باچا خان …. ضمیر کا قیدی


درد سے جاں لبوں پر آ گئی۔ دل گھائل ہے۔ دیس کا انسان انسانیت پر مگر مائل نہیں۔ وطن کو مذہب کا متبادل بنا کر اگلوں نے ثواب دارین حاصل کیا اور دیس میں خدا کے نام پر ایک ابدی جنگ چھیڑ دی جس میں جیت کسی کی ہو نہ ہو، انسانیت بار بار ہاری ہے۔ چونکہ زندہ ہیں اس لئے سانسوں کا جبر سہنا پڑتا ہے۔ واماندگی کی داستانیں ہزارہیں۔ انگلیاں فگار ہوئیں مگردیس کے نادار جمہور کو اس کا بنیادی حق طاقت کے پیران مغاں دینے کو تیارنہیں۔ یہ جبر تسلسل سے جاری ہے۔ ادھردیس کی ایک پٹی پر اڑتیس سال سے خون کے دریا بہہ رہے ہیں۔ پہاڑکے مسکن والے پہاڑی بچوںکو اگر کوئی امن کا نغمہ ہم سنا بھی سکتے تو وہ نغمہ باچا خان کا نغمہ ہے۔ وہ گیت امن کا گیت ہے۔ وہ گیت عدم تشدد کا گیت ہے۔ ادھر ہم نے عدم تشدد کا قصہ چھیڑا ادھر سچ کوسرکاری کلمہ پڑھا نے والوں کے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی۔ پستی کی منزلیں اور کتنی گہری ہو سکتی ہیں کہ مولانا مودوی کی مسند پر براجمان سراج الحق نے کچھ عرصہ پہلے فرمایا، باچا خان بس ایک لمبے قد دمی تھا جس کے بڑے بڑے ہاتھ تھے۔ ظرف اور کتنا گر سکتا ہے کہ ایک اخبار نویس نے باچا خان پر نسلی پرستی کا الزام لگایا۔

سچ زہر کا پیالہ ہے اورپینے والے کلیجے میں سقراط کا دل رکھتے ہیں۔ سرکاری تاریخ کے کلیجے میں مگر سقراط \"\"نہیں دھڑک نہیں سکتا، مفاد دھڑکتا ہے۔ کھنگالیئے تاریخ۔ دوڑایئے نظر کراچی سے خیبر تک اس سرزمین پر۔ اور پھر بتا دیجیے کہ غیر منقسم ہندوستان میں آزادی کے ہراول دستے کا سالار باچا خان کے علاوہ کون تھا؟ کبھی ایک نظر تاریخ پر بھی ڈال لیا کریں کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن نے باچا خان کو دیوبند بھلا کیوں بھیجا تھا۔ شیخ الہند نے مولانا عبید اللہ سندھی کو کیوں سرحد بھیج کر ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک مرکز قائم کرنے کی باچا خان سے درخواست کی تھی۔ پوچھیے جین اختر سے، ایکناتھ اسواران سے، ایس آر بخشی سے،بی ایل ہینگورانی سے،عابد مجید سے، موکولیکا بینرجی سے کہ باچا خان کو انگریز سرکار نے کس نسل پرستی کے جرم میں پندرہ سال پابند سلاسل رکھا؟ نسل پرست ہوتا تو اڑتالیس میں بابڑہ میں چھ سو لاشیں خاموشی سے اٹھا کر عدم تشدد کا درس نہ دیتا۔ ایک لاکھ خدائی خدمتگار سر ہاتھوں میں لئے بابا کے حکم کے منتظر تھے مگر اس کی طبیعت کبھی تشدد پر آمادہ نہ ہوئی۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے کشمیر کو آزاد کشمیر بنایا تھا۔ یاد دلانے کی شاید ضرورت نہیں ہے کہ قتل کا یہ بازار ان لوگوں نے لگا رکھا تھا جو مسلمانوں کے حقوق کے علمبردار تھے۔ کبھی فرصت ملے تو مولانا محمد علی جوہر کی باچا خان سے ملاقات کی داستان پڑھ لیجیے جب مولانا ان کو گلے لگا کر کہتے ہیں کہ بھائی مجھے حقیقت سے آگاہ کر دو۔ یہ جرم تو کئی بار گنوایا گیا کہ باچا خان نے اس ملک کی مٹی میں دفن ہونا پسند نہیں کیا لیکن یہ وجہ کبھی نہیں بتائی گئی کہ باچا خان کو کس جرم کی پاداش میں تقسیم ہند کے بعد پندرہ سال پابند سلاسل رکھا گیا۔ مولانا محمد علی جوہر انگریز کو انگریز سرکار نے ڈھائی سال پابند سلاسل رکھا اور انہوں نے پروشلم میں دفن ہونا پسند کیا۔

باچا خان کانگریس میں تھے۔ تقسیم ہند کے خلاف تھے۔ تقسیم ہوئی تو تئیس فروری انیس سو اڑتالیس کو باچا خان نے پہلی دستورساز اسمبلی میں ملک سے وفاداری کا حلف لیا۔ محمد علی جناح سے کراچی میں مل کر حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا دی۔ پھر انیس سو اڑتالیس سے ستاون تک کس جرم کی پاداش میں ان کو پابند سلاسل رکھا گیا؟ اور اگر کوئی جرم تھا تو ان کو اٹھاون میں جیل سے نکال کر وزارت کی پیشکش کیوں گئی؟ سماعتوں پر اگر پردے نہ ہوں تو اسمبلی کی وہ تقریر نکال کر دیکھ لیجیے جس میں باچاخان نے کہا تھا’ میں نے برسوں انگریزوں کی جیل گزار دیئے۔ گو ہمارا اور ان کا تصادم تھا مگر انہوں نے ہمیشہ میرے ساتھ برداشت اور شرافت کا مظاہرہ کیا اس کے برعکس اس اسلامی ریاست کی جیلوں میں میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا ذکر بھی میرے لئے ناقابل بیان ہے‘۔

اس نوحے پر کتنا رویا جائے کہ بندوق کو زیور سمجھنے والی پختون قوم کو عدم تشدد کا درس دینے والا، انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کا آغاز کرنے والا،برصغیر کا مارٹن لوتھر ایک ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں کھڑا ہے اور ڈپٹی کمشنر صاحب ان سے نیک چلنی کا سرٹیفیکیٹ طلب کر رہا ہے۔ ضمانت طلبی کی وجہ پوچھی گئی تو ڈپٹی صاحب نے کہا آپ پاکستان کے خلاف ہیں۔ بابا نے پوچھا اس کا کوئی ثبوت تو ہو گا۔ ڈپٹی صاحب نے فرمایا بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نیک چلنی ثابت نہیں کر سکے۔ آپ کو تین برس قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔

سنہ اٹھاون سے سنہ چونسٹھ تک ان کو پھر پابند سلاسل رکھا گیا یہاں تک وہ قریب المرگ ہوگئے۔ جانے چوہتر سالہ بزرگ نے کونسا جرم کیا تھا کہ ان زندگی کے پندرہ سال جیل کی نذر ہو گئے۔ شاید کسی کو یاد نہیں مگر ہمیں یاد ہے کہ انیس باسٹھ میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان کو ”سال کا قیدی“ قرار دے کر ”ضمیر کا قیدی“ کا خطاب دیا تھا۔ کس کو بتائیں کہ عظمت کے یہ ترانے نسل پرستوں کے بارے میں تخلیق نہیں ہوتے۔ سراج الحق اور ان کی جماعت سے کیا گلہ جن کا شعور ایک پندرہ سالہ کمزور بچی کو ایجنٹ ثابت کرنے پر تل جائے، جو ملک کے لئے جان دیتے ہوئے سپاہی اور ملک کے خلاف بندوق اٹھانے والے تشدد پسند میں تمیز نہ کر سکے۔ ان کو باچا خان کی عظمت کیا سمجھ آئے گی۔ ہاں یہ سوال البتہ برقرار رہے گا کہ اگر عظمت کا معیار صرف جیل ہے اور ان کو نیلسن منڈیلا اس لئے پسند ہیں کہ وہ جیل میں رہے ہیں تو کوئی صائب ان کو بتا دے کہ باچا خان کتنا عرصہ جیل میں رہے۔ اور یہ بھی بتا دے کہ عظمت موٹر سائیکلوں اور تھڑوں پر بیٹھ کر تصاویر بنوانے سے نہیں آتی اور نہ ہی لاہور تک بس میں ایک طرفہ سفر کر کے واپسی کے لئے وزیر خزانہ کی خالی گاڑی لاہور منگوانے سے آتی ہے۔

سوال ان دانشوروں سے ہیں جو بحر ظلمات میں ہر پل خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ کیا آج پاکستان وہاں نہیں کھڑا جس کا خدشہ باچا خان نے چالیس برس پیشتر ظاہر کیا تھا کہ افغانستان کی جنگ میں کودنے سے ہماری گلیاں خون سے رنگین ہو جائیں گی؟ سچ تسلیم نہ کرنے کی ہم نے قسم کھائی ہے۔ غلطی ماننے کا ہمارا قومی مزاج نہیں۔ جواب میں کہنے کو ان کے پاس بس ایک ہی بات ہو گی کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے بھول جاتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا کا واحد غنڈہ بنانے میں ہمارے کاندھے بروئے کار آئے اور وہ غنڈہ اندھے سانڈ کی طرح اب جہاں چاہتا ہے گھس جاتا ہے اور ہم مظلومیت کی بنسری بجاتے نہیں تھکتے۔ وہی گرم پانی اب طشتری میں رکھ کر ہم ایک اور کمیونسٹ کے ترلے کیوں کر رہے ہیں کہ لے لو؟ روس نے تو نہ روزے پر پابندی لگائی تھی اور نہ نماز پر مگر وہ قابل جہاد ٹھہرا اور جہاں روزے اور نماز پر پابندی ہے ان کی دوستی کے ترانے ہمالیہ سے اونچے گائے جا رہے ہیں۔

باچا خان ایک تاریخ کا نام ہے۔ تاریخ کی عظمتیں ایک کالم میں نہیں سمو سکتیں۔ جے پرکاش نرائن کے الفاظ مستعار لیتا ہوں۔ ’ ہندوستان کی تاریخ میں باچا خان شجاعت اور عدم تشدد کا استعارہ ہیں جس پر تاریخ کی دھند پڑ چکی ہے۔ اگر نئی نسل کو اس پرنور کردار کی ایک جھلک نصیب ہو جائے، اس ضوپاش تجلی کا ایک جلوہ میسر آجائے تو شاید ان کے قدم ظلمت سے نور کی طرف بڑھ سکیں‘۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments