صحافی کی رپورٹ، بارش کی بوندیں اور احساس کی لہریں


\"\" جاڑے کے موسم میں صبح و شام رم جھم بوندیں برس رہی ہیں۔ ایسے میں لحاف اوڑھ کر کوئی من پسند کتاب پڑھنا یا موسم کی مانند کوئی سہانا گیت سنتے ہوئے پکوڑے سموسے کھانا ایک ایسی خواہش ہے جو ہر منچلے دل میں ابھرتی ہے۔ مگر ایک صحافی کو پکوڑے سموسے کھانے کی بجائے ان پر رپورٹ بنانا ہوتی ہے۔ بارش میں بھیگتے ہوئے صحافی یہ بتاتا ہے کہ شبنمی قطروں سے پھولوں کی پنکھڑیاں کس طرح اپنا بنائو سنگھار کر رہی ہیں۔۔۔ میرا دماغ بھی موسم کی مستانی رتوں پر رپورٹ میں بیان کرنے کے جملے سوچنے لگا تا کہ جب بھی بارش ہو میرا اسکرپٹ پہلے سے تیار ہو۔ سوچ کی بھلا لگام ہی کہاں ہوتی ہے۔۔۔۔۔ تو بھئی میری سوچ بارش کی بوندوں کے زمین پر گرنے سے پیدا ہونے والی آواز پر جا پہینچی۔

ٹپ ٹپ کرتی بوندیں مجھے ہزاروں خوابوں کا پتہ دینے لگیں۔ ٹپ ٹپ کی آواز تتلیوں کی اٹھکیلیوں میں کسی مہکتے سے گلشن کی جانب میری سوچ کو کھینچے لئے جا رہی تھیں۔ ٹپ ٹپ۔۔۔ میں محبتوں کے جہان میں پہنچنے لگی۔۔ ٹپ ٹپ۔۔۔ پریت کے سر فضائوں میں سحر بھر رہے ہیں۔۔ ٹپ ٹپ۔۔۔ شوخ آنکھوں سے جھلکتی کوئی مسکان۔۔ ٹپ ٹپ۔۔ ابھی سوچ کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ سسکیوں کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔ میرے رنگوں اور مسکراہٹوں میں ڈوبے دل کو یکایک جیسے کسی زنجیر نے جکڑ لیا۔۔۔۔

سعدیہ بی بی ہمارا جھونپڑی بہہ گیا۔۔۔ یہ تو نجمہ کی آواز تھی جسے گھر میں کام کاج کے لئے اماں نے رکھا ہوا ہے۔ سوات کے کسی چھوٹے گائوں سے تعلق رکھنے والی نجمہ جس کے پانچ بچے ہیں ہمارے گھر کے قریب پکی سڑک کے اس پار کچے علاقے میں موجود قبرستان کے اندر ہی کونے پر لکڑی اور کپڑے کی جھونپڑی میں رہتی ہے۔ ٹپ ٹپ۔۔۔ نجمہ کی آنکھوں سے دکھوں کا سمندر بہنے لگا۔۔ ٹپ ٹپ۔۔ کل رات بارش بہت تیز تھا ہمارا جھونپڑا بھی ختم ہو گیا۔۔ ٹپ ٹپ آنسو۔۔ ہمارا بچہ پوری رات سردی میں کانپتا رہا ہے۔۔ ٹپ ٹپ۔۔ ہمارا بچہ سب بوووت چھوٹا ہے سعدیہ بی بی۔۔ وہ مر جائے گا۔۔۔ مجھے اچانک ایسے محسوس ہوا جیسے دھیمی دھیمی بارش طوفانی ہو گئی ہو ٹپ ٹپ کی بجائے زناٹے دار آواز میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی۔۔\"\"

نجمہ کے لئے گھر والوں اور عزیز دوستوں کی مدد سے مل کر نئی جھونپڑی کا بندوبست تو کر دیا مگر اسی لمحے میری سوچوں کو ٹپ ٹپ کی آواز میں ایک نیا رخ نظر آنے لگا۔۔ مجھے یاد آنے لگا کہ ایک روز جب میں پکوڑوں سموسوں پر رپورٹ بنا رہی تھی تو وہیں کہیں ایک ننھا بچہ بارش میں ننگے پائوں کھڑا دکان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کتنی حسرت تھی ان آنکھوں میں۔۔۔ مگر کسی نے بھی تو ایک بار اس سے سموسہ یا پکوڑہ کھانے کو نہ پوچھا تھا۔۔ مجھے یاد آنے لگا وہ خواجہ سرا جو راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے مری روڈ پر ہر آتے جاتے کو کہہ رہا تھا کہ صاحب جی۔۔ باجی جی۔۔ آج بہت بارش ہے تھوڑے پیسے دے دو نہیں تو بھیک مانگتے مانگتے بیمار پڑ جائوں گا بیمار ہوا تو گھر بیٹھنا پڑے گا۔ اور مانگنے نہ آیا تو بھوکا مر جائوں گا۔۔ پھر مجھے اشارے پر کھڑی اس اپاہج عورت کا خیال آیا جو گھر کو جانا چاہتی تھی مگر رات کی روٹی کی فکر دن میں اسے بھیگنے پر اکسائے جا رہی تھی۔۔۔

انہی سوچوں میں گم گھر سے نکلی تو ہلکی بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ سڑک پر گاڑیاں بدستور چل رہی تھیں۔ گرم ہیٹر اور شوخ گیتوں نے گاڑیوں کے ماحول کو اور بھی اچھا بنا دیا تھا۔۔ اسی طرح کسی اعلی حکومتی عہدیدار کے گزرنے سے پہلے روٹ بھی لگے ہوئے تھے۔۔۔ اس سب کے ساتھ ٹپ ٹپ کی آواز اب بھی مجھے سنائی دے رہی تھی مگر یہ شاید بارش نہیں ہے۔۔ مجھے پتہ چل رہا تھا کہ یہ تو احساس ہیں جو بہنے لگے ہیں۔۔ خود غرضی کی آگ میں محبتیں دھڑ دھڑ جلنے لگی ہیں۔۔ مفلسی حالات میں نہیں دلوں میں اترنے لگی ہے۔۔ احساس سے خالی لوگ سانس لیتی کوئی مخلوق تو نظر آرہے ہیں مگر خلوص والے انسان نہیں۔۔۔\"\"

کمانا، اور کمانا، اڑانا، بچانا، چھپانا، اور مال بڑھانا۔۔ بس انہی فکروں میں ڈوبا بندہ جذبوں سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ غرض کی ندیا میں بہتا بھلائی کے ساحل سے دور بہت دور۔۔۔۔ ہم حکمرانوں کی سنگ دلی کا ماتم لفظوں اور کوسنوں کی صورت میں مناتے ہیں مگر ہم سے نیچے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے لئے شاید ہم ہی صدر جیسی اہمیت رکھتے ہوں۔ شاید ہماری تھوڑی سی توجہ کسی آزمائش میں گھرے فرد کی مشکل آسان کر دے، شاید ٹوٹے دلوں کی دعائیں مال ودولت کے باوجود ہم سے روٹھا ہمارا سکون ہمیں لوٹا سکیں۔۔ مگر۔۔۔

بارش تو بند نہیں ہوئی۔۔ احساس بہنے کی بارش۔۔ ہر بوندد میں بہتا خلوص، انسانیت اور محبت کا احساس گر کر ٹپ ٹپ کی آواز پیدا کر رہا ہے۔ ٹپ ٹپ ٹپ۔۔۔۔

ٹپ ٹپ ٹپ۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments