اپنے فاٹا والے سینہ چاک اور تاریخ کے پیوند


پاکستان کا قبائلی علاقہ فاٹا، وہاں قدم رکھیں لفظ اپنے مطلب بدل لیتے ہیں۔ فاٹا والے اپنا پسینہ بہا کر تجارت سے رزق حلال کماتے ہیں۔ اسے باقی پاکستان میں بڑے آرام سے منہ ڈھیلا کر کے اسمگلنگ کہہ لیا جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ ہم کیسے لوگ ہیں۔ ہمارے اپنے لوگ آج بھی اپنے رزق کے لئے افغان ٹرانزٹ کی سہولت کے محتاج ہیں۔ یعنی ہیں پاکستانی لیکن ان کی معاش افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔

پھر ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ فاٹا والے افغانستان کے حوالے سے اتنے حساس کیوں ہیں۔ بھائی ان کی روزی روٹی وہاں سے جڑی ہوئی ہے۔

باقی پاکستان میں پولیس ملزم کے پیچھے ماری ماری پھرتی ہے۔ اس کے گھر والوں کو تفتیش کے لئے تھانے بلایا جائے تو میڈیا میں ات چک دی جاتی ہے۔ فاٹا میں ایف سی آر کا قانون رہا ایک بندے کے جرم میں دس دس لوگوں کو سزا جرمانے ہونا عام بات رہی ہے۔ جرم کرنے والا بھلے آزاد پھر رہا ہو اس کے چاچے مامے بھائی والد بحق سرکار ضبط ہوئے پڑے ملتے تھے۔

ایک ہی ملک میں دو قانون ہوں تو متاثرین دونوں قسم کے قوانین کو کیا سمجھیں گے؟ کسی بھی قانون کا کتنا احترام    کریں گے۔ یہ ویسے ہی ایک سوال ہے دل کرے تو سوچیں۔ اجتماعی زمہ داری کے قانون نے فاٹا میں لوگوں کی سوچ ہی بدل کے رکھ دی ہے۔ سرکار ان کے ساتھ اچھا نہیں کرتی تو وہ خود بھی گھٹ کمال نہیں کرتے۔

اجتماعی ذمہ داری نے قبائل کی اپنی نفسیات بھی بدلی ہے۔ آپ کا ان سے تنازعہ ہو تو یہ آپ کے علاوہ آپ کے بھائی کزن چاچے مامے پر مطالبہ داغتے دکھائی دیں گے۔ کوئی ایک جوان باہر کوئی پنگا کر آئے گا اس میں قصور ہو یا نہ ہو۔ اس کا مسئلہ سارے گاؤں اور سارے خیل کے لئے مسئلہ بن جائے گا۔

فاٹا کے اعداد و شمار دیکھیں تو تعلیم کی کم شرح دکھائی دے گی۔ بنیادی انفرا سٹرکچر موجود نہیں، سکول ہیں، ڈسپنسریاں ہیں یا تھیں تو استاد اور ڈاکٹر غائب تھے۔ یہ ان کے آئی ڈی پی بننے سے پہلے کی باتیں ہیں۔ فاٹا سیکرٹریٹ تھا گورنر کے ماتحت۔ اسی فیصد ملازمین کا تعلق فاٹا سے نہیں تھا شاید زیادہ کا۔ آپ اچھی طرح ایک محروم انسان کا تصور قائم کر لیں۔

یہ تاثر قائم ہو گیا تو اب پھر سنیں فاٹا والوں کو سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ایک افسر کی سنیں۔ اس کے بقول سرکار اگر کوئی سڑک بنانے کا سوچتی ان سے بات کرتی تو جب ہم ان کی آپس میں باتیں سنتے تو ملک حضرات آپس میں مشورہ کر رہے ہوتے۔ اس سڑک کا سرکار کو ہی کوئی فائدہ ہو گا ہم اس سے کیا فائدہ لیں کتنا فائدہ لیں اور کیسے۔

بالغ رائے دہی پر حق انتخاب انہیں چھیانوے کے الیکشن میں ملا۔ ستم ظریفی ملاحظہ کریں قانون کے مطابق ووٹ یا تو پاگل نہیں ڈال سکتا تھا یا نابالغ یعنی ایک خاص عمر سے کم فرد ۔ یہ قانون دیکھیں اور سوچیں کہ فاٹٓا والوں کو سرکار نابالغ سمجھتی تھی یا پاگل۔ صرف ملک حضرات کا ووٹ ہوتا تھا۔ کوئی تگڑا ملک پیسے دے کر چند سو ووٹ خرید کر اسلام اباد پہنچ جاتا۔ جیت جانے کے بعد کسی کی جرات نہیں تھی کہ منتخب ایم این اے سے کوئی کام بولے یا مطالبہ کرے۔

اگلا کہتا تھا اور ٹھیک کہتا تھا کہ کونسا کام تمھارے مشر نے پیسوں پر ووٹ بیچا ہے۔ مفت دیا ہوتا تو کوئی کام بھی کر دیتا۔ یہ نظام تو تاریخ ہوا لیکن مزاج وہی رہا پیسے والا ہی پیسے لگا کر الیکشن جیت پاتا ہے۔ پیسے لگا کر پھر کام شام کرنے کو اس کا دل کدھر کرتا ہے۔ وہ اپنے خرچے پورے کرتا رہتا ہے۔

فاٹا کے اس پرانے اور فضول نظام کا ایک فائدہ بھی ہوا ہے۔ فاٹا والے پاکستان میں سب سے زیادہ مرکز پسند لوگ ہیں۔ یہ وفاقی حکومت اسلام اباد کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ صوبائی حکومت صوبائیت کو لفٹ نہیں کراتے۔ کیوں کرائیں جب ستر سال سے وفاقی حکومت سے ہی ان کے کام پڑتے ہیں۔

آپ فاٹا والوں کو بالکل ہی گیا گزرا سمجھ لیں۔ محروم، بے خبر، دنیا سے کٹے ہوئے، اپنے آپ میں مست۔ ایسا نہیں ہے یہ سب غلط ہے۔ خیر سے دنیا کی تقریباً ہر مارکیٹ میں ان کے مستحکم اور براہ راست رابطے ہیں۔ یہ بلیک مارکیٹ بھی ہو سکتی ہے جرمنی جاپان یا کسی اور ملک کی ترقی یافتہ مارکیٹ بھی۔ آپ بنکوں میں رلتے رہیں فاٹا والے جانے کب سے اپنا لین دین کا نظام رکھتے ہیں۔ اس کو منی چینجر کہہ لیں، ہنڈی والا بولیں یا کچھ اور یہ لوگ اسے صراف کہتے ہیں۔

بارہ ملکوں کی پولیس ڈان کو پکڑ سکتی ہے۔ مجال ہے کسی صراف کو کبھی طالبان بھی ہاتھ لگا سکیں ۔ کچھ سال پہلے تک یہی صراف عالمی اداروں کو افغانستان میں بھی کرنسی کی لین دین میں سہولیات فراہم کیا کرتے تھے۔

پاکستان میں ہندو کا نام بڑے عجیب معنوں میں لیا جاتا ہے۔ فاٹا والوں کے عالمی مارکیٹوں میں موجود ہدنو تاجروں سے تعلقات کئی دہائیاں پرانے ہیں۔ ان تعلقات کی وجہ سے یہ نہ کسی رعب میں ہیں نہ کسی خدشے کا شکار۔ ہندو سے ڈرانے اس کے خلاف کسی تعصب پر انہیں اکسانا ہر گز آسان نہیں ہے۔ انہیں آپ ہندو کے مظالم سنا کر صرف اپنے آپ کو کارٹون ثابت کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں لمبے روٹ پر سامان کی ترسیل کے لئے ٹرانسپورٹ کے نظام پر قبائل کا مکمل ہولڈ ہے۔ یہی ہولڈ اسلحے کے کاروبار پر بھی ہے۔ بہت معذرت کے ساتھ منشیات پر بھی ہمارے ملک حضرات کا ہی رسوخ ہے۔ یہی ہولڈ تھا اور اسی ہولڈ کا ڈر تھا جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کراچی کو ٹارگٹ نہیں کرتی تھی۔ کراچی میں محسود رہتے ہیں۔ ان محسودوں کو اربوں روپئے کا نقصان ہوا تھا بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ۔ الطاف حسین نے ٹی ٹی پی کو کراچی میں لا کر قبائل سے پھڈا ڈال کر پارٹی بننے کی بہت کوشش کی، جو شکر ہیں ناکام رہیں۔

اب اگر آپ ان قبائل سے ڈر گئے ہیں تو مت ڈریں۔

فاٹا والے پاکستان میں سب سے زیادہ جمہوری لوگ ہیں۔ انکی مخالف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت بے مثال ہے۔ بدترین حالات میں بھی یہ اپنے حواس قائم رکھتے ہیں ۔ یہ جمہوریت یہ برداشت اور برابری انہیں اجتماعی ذمہ داری نے سکھائی ہے۔ یہ خوبی ان کو ان کے جرگہ سسٹم نے دی ہے۔ روایت کا انسان کا احترام کرنا ایک قبائلی کے خون میں ہے ۔مشکل میں غصے میں بھی یہ بہت بچتے ہیں ایسا ناجائز کرنے سے جس پر انہیں بعد میں طعنہ دیا جائے۔ فاٹا میں آپریشن جاری رہے لوگوں کے ساتھ زیادتیاں بھی ہوئیں۔ بے قصور لوگوں کی جانیں گئیں ۔ سب کچھ ہوا نہیں ہوا تو کسی نے ملک کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ یہ سب بہت خاص ہے ہمارے ملک میں جہاں بتی چلی جائے تو لوگ کیا کیا کچھ کہہ دیتے ہیں ۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ شدت پسندی کی جب لہر آئی تو اس نے جرگے کا ادارہ تباہ کیا۔ ملک مارے گئے۔ یہ مالک عام لوگ نہیں تھے۔ سیدھی بات کرنے والے مسائل کے حل نکالنے والے۔ اپنے خیل کو سیدھے راستے پر رکھنے والے لوگ تھے۔ ایک ایسا ملک تجربات سے گزر کر بنتا ہے۔ یہ نقصان قبائل کا تو تھا ملک کا بھی جس کا کسی کو احساس تک نہیں ہوا، کہ ہم نے کیسے لوگ کھو دیے۔ مبالغہ لگے گا لیکن قریب قریب سچ ہے یہ ملک لوگ دنیا کے بہترین مذاکرات کار ہوتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے بہترین ملک کھو دیے۔

فاٹا میں انگریز نے پولیٹیکل ایجنٹ یعنی پی اے کا ادارہ متعارف کرایا تھا۔ پی اے عدالتی انتظامی اور معاشی اختیارات رکھتا تھا۔ ایک حکومت کے پاس طاقت کے جو تین نشان ہوتے ہیں وہ سب پی اے کی ذات میں جمع تھے۔ پی اے رواج کے مطابق فاٹٓا کو پرامن رکھنے میں کامیاب رہا۔ مسلہ تب ہوا جب ہم نے جوش میں آ کر افغان جنگ میں چھلانگ مار دی۔ ہمیں جنگ لڑنی تھی فاٹا کو افغان جہاد کا لانچنگ پیڈ بننا تھا۔

ہم جب دھم سے افغانستان میں کودے تو اس دھماکے سے فاٹا میں پی اے کا ادارہ اور پرانا نظام بیٹھ گیا۔

یہ لڑائی ہم نے مذہب کے نام پر چھیڑی تھی۔ کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ کب پی اے کمزور ہوا۔ کب ملک غیر متعلق ہوا، کب اس کی جگہ ملا نے لینی شروع کی۔ ملا نے انتظام میں مداخلت کی، اس نے عدالت کا متبادل نظام دیا اس نے معاش میں مداخلت کی چیزوں کو حرام حلال بتانا شروع کر کے۔ اوپر ذکر کیا ہے کہ فاٹا والوں کے دنیا بھر کی مارکیٹوں سے رابطے ہیں۔ افغان جنگ کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ فاٹٓا والوں کے دنیا بھر کے جہادیوں سے بھی رابطے استوار ہو گئے۔

یاد رہے ملا ہرگز کوئی برا آپشن نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ ملا کو جب اختیار ملا تو اس کے پر عزم ہونے نے، اس کی ناتجربہ کاری نے مروا دیا۔

اب وقت بدل گیا ہے۔ ٹی ٹی پی بھی فاٹٓا سے تحلیل ہو گئی فاٹا والے بھی وہاں سے بے گھر ہوتے سب نے دیکھے۔ ایک ڈائلاگ کے دوران پختون لیڈرکو حاضرین سے کہتے سنا۔ دنیا فاٹا کے مسائل حل کرنے کے لئے آگے آئے ورنہ فاٹا دنیا بھر میں پہنچ جائے گا اپنے سارے مسائل لے کر۔ اس ڈٓائلاگ کے بعد بھی بہت وقت گزر گیا۔ وقت بدل بھی گیا۔

اب فاٹٓا کی قسمت کا فیصلہ ہونے کو ہے۔ فاٹا اپنی تمام خامیوں خوبیوں کے ساتھ کے پی میں شامل ہونے کو ہے۔ یہ وقت ہے کہ سب کچھ بھول کر آگے بڑھ کر ان سے گلے ملا جائے۔ ایک نئی شروعات کی جائیں۔

 Jan 27, 2017 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments