پیمرا: کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ


\"\"

کل 26 جنوری 2017 کو پیمرا نے پریس ریلیز جاری کی۔ اس میں بتایا گیا کہ

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے بول نیوز پر نشر ہونے والے عامر لیاقت کے پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ پر پیمرا (ترمیمی) ایکٹ 2007 کی دفعہ 27 کے تحت پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔ پیمرا نے مذکورہ اقدام کئی ہفتوں کی مسلسل نگرانی کے بعد اٹھایا۔ اس عرصہ کے دوران عامر لیاقت نے پیمرا الیٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطہ اخلاق 2015 کی مسلسل خلاف ورزی کی۔ بول نیوز کو جاری حکمنامہ کے مطابق عامر لیاقت بول نیوز کے کسی پروگرام (نئے یا نشر مکرر) میں بطور میزبان، مہمان، تبصرہ نگار، رپورٹر، ایکٹر، اینکر پرسن، آڈیو یا ویڈیو بیپر یا کسی بھی حیثیت میں شرکت نہیں کر سکیں گے نہ ہی انہیں اس چینل پر چلنے والی کسی اشتہاری مہم، آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت ہو گی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر بول نیوز نے پیمرا کی ہدایات پر فوری عمل نہیں یا اور اس پر عامر لیاقت یا اس کا پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ نشر ہوا تو اس کی نشریات فوری طور پر معطل کر دی جائیں گی۔ عامر لیاقت کو کسی بھی دوسرے ٹی وی چینل پر نفرت انگیز مواد کا پرچار کرنے یا کسی شخص کو ’کافر‘، ’غدار‘، ’توہین رسالت‘ یا ’توہین مذہب‘ کا مرتکب قرار دینے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق اس طرح کے حساس معاملات پر فیصلے کا اختیار صرف پارلیمنٹ یا اعلی عدلیہ کے پاس ہے۔ عامر لیاقت اور ان کے پروگرام پر پابندی اس وقت تک موثر رہے گی جب تک پیمرا اتھارٹی ان کے خلاف شکایات پر متعلقہ کونسلز کی سفارشات کی روشنی میں کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ جاتی۔

\"\"

یہ تھی پیمرا کی پریس ریلیز۔ آپ نے نوٹ کیا کہ پیمرا نے عامر لیاقت کے پروگرام کی چپ چاپ نگرانی کی اور پھر اسے یکلخت بند کر دیا۔ اب پروگرام بند کرنے کے بعد، جب کبھی پیمرا کی متعلقہ کونسلوں کا اجلاس ہوا تو ان سے سفارشات لی جائیں گی۔ ان کونسلوں میں بول ٹی وی اور عامر لیاقت کا موقف لیا جائے گا۔ نہ جانے یہ پیشیاں کتنے عرصے چلیں گی، چند ہفتے، چند ماہ یا چند سال۔

پیمرا کا ماضی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پیمرا عموماً شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پہلے چینل یا اینکر کو اظہار وجوہ کا نوٹس دے کر صفائی کا موقعہ فراہم کرتی تھی۔ اگر چینل یا اینکر وغیرہ پیمرا کو مطمئن نہ کر پاتے تو پھر ان کو سزا دی جاتی۔ مگر عامر لیاقت حسین کے معاملے میں اچانک یہ مختلف رویہ کیوں سامنے آیا ہے؟

آئیے چلتے ہیں ستمبر 2016 کے مہینے میں پیمرا پنجاب کے کمرہ عدالت میں۔ اوریا مقبول جان صاحب نے احمدی کمیونٹی کے خلاف کوئی پروگرام کیا جس پر احمدی کمیونٹی کے صدر نے پیمرا کو شکایت کی اور 29 ستمبر کو پیمرا نے اوریا صاحب کو صفائی پیش کرنے کے لئے طلب کیا۔ یاد رہے کہ پیمرا کے قانون کی رو سے اس کی کونسلیں عدالت کا درجہ رکھتی ہیں۔

\"\"

اس پر اوریا صاحب نے سوشل میڈیا پر مدد کی پکار بلند کی اور ٹویٹ کی کہ ’ناموس رسالت کے دفاع کی سعادت میرے لئے اعزاز ہے کل دو بجے خود پیش ہوں گا‘۔ مزید فرمایا کہ ’قادیانیوں کے خلاف آئینی ترمیم پر پروگرام کرنے کا جرم۔ ۔ ۔ پیمرا میں طلبی۔ 29 ستمبر دو بجے لاہور دفتر۔ دعا کی درخواست‘۔

اوریا صاحب پیش ہوئے مگر انہوں نے دعا کے ساتھ ایک طاقت ور دوا بھی کی۔ ان کے حامیوں کا ایک گروہ پیمرا کے کمرہ عدالت میں گھس گیا۔ اس کی ویڈیو نیٹ پر موجود ہے جس میں غالباً پیمرا کی معزز عدالت کی شان میں کچھ گالم گلوچ کی صدائیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔

پیمرا کونسل کے اراکین اس ہجوم میں حیران پریشان خوفزدہ ہراساں سے دکھائی دے رہے تھے۔ چیئرمین پیمرا ابصار عالم صاحب کو رپورٹ کی گئی۔ ابصار عالم صاحب نہایت درویش صفت شخص ہیں۔ انہوں نے پیمرا کی لوکل کونسل کو سمجھایا ہو گا کہ ’وکلا تحریک کے بعد سے ہائی کورٹ سے نچلے درجے کی عدلیہ پر حملوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، اس سے پیچھے جائیں تو سپریم کورٹ پر حملے کی روایت بھی تاریخ میں سیاہ حروف میں درج ہے۔ تو پیمرا کی معصوم سی عدالت کسی کھیت کی مولی ہے؟‘

اوریا صاحب سرخ رو ہوئے۔ ہمارا گمان ہے کہ ابصار عالم صاحب کا چہرہ بھی شرمندگی اور ندامت سے سرخ ہی ہوا ہو گا۔ لیکن عامر لیاقت کے خلاف اس موجودہ فیصلے سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ابصار عالم صاحب کو سرخی پسند نہیں ہے۔ اب پیمرا پابندی پہلے لگائے گی، اور کونسل کا اجلاس کبھی فرصت ملی تو طلب کر لے گی ورنہ رہنے دے گی۔ عامر لیاقت حسین صاحب کے خلاف پیمرا کے اس ایکشن نے ایک نظیر سیٹ کر دی ہے جس کا مستقبل میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عامر لیاقت پر جن الزامات کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے، ویسے ہی سے مواد پر مبنی پروگرام اوریا مقبول جان بھی حالیہ دنوں میں کرتے رہے ہیں۔

پیمرا نے تو عامر لیاقت کے متعلق فرما دیا ہے کہ ”عامر لیاقت کو کسی بھی دوسرے ٹی وی چینل پر نفرت انگیز مواد کا پرچار کرنے یا کسی شخص کو ’کافر‘، ’غدار‘، ’توہین رسالت‘ یا ’توہین مذہب‘ کا مرتکب قرار دینے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق اس طرح کے حساس معاملات پر فیصلے کا اختیار صرف پارلیمنٹ یا اعلی عدلیہ کے پاس ہے“۔

پتہ نہیں کیوں یہ شبہ سا ہو رہا ہے کہ پیمرا کی نگاہیں تو عامر لیاقت پر ہیں مگر اس کا نشانہ اوریا مقبول جان ہیں۔ سنا تھا کہ ہاتھی نہیں بھولتے، مگر لگتا ہے کہ ابصار عالم بھی نہیں بھولتے۔

اب عدالت لگے گی تو پھر ہی اس پر حملہ ہو سکے گا ناں سرکار۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments