ایتھے رکھ !


\"\"ٹرمپ کے چیف اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی میڈیا اس ملک کو نہیں سمجھتا۔ اسے اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ٹرمپ امریکا کے صدر کیوں ہیں۔ جو میڈیا قبل از وقت ٹرمپ کی جیت کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام ہو کر دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوا وہی اب چپڑ چپڑ باتیں بنا رہا ہے۔ لگتا ہے اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی نہیں بلکہ میڈیا ہے۔ اب اسے چاہیے کہ اپنا منہ بند رکھے اور کچھ عرصے کے لیے سنے بھی۔

خود ٹرمپ کا بس چلے تو ایسے میڈیا کے ساتھ وہی کریں جو مہابلی نے انار کلی کے ساتھ کیا۔ مگر اس سے پہلے اور بھی ضروری کام ٹرمپ کو تیزی سے نمٹانے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں آپ کے جو بھی خیالات ہوں مگر ایک بات تو ماننا پڑے گی۔ انھوں نے امریکیوں سے جن جن کھلم کھلا وعدوں کی بنیاد پر ووٹ لیا وہ وعدے بغیر الفاظ چبائے، ہچر مچر کیے بلاہچکچاہٹ تیزی سے پورے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ لہذا اب انھیں کم ازکم یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ سیاستداں اقتدار میں آنے سے پہلے کہتے کچھ ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کرتے کچھ ہیں۔ اگر پچھلی امریکی حکومتوں نے اپنے عوام اور دنیا سے کیے وعدے پورے کیے ہوتے تو آج ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں نہ ہوتے۔

مثلاً ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر وہ میکسیکو اور امریکا کی دو ہزار میل طویل سرحد پر باڑھ کی جگہ تیس فٹ بلند کنکریٹ دیوار تعمیر کریں گے تاکہ میکسیکو اور جنوبی امریکا کے دیگر ممالک کے غیر تارکینِ وطن کہ جن میں ریپسٹ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر اور اکا دکا شریف لوگ شامل ہیں غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس دیوار پر تعمیر ہونے والے آٹھ ارب ڈالر کے اخراجات میکسیکیو سے وصول کیے جائیں گے۔ وہ میکسیکو میں سستی لیبر کی لالچ میں لگائے گئے امریکی سرمائے کو واپس لائیں گے تاکہ بے روزگار امریکیوں کو ملازمت مل سکے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے گھر واپس آنے والی امریکی صنعتوں کو ٹیکس چھوٹ بھی ملے گا۔ وہ امریکا کی ان شہری حکومتوں کی وفاقی امداد میں بھی کٹوتی کردیں گے جہاں غیر قانونی تارکینِ وطن کا جمھگٹا ہے اگر ان حکومتوں نے تارکینِ وطن کو نکال باہر کرنے کے وفاقی احکامات پر عمل نہیں کیا۔ وہ غیر ملکیوں کی جانب سے غلط بیانی پر انھیں فوراً ڈی پورٹ کریں گے اور اس ضمن میں نہ صرف پولیس کے اختیارات بڑھائیں گے بلکہ سرحدی محافظوں کی تعداد میں بھی کم ازکم ایک لاکھ کا اضافہ کریں گے۔

اور پھر سب نے دیکھا کہ ٹرمپ نے صدر بننے کے بہتر گھنٹے کے اندر اندر ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صدارتی حکم ناموں پر دستخط کردیے۔ اب نام نہاد دانشور اور امریکا کے بہی خواہ لاکھ چلائیں کہ کیا یہ وہی امریکا ہے جس نے دیوارِ برلن کو انسانی آزادی پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیتے ہوئے تیس برس تک سوویت یونین کو مطعون کیے رکھا حتی کہ دیوار گروا کے دم لیا اور اب خود کے اردگرد دیواریں اٹھا رہا ہے۔ یہ خوف دلایا جا رہا ہے کہ دیوارِ میکسیکو پر آٹھ ارب نہیں پچیس ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہ سنسنی اٹھائی جا رہی ہے کہ سستی میکسیکن لیبر عنقا ہوئی تو امریکی زراعت اور گھریلو کام کاج اور چھوٹی صنعتیں ٹھپ ہو جائیں گی۔ اس ہراس میں مبتلا کیا جا رہا ہے کہ میکسیکو امریکی مصنوعات کی دوسری سب سے بڑی منڈی ہے اور میکسیکو کی اسی فیصد درآمدات امریکا سے آتی ہیں۔ اور اگر ٹرمپ کے اقدامات کے سبب میکسیکو کی معیشت ٹھپ ہوتی ہے تو وہ امریکا کے سر پہ دوسرا کیوبا بن سکتا ہے۔ جو خلا امریکا چھوڑے گا وہ چین بھرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا۔

مگر یہ وعدہ تو ٹرمپ نے امریکی ووٹروں سے کیا تھا۔ اگر پریشان ہونا تھا تو ووٹر کو ہونا تھا۔ جب ووٹر ہی بن داس نکلا تو ٹرمپ کو اپنا وعدہ پورا کرنے پر کیوں مطعون کیا جا رہا ہے؟ میکسیو کے صدر نے اکتیس جنوری کو ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات منسوخ کردی ہے اور دیوار کے اخراجات دینے سے صفا انکار کردیا ہے۔ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کر دیا ہے کہ پیسے نہیں دینے تو ملاقات کی بھی ضرورت نہیں۔

ویسے بھی ٹرمپ نے اس نعرے پر الیکشن جیتا کہ سب سے پہلے امریکا۔۔۔ ابھی تو حسبِ وعدہ نارتھ امریکن فری ٹریڈ معاہدے پر نظرِ ثانی بھی ہو گی جس میں میکسیکو کے ساتھ ساتھ کینیڈا بھی امریکا کا ساجھے دار ہے اور اس پر بل کلنٹن نے دستخط کرتے ہوئے اسے تاریخی اور بے مثال معاہدہ قرار دیا تھا۔ کیا ٹرمپ جو کر رہا ہے یا کرے گا وہ تاریخی و بے مثال نہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔

ابھی تو ناٹو کی باری بھی آنے والی ہے جس کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ آیندہ یورپ کو اپنا دفاعی بار خود اٹھانا پڑے گا۔ امریکا کے خرچے پر بہت عیاشی کر لی۔ ابھی تو ماحولیاتی آلودگی کے پیرس عالمی سمجھوتے سے بھی امریکا کو الگ ہونا ہے۔ کیونکہ قولِ ٹرمپ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا ریکٹ ایک سائنسی فراڈ ہے۔

جب اوباما نے دنیا کی چالیس فیصد معیشت کے مالک بحرالکاہل کے آر پار بارہ ممالک کے ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ کے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تو اس وقت بھی بغلیں بجائی گئی تھیں۔ مگر مردِ قلندر ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹروں سے وعدہ کیا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی امریکا کے لیے زہرِ قاتل اس معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔ اور بالکل یہی ہوا۔ پہلے حکم نامے پر دستخط کرنے والے قلم سے اس معاہدے کا سر قلم کردیا گیا۔

کیا ٹرمپ نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ دنیا سے ’’اسلامی دہشتگردی ’’جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گا؟ تین روز پہلے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کو بطور صدر پہلا انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کیا کہا؟ مشرقِ وسطی میں لوگوں کے سر قلم ہو رہے ہیں تو کیا ہم دہشتگردوں سے اقبالِ جرم کروانے کے لیے واٹر بورڈنگ کا حربہ بھی استعمال نہ کریں۔ آگ کا مقابلہ آگ ہی کر سکتی ہے۔ میں نے اپنے وزیرِ دفاع جیمز میٹس اور سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو سے کہہ دیا ہے کہ قانون کے مطابق دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں۔ میں نے اپنے خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے پوچھا کیا تشدد سے کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا بالکل ہوتا ہے۔

اب ری بلیکن اکثریتی کانگریس کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر پال رائن اور سینیٹ میں ری پبلیکن اکثریتی لیڈر میک اونیل اور سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سربراہ جان مکین لاکھ واویلا کریں کہ صدر ٹرمپ جتنے بھی حکم نامے جاری کر لیں مگر آرمی فیلڈ مینوئل میں تشدد سے راز اگلوانے پر پابندی کی ترمیم برقرار رہے گی کیونکہ اسے کانگریس نے منظور کیا ہے۔ لیکن ان ری پبلیکن رہنماؤں نے تو تب بھی ٹرمپ کی مخالفت کی تھی جب وہ صدر نہیں بنے تھے۔ یہ رہنما اب بھی نہیں جانتے کہ ٹرمپ کوئی فلمی نہیں اصلی والا سلمان خان ہے۔ ایک بار کمٹمنٹ کر لے تو خود کی بھی نہیں سنتا۔

اے بی سی نیٹ ورک کے انٹرویو میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ عراق پر قبضہ بھاری غلطی تھی۔ اور بغیر تیل پر قبضہ کیے وہاں سے نکلنا اس سے بھی بڑی غلطی۔ کیونکہ اس تیل نے ہی داعش کو زندہ رکھا۔ جب ہم نکلے تو عراق میں کوئی حکومت نہیں تھی۔ آج بھی نہیں ہے۔ ہم نے مشرقِ وسطی میں چھ ٹریلین ڈالر جھونک کے خود کو کھکھل کر لیا۔ تیل قابو کر لیتے تو داعش بھی نہ ہوتی۔ اب کوئی لاکھ چیختا رہے کہ عراق پر قبضہ نہ ہوتا تو داعش بھی نہ ہوتی اور یہ موجودہ عراقی حکومت ہی ہے جو داعش سے نبرد آزما ہے مگر ٹرمپ تو ٹرمپ ہے۔

کیا ٹرمپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ امریکا میں دہشت گردوں کی آمد روکنے کے لیے سات ممالک ( شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا، سوڈان، صومالیہ) کے شہریوں کو تب تک ویزا نہیں دے گا جب تک ایک نیا امیگریشن ڈھانچہ نہ بن جاتا۔ اور افغانستان، پاکستان اور سعودی باشندوں کی ویزا درخواستوں کی سختی سے جانچ پڑتال ہوگی۔ اب یہ محض حسنِ اتفاق ہے کہ یہ سب ممالک مسلمان ہیں۔ کیا ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ نہیں کہا تھا کہ وہ امریکا میں مقیم مسلمانوں کی رجسٹریشن کرے گا۔ تو اب کیوں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور تو اور سابق وزیرِ خارجہ میدلین اولبرائٹ بھی کہہ رہی ہیں کہ میں یہودی سہی مگر ٹرمپ نے امریکی مسلمانوں کی رجسٹریشن کی تو میں احجاجاً بطور مسلمان خود کو رجسٹر کرواؤں گی۔ یہ وہی البرائٹ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ امریکی اقتصادی پابندیوں سے پانچ لاکھ عراقیوں کا مر جانا کوئی بڑی قیمت نہیں۔ ابھی تو امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ بھی پورا ہونا ہے۔ اسرائیل نے تو پہلے ہی یروشلم میں ڈھائی ہزار نئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کر دیا ہے۔

کوئی لاکھ چیختا رہے کہ اس طرح کے اقدامات سے مشرقِ وسطی میں ایک نئی آگ لگ جائے گی۔ اے بی سی کے صحافی نے بھی یہی پوچھا تھا کہ آپ کے اقدامات سے کیا مسلمان دنیا میں امریکا سے نفرت نہیں بڑھے گی؟ ہمارے ٹرمپ نے جواب دیا اب بھی کون سی کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ کتنی بڑھے گی۔ دنیا ہم سے پہلے ہی کون سی خوش ہے؟

کیا فرق پڑتا ہے اگر دو لاکھ عورتیں ٹرمپ کے صدر بننے کے دوسرے دن واشنگٹن میں مظاہرہ کریں۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر میڈیا یہ تصاویر دکھائے کہ ٹرمپ کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں جتنے لوگ تھے اس سے چار گنا اوباما کی تقریب میں تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وعدوں کا پکا ٹرمپ اب امریکا کا صدر ہے۔

کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اس سے

جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اس سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments