناب نوازشریف ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے بعد لندن کے لیے روانہ ہوگئے۔ پانامہ کے مقدمہ کی وجہ سے لندن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ لندن میں انہوں نے آرام کے علاوہ مسلم لیگ کے صدر جو کچھ دن پہلے نامعلوم لوگوں کے ہاتھوں زخمی ہوگئے تھے ان کی خصوصی عیادت بھی۔ لندن کا مختصر سا قیام وزیراعظم نواز شریف کو چاک و چوبند سا کر دیتا ہے۔ اگرچہ ڈیووس کے قیام کے دوران مصروفیت کی وجہ سے وزیراعظم خاصے تھکےتھکےسے نظر آرہے تھے۔ مگرلندن یاترا کے بعد ان کے چہرے کی تازگی اور ہلکے پھلکے جملے ان کے اچھے مزاج کا پتہ دے رہے تھے۔ اس دورہ کے دوران وہ ہروقت پاکستان میں رابطے میں رہتے تھے۔ اس سفر کے دوران میاں نوازشریف نے آنے والے دنوں کے لیے اپنا آئندہ کا پروگرام کافی حد تک بنا لیا ہے اور ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب اعلیٰ عدلیہ کی کارروائی کی وجہ سے متبادل اقدامات کے بارے غور کررہے ہیں۔ یہ بات خاصی خوش کن ہے۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ایسا اقدام میاں صاحب کے اگلے الیکشن کے لیے ایک سنگ میل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یہ پتھربھاری ہے مگر اٹھانے میں کیا ہرج ہے۔ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ ہوسکتا ہے اعلیٰ عدالت قوم کو حیران اور میاں صاحب کو حیرت زدہ کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments