ٹرمپ کی درشت گوئی پر اسلامی دنیا میں سناٹا کیوں!


   \"\"  پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کا نعرہ بلند کرنے والوں اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ دنیا پر مسلمانوں کی حکومت کا خواب دیکھنے والوں کےلئے شاید سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کا یہ ٹوئٹر پیغام کافی خوش آئند ہوگا کہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر ملک میں مسلمانوں کی رجسٹریشن کروانے کے انتخابی نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو وہ اپنا نام مسلمان کے طور پر رجسٹر کروائیں گی۔ لیکن ٹرمپ جیسا قوم پرست اور متعصب صدر جس طرح مسلمانوں کے خلاف ایک عالمی جنگ کی باتیں کر رہا ہے اور ان کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کےلئے جو نت نئی تجاویز سامنے لائی جا رہی ہیں، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےلئے لمحہ فکر ہونی چاہئیں۔ ٹرمپ پہلا امریکی صدر ہے جو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی بات کرتے ہوئے اسے مذہب کا لبادہ پہنانے پر اصرار کرتا ہے اور اس وقت جاری جنگ کو ریڈیکل اسلام کے خلاف جنگ کہتا ہے۔ اس کے علاوہ سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کو امریکی ویزا کا اجرا بند کرنے کا حکم نامہ تیار ہے جسے کسی نہ کسی وجہ سے موخر ضرور کیا گیا ہے لیکن ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد جس مزاج اور رویہ کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی روشنی میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس قسم کا حکم نامہ جاری کر کے رہے گا۔ ایک امریکی ٹیلی ویژن انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ان سات ملکوں کے علاوہ پاکستان ، افغانستان اور سعودی عرب کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ انتہائی مشکل بنا دیا جائے گا۔ ایک طرف نئی امریکی حکومت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کے بعد اب عملی اقدامات کر رہی ہے تو دوسری طرف مسلمان ملکوں کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ اور اسلام دشمن رویہ کے خلاف کسی قسم کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔\"\"

امریکہ کے نئے صدر ہر روایت اور باہمی تعلقات میں سفارتی آداب کو مسترد کرنے پر مصر ہیں۔ وہ قیدیوں پر تشدد کے نئے طریقے آزمانے اور پرانے ہتھکنڈوں کو دوبارہ مروج کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل نوازی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ امریکہ دنیا کے پہلے ملک کے طور پر اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے اسرائیل میں ایک ایسے شخص کو امریکہ کا سفیر بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو عرب علاقوں میں یہودی بستیوں کی آباد کاری کا زبردست حامی ہے۔ اگرچہ صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ فی الوقت امریکہ نے سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ جس سخت گیری سے اپنے اعلانات پر عمل کرنے کے درپے ہیں اس کی روشنی میں یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہائٹ ہاؤس جلد ہی اس بارے میں کوئی اعلان جاری کرے گا۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینیوں کے ساتھ کئی دہائی سے ہونے والے مظالم کو نظرانداز کررہے ہیں۔ انہیں دو ریاستی منصوبہ کے تباہ ہونے کی بھی ہرگز پرواہ نہیں ہے۔ فلسطینی قیادت دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر چکی ہے کہ اگر امریکہ نے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی دو ریاستی منصوبہ بھی دفن ہو جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے لے گی۔ اس صورت میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تناؤ اور تصادم میں اضافہ لازمی ہے۔ اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ اور مسلمان دنیا میں محسوس کئے جا سکیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر امریکہ کو محفوظ بنانے اور امریکہ کی حفاظت کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن ان نعروں سے \"\"امریکی عوام کے ایک طبقے کر رجھاتے ہوئے وہ دراصل مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب پر مبنی ایک منظم مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ صدر بننے کی مہم کے دوران بھی ان کی باتیں خطرناک اور تشویشناک تھیں لیکن صدر بننے کے بعد جب وہ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کو امریکہ اور نام نہاد مہذب دنیا کےلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں تو اس کے تباہ کن اور المناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ امریکہ بدستور دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی فوج صلاحیت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے طاقتور ترین فوج ہے۔ ایسے بڑے اور طاقتور ملک کے صدر کے منہ سے نکلی ہوئی بات اہم ہوتی ہے اور دنیا بھر میں اسے توجہ سے سنا جاتا ہے۔ اس کے فیصلوں اور رائے کا کئی ملکوں میں ہونے والے فیصلوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔ اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی حفاظت کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کےلئے جب اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے امریکہ ہی نہیں بلکہ پورے یورپ اور دیگر ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف تشویش اور تعصب میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

صدر ٹرمپ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور وہ مسلمان ملکوں کے خلاف جیسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں، اس سے ایک طرف اکثر مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف متحرک عناصر اور سیاسی تحریکیں طاقتور ہوں گی تو اس کے ساتھ ہی اسلام کا نام لے کر ایک خاص سیاسی ایجنڈے پر عمل کرنے والی دہشت گرد قوتوں کو ہمدرد ڈھونڈنے اور طاقت حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ اس طرح دو طرفہ تصادم کی جو کیفیت پیدا ہوگی اس کے نتیجے میں پرامن \"\"مسلمانوں کی اکثریت، خواہ وہ اقلیت کے طور پر کسی غیر مسلمان ملک میں آباد ہو یا مسلمان اکثریتی ملک کے باشندے ہوں۔۔۔۔ سب سے پہلے نشانہ بنیں گے۔ ان کےلئے تعلیم و روزگار کا حصول مشکل ہو جائے گا اور وہ سماجی لحاظ سے بھی نفرت اور تعصب کا نشانہ بنیں گے۔ مسلمان ملکوں پر نت نئی پابندیوں کا سلسلہ دراز ہو سکتا ہے۔ اس طرح غریب مسلمان ملکوں کی معیشت متاثر ہوگی اور انتہا پسند عناصر پر قابو پانے کی کوششیں بے اثر ہونے لگیں گی۔ ابھی سے مسلمان ملکوں میں انتہا پسندی کا پرچار کرنے والے عناصر کے لب و لہجہ اور موقف پر امریکہ سے جاری ہونے والے بیانات اور سامنے آنے والے اشاروں کے اثر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ان حالات میں مسلمانوں کےلئے بطور فرد اور ان کے حکمرانوں کےلئے بطور سیاستدان یہ قیاس کر لینا کافی نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتہا پسندانہ اقدامات سے امریکہ کو ہی نقصان پہنچائیں گے۔ امریکہ کا نقصان یا فائدہ شاید مسلمان ملکوں کےلئے اہم نہ ہو لیکن انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی صدر کی ایک خاص مذہب اور خاص لوگوں کے خلاف جارحیت ایک ایسا اعلان جنگ ہے جس میں غیر جانبدار رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ٹرمپ جن ملکوں کے باشندوں کو امریکی ویزا کا اجرا بند کرنا چاہتے ہیں، ان میں شام ، عراق، یمن ، صومالیہ ، سوڈان ، لیبیا اور ایران شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ خود کہہ چکے ہیں کہ پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کے شہریوں کےلئے امریکہ میں داخلہ ناممکن بنا دیا جائے گا۔ یہ اعلان اور اس قسم کا کوئی بھی فیصلہ امریکی آئین اور مساوی سلوک کے نصب العین کے برعکس ہوگا۔ ماہرین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اسے امریکی عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ لیکن کوئی امریکی عدالت اس نقصان کا ازالہ کرنے کے قابل نہیں ہوگی جو ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ ، متعصبانہ ، کوتاہ اندیشی پر مبنی اور مقبولیت کے نقطہ نظر سے جاری ہونے والے بیانات اور فیصلوں سے مسلمانوں، ان کی شہرت اور سلامتی کو لاحق ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں اور ان کے لیڈروں کو خود ہی اقدامات کرنے ہوں گے۔ امریکی صدر امریکہ کو محفوظ بنانے کےلئے جن مسلمان ملکوں کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنا چاہتے ہیں، ان میں تقریباً سب ملک امریکہ کی غلط پالیسیوں ، جارحانہ اقدامات اور جنگجوئی کی وجہ سے بحران ، انتشار اور دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گرد حملہ کا بدلہ لینے کےلئے پہلے افغانستان پر چڑھائی کی اور پھر کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر عراق پر فوج کشی کی۔ اس کے بعد شام کی خانہ جنگی کے لئے حالات پیدا کئے اور ایک پرسکون ملک دیکھتے ہی دیکھتے تباہ و برباد ہو گیا۔

\"\"ان اقدامات کی ذمہ داری قبول کرنے اور حالات کی اصلاح میں کردار ادا کرنے کی بجائے ٹرمپ مسلسل مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ شام کے پناہ گزین امریکہ کےلئے تباہی کا پیغام ہیں اور اگر جرمن چانسلر انجیلا مرکل دس لاکھ شامی پناہ گزینوں کو قبول کرتی ہے تو یہ فیصلہ خطرناک اور غلط ہے۔ امریکہ نے گزشتہ تین برس میں 30 ہزار کے لگ بھگ شامی پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے جبکہ شام کے 50 لاکھ باشندے امریکہ کی سلگائی ہوئی آگ کے سبب اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔ خوشحال گھرانے ، باعزت روزگار کمانے والے ہنر مند ، تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور بچے اب ترکی ، لبنان اور اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ کا صدر اور دنیا کا سب سے بااختیار شخص اپنی محفوظ پناہ گاہ سے ان مظلوموں کو امن اور خوشحالی کےلئے خطرہ قرار دے رہا ہے۔ حالانکہ اس تباہی کی ذمہ داری سو فیصد غلط امریکی پالیسیوں پر عائد کی جا سکتی ہے۔ یہی صورتحال لیبیا ، یمن ، صومالیہ کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں بھی ہے۔ ان ملکوں کو امریکی جنگ کا براہ راست یا بالواسطہ نشانہ بننے کی وجہ سے دہشت گردی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر پاکستان جیسا ملک ان حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ کرتا ہے تو واشنگٹن اپنی غلطیوں کا بوجھ اس پر لادتے ہوئے ان کوتاہیوں کی تلافی کا مطالبہ کرنے لگتا ہے جو غلط امریکی فیصلوں اور اقدامات کے سبب سرزد ہوئی تھیں۔

\"\"افسوسناک بات ہے کہ 50 سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے کسی ایک طرف سے بھی امریکہ کے نئے صدر کے غلط اور گمراہ کن بیانات اور اسلام و مسلمانوں پر حملوں کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پاکستان ہو کہ سعودی عرب یا پھر افغانستان، مصر، ترکی یا خلیجی ممالک۔۔۔۔ یہ سب امید لگائے بیٹھے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی حکومت ان کے ساتھ بہتر مراسم استوار کرے گی۔ اسی قسم کی امید اسلام آباد میں بھی جڑیں پکڑ رہی ہے حالانکہ صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات کر کے انہیں اسی سال امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی وزیراعظم اپنے معاون خصوصی کو امریکہ روانہ کرنے کے باوجود صدارتی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کےلئے دعوت نامہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ امریکہ کے سنٹر برائے پبلک انٹیگریٹی کی اطلاع کے مطابق امریکی صدر نے حلف برداری کی تقریب اور ڈنر میں شرکت کیلئے 10 لاکھ ڈالر عطیہ دینے کی شرط عائد کی تھی۔ یعنی امریکہ کے تاجر صدر نے اس موقع کو بھی ڈالر کمانے کا ذریعہ بنایا۔ پاکستان کی روشن خیال جماعت ہونے کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین آصف علی زرداری، ٹرمپ کے جس ’’دعوت نامہ‘‘ پر اس تقریب اور عشائیہ میں شرکت کےلئے واشنگٹن گئے تھے، وہ بھی دس لاکھ ڈالر عطیہ دے کر حاصل کیا گیا تھا۔ اس کےلئے کسی پارٹی کا لیڈر ہونا بھی ضروری نہیں تھا لیکن شاید زرداری کےلئے نواز شریف کو نیچا دکھانے اور پاکستانی عوام کے سامنے اپنی شان بڑھانے کےلئے دس لاکھ ڈالر صرف کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔

\"\"وہائٹ ہاؤس کے نئے مکین کی اشتعال انگیزی اور جارحیت کا مقابلہ کرنے کےلئے مسلمانوں کو عقیدہ، نظریہ، مفاد یا مقامی و قومی ضرورتوں سے بالا ہو کر مشترکہ مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کرتا ہے لیکن مسلمان ملکوں کو ٹرمپ حکومت سے معاملات کرتے ہوئے کم از کم باہمی احترام کا وہ مطالبہ ضرور کرنا چاہئے جو میڈلین البرائٹ اور ان جیسے لاکھوں امریکی ناشندے اپنے صدر سے کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے امریکہ کےلئے تو بعد میں مشکلات پیدا کریں گے لیکن انہوں نے مسلمانوں کےلئے دنیا بھر میں ابھی سے کانٹے بونے کا کام شروع کر دیا ہے۔ مسلمان لیڈروں کو کسی امریکی صدر کو یہ حق نہیں دینا چاہئے کہ وہ مٹھی بھر لوگوں کی غلط کاریوں کی وجہ سے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ان کے عقیدہ پر الزام تراشی کو اپنا شعار بنائے رکھیں۔ ٹرمپ کو یہ باور کروانے کےلئے مسلمانوں کی طرف سے طاقتور صدا بلند ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments