میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں


\"\" تم نے میری نئی کار نہیں دیکھی؟ اندھے ہوکر چلا رہے تھے؟ دھیان کہاں تھا تمہارا؟ تم بائیک والے بھی جہاں دل کرتا ہے گھس جاتے ہو؟ اب نقصان کون بھرے گا؟ تمہارا باپ؟ اندھا میں نہیں۔ اندھے تو تم ہو جو غلط لین میں گھس آئے میں تو اپنی لائن میں ہی تھا۔

ایک تو تم تو میری گاڑی سے ٹکرائے اور اوپر سے مجھے ہی غلط کہہ رہے ہو؟

ٹھاہ! ٹھاہ! ہاتھا پائی شروع……..

میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر یہ دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں دیکھنے میں تو پڑھے لکھے لگتے تھے لیکن وہ دونوں کر کیا رہے تھے؟ ان دونوں کی جگہ ہم میں سے کوئی بھی ہو تو ہم یہی کریں گے نا؟

پھر میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔ مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ بہت بڑے ولی گزرے ہیں۔ جہاں ان کے بہت سے عقیدت مند تھے تو وہاں ان کے خلاف سازش کرنے والے بھی کم نہیں تھے۔ ایک دفعہ ان کے ایک عقیدت مند ان کے پاس آئے اور کہنے لگے وہ فلاں شخص جو آپ کے خلاف بہت سازشیں کرتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا۔

حضرت نظام الدین اولیاء نے فرمایا چلو چل کر اس کا کفن دفن کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ انہوں نے جاکر اس شخص کو غسل دیا اور اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار دیا۔ ان کے عقیدت مند نے اس پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ شخص تو آپ کے خلاف تھا۔ اس نے آپ کا برا چاہا۔ تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟

حضرت نظام الدین اولیاؒ نے فرمایا۔ میں جانتا ہوں لیکن اللہ اس کی مغفرت کرے کیونکہ معاف کرنا ہمارے مذہب میں سکھایا جاتا ہے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔

کیا آج کے جدید دور میں بھی یہ سنت کوئی وجود رکھتی ہے یا صرف اپنے مطلب کا اسلام اور سنتیں ہی باقی ہیں؟ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چارشادیوں کی اجازت دی ہے وہ میں نے پیروی ضروری کرنی ہے۔ لیکن کسی کو معاف نہیں کرسکتا۔ میں کسی کے لیے راستہ نہیں چھوڑ سکتا۔ کیونکہ یہ تو مجھے سکھایا ہی نہیں گیا۔

پاکستان میں عسکریت پسند، ٹارگٹ کلنگ، چائلڈ لیبر، پانامہ کیس جیسے مسائل کم ہیں جو ہم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھنگا کرتے پھرتے ہیں۔ کیا یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ کسی انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دیا جائے؟

کیا یہ اتنی بڑی بات تھی کہ اس کے اپنے بھی اس پر برسنے والی گالیوں کی لپیٹ میں آ جائیں؟ کیا اس پر معاف نہیں کیا جاسکتا تھا؟ کیا اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا؟

میرا آپ سے سب سے ایک سوال ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو نظرانداز کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نہیں کہ ہماری زبان سے کبھی ایسے الفاظ نہ نکلیں جو کسی کی بے عزتی کا باعث بنیں۔ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی تو اس صورت میں پروان چڑھے گی جب ہم کسی کی انفرادی حیثیت قبول کریں گے۔ دوسروں کو انسان سمجھیں گے۔

کیا ہم کسی کی انفرادی حیثیت قبول کرتے ہیں؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کسی کو انسان؟ سوچیے گا ضرور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments