سیاسی چہرے، مہرے اور قیافہ شناسی


\"\" آپ ابھی آنکھیں بند کیجیے۔ اور کسی شہر، ملک، انسان، خوراک یا پراڈکٹ، کسی بھی شے کا تصور کیجیے۔ تصور کے ساتھ ہی آپکو اس شہر، ملک، انسان، خوراک وغیرہ کے ساتھ جڑے اس کی مختلف صفات آپ کے ذہن میں آنا شروع ہو جائینگی۔ مثلا، آپ جب آنکھیں بند کرکے افغانستان کا تصور کریں گے تو آپکے ذہن میں امریکہ کی عمارات اور مائیکروسافٹ وغیرہ نہیں آئینگے۔ جو کچھ بھی بھلے آئے، وہ آپکے اپنے تصور کے دائرے پر ہی مبنی ہے، مگر آپکے ذہن میں افغانستان کی تشبیہاتی تشریح، امریکہ سے مختلف ہی ہوگی۔

اسی طرح، آپ آنکھیں موندئیے، اور نہاری (یہاں نہاری کا مطلب صرف نہاری ہے، ہمارے وزیراعظم نہیں) کا سوچیں۔ آپکے ذہن میں نہاری سے جڑے عناصر آئیں گے، کھڑی کھڑی پکی ہوئی مونگ کی چھلکوں والی دال نہیں آئے گی۔ لہذا، ہر شے جو آپکے تجربہ میں چاہے فزیکل اعتبار سے آئی ہو، یا معلوماتی حوالے سے آپکے ذہن میں موجود ہو، اسکی اک خاص شکل اور آپکا اک خاص حوالہ اسکے عناصر ترکیبی پر آپکو علم فراہم کرتا ہے۔

اس تحریر میں، میں آپ کے ساتھ وہ تجربات شئیر کرنا چاہتا ہوں، جو زندگی کے 40 شعوری سالوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے عام کارکنان کے حوالے سے ذہن میں اک ہلکے پھلکے انداز میں دیکھے۔ آپ انکو سنجیدہ یا غیرسنجیدہ، دونوں طریقوں میں سمجھنے کے لیے آزاد ہیں۔ آپکی نذر:

مسلم لیگی کارکن، عرف پٹواری: عمر کی تیسری دہائی کے آخری چند سالوں میں۔ ہلکا سا پیٹ نکلا ہوا، اور دو تین دن کی شیو کے ساتھ، ڈھیلے سے گول گلے والا عنابی اور نارنجی رنگ کا سویٹر پہنے، آلو قیمے والے نان کھا کر بعد میں مونہہ کھول کر خلال کی عیاشی کرتا ہوا، ہنسنے اور غصہ کرنے میں آزاد۔

پیپلی کارکن، عرف جیالا: عمر کی چھٹی دہائی کے درمیان۔ چہرے اور وجود پر زمانے اور دنیا کی سختیوں کے نشان اور کہانیاں۔ ڈھلکے ہوئے کالر کی شلوار قمیض اور اک پرانی ویسٹکوٹ میں ملبوس۔ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا ہوا اور یہ بات ثابت کرتا ہوا کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد، نظام کائنات مفلوج ہے، جسکو زرداری صاحب نے آکر تیل دیا تو وہ نظام چل پڑا۔ چھوٹی باتوں پر بڑا غصہ کرجانے والا، مگر بات دل میں نہ رکھنے والا۔

جماعت اسلامی کا کارکن، عرف جماتی: عمر کی چوتھی دہائی میں۔ چہرے اور وجود پر لو مڈل اور مڈل کلاس کی مخصوص آسودگی اور اس آسودگی کی بنیاد پر چہرے پر جمی اک مسلسل مسکراہٹ، جیسی آپ سیلزمین کے چہروں پر دیکھتے ہیں۔ وجودی حرکات کنٹرولڈ، چال ڈھال متوازن اور آپکو اک کاسمیٹک عاجزی کے ساتھ \”گھیُرو پاتا\” ہوا۔ اپنی جماعت پر تنقید پر مسکرا کر خاموش ہوتا ہوا۔ اختلاف پر غصہ نہ کرنے، مگر بات دل میں رکھ جانے والا۔

ایم کیو ایم کا کارکن، عرف مہاجر: ہلکا سانولا رنگ، چھریرا بدن، جسمانی حرکات میں تیزی، مسلسل مزاحمت اور لہجے کی بلندی پر آمادہ۔ ہنستا ہوا، ہنسانے والا، اونچی آواز میں قہقہ لگانے والا۔ الطاف حسین کو سیاستدان کی بجائے، روحانی مرشد ماننے والا (اس پر اک تعزیت تو بنتی ہے) اور ان پر کوئی بات برداشت نہ کرنے والا۔ اختلاف پر غصہ کرنے والا اور بات بھی دل میں رکھ جانے والا۔

تحریک انصاف کا کارکن، عرف انساپی: نوجوان شخص جسے کچھ سمجھ نہیں کہ دنیا کیا ہے، کس طرف جا رہی ہے اور اس میں میرا کردار کیا ہے۔ بلند لہجہ، تیز جسمانی حرکات، سیاست میں نظریہ سے محروم، مگر نیوز میڈیا پر بنائے گئے بیانیہ کو حرف آخر جاننے والا۔ مطالعہ سے دور۔ سیاسی اور قومی معاملات میں چھوٹی چھوٹی چھلانگیں کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر مارنے والا۔ سب سے ناراض۔ اختلاف پر گالی دینے والا۔ دل میں بات رکھ جانے والا۔ مسلسل جذباتی بھٹکن پر مُصر۔

پشتون قوم پرست، عرف پٹھان: قوم پرستی اور نسل پرستی میں فرق کرنے سے قاصر۔ کراچی میں رشتہ دار، لاہور میں جائیداد، مگر محبت افغانستان سے۔ اپنی چپل کے ٹُوٹے ہوئے بکل سے لے کر کالا باغ ڈیم تک، انسانی علم میں آنے والی تمام کائناتوں میں مسائل کی جڑ پنجاب کو جاننے والا۔ رومانوی، مگر رومان پسندی پشتون خواتین پر ممنوع ٹھہرانے والا۔ اختلاف کو مسکرا پر سن جانے اور برداشت کرنے والا، دل میں بات نہ رکھنے والا۔ زیادہ اختلاف پر تعلق توڑ جانے والا۔

بلوچ قوم پرست، عرف \”بلوچی\”: ہر وقت کا ناراض رہنے والا۔ سنانے کی محبت میں شکوہ شکایت کرنے والا ( چند ایک ہیں جو سنانے کی نفرت میں پرتشدد ہیں، مگر بہت کم ہیں)۔ اپنی نیم-قبائلی معاشرت پر فخر کرنے والا، اس طرز زندگی پر قائم رہنے والا، مگر دوسری ہی سانس میں اپنےنیم-قبائلی پن سے جڑنے کے نقصان کو جانے بغیر، کم ترقی کا الزام دوجوں پر دھرنے والا۔ اختلاف پر سنجیدہ شکل بنانے والا، مگر بات دل میں نہ رکھنے والا۔ زیادہ اختلاف پر بھی تعلق نہیں توڑتے۔

فہرست میں دوسرے ابھی باقی ہیں۔ کبھی موقع ملا تو ان پر بھی۔ مگر فی الحال کا کہنا یہی ہے کہ: میرے پاکستانیو، بریانی آ نہیں رہی، بریانی آ چکی ہے۔ لہذا سلام قبول کیجیے۔

سب جیتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments