گالیاں دو، پیسے لو۔۔۔


\"\" زیادہ نہیں، بس 30 برس پرانی بات ہے۔ 14 اگست کا دن تھا اور مینار پاکستان کا سبزہ زار، جسے اب گریٹر آزادی پارک کا نام دیا گیا ہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو جنہیں صدر ضیا نے ایک سال پہلے ہی وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنائی تھی وہ اس مارشل لائی شیروانی سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ انہوں نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا اور پھرخود تاریخ کا حصہ بن گئے۔ جونیجو کا کہنا تھا کہ جمہوریت اورآمریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کی بات درست ثابت ہوئی اور دو سال بعد طاقت ور آمریت نے کمزور جمہوریت کو نگل لیا۔ قدرت کو اس کے ساتھ کچھ اور بھی منظور تھا۔ 17 اگست 1988 کو آمر رہا اورنہ ہی اس کی آمریت۔ ضیا کے گیارہ سالہ دور کے بعد ہمارے ہاں جمہوریت کے بہروپ نے جنم لیا جو کبھی خود سر بادشاہ اور آمر بن جاتا تو کبھی گاؤں کا میراثی، جس کا کام ہر دم چودھری کے گن گانا اور مخالفوں کو گالیاں دینا تھا اور اس کا صلہ گندم، چاول اور گڑ کی بوری یا پھر کپڑے لتے کی صورت میں اسے ملتا تھا لیکن آج کا جدید میراثی اپنی جیب میں نوٹ ڈالوانا پسند کرتا ہے۔

ہماری جمہوریت بھی ان دنوں میراثی النسل ہو چکی ہے جس میں ہر کوئی ہر کسی کو ہر طرح کی گالیاں دیتا ہے اور پھر جیب میں نوٹ ڈلواتا ہے۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس لگتا ہے اور بڑے بڑے وزیر بڑے بڑے سورما اس مقدس ادارے کے سامنے گالیاں دیتے پھرتے ہیں اگر کوئی محقق اس پر کتاب لکھے تو اچھی خاصی شہرت ملے ساتھ میں مال بھی خوب بنائےگا۔ ایک صاحب دانیال جو ہمارے حکمرانوں کو بڑے عزیز ہیں وہ تو گالیوں کی ٹرین میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ پی ٹی آئی والوں نے شرارتاً ہی سہی انہیں وزیر بنانے کی مہم شروع کردی ہے۔

گالم گاہ کا یہ ایک مقام ہے۔ ایسی دوسری جگہ پارلیمنٹ ہے جس کا ایک مقدس ایوان قومی اسمبلی ہے اوریہاں جیسی روح ویسے فرشتے والا معاملہ ہوتا ہے موسم ٹھنڈا اور ایوان ٹھنڈا ٹھار، لیکن عوام کے نمائندوں کا مزاج گرم، بڑے کہتے ہیں کہ جو اپنا سر ٹھنڈا رکھے اور پاؤں گرم تو وہ بڑی ترقی کرتا ہے لیکن ہمارے سیاسی بڑوں کو بڑوں کی باتوں کی کیا پروا، وہ تو خود اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ بڑوں اور بڑوں کی بڑی بڑی باتوں کوجوتی کی چھوٹی سی نوک پر رکھتے ہیں۔

26 جنوری کوجب بھارت یوم جمہوریہ منارہا تھا اس دن ہمارے جمہوریت کا جنازہ نکالا گیا۔ شاہ محمود قریشی کا وزیراعظم مخالف نعرہ ہو یا شاہد خاقان عباسی کی سخت زبان، وجہ جو بھی بنی لیکن ایوان پہلے مچھلی بازار بنا اور جب پتہ چلا کہ مچھلی تو ہے نہیں تو سیاسی پہلوانوں نے اسے اکھاڑا بنا لیا اورپھرجودھینگا مشتی ہوئی وہ دنیا نے دیکھی ۔ گالم گلوچ، دھکے، تھپڑ اور گھونسے سب کا آزاد لوگوں نے آزادانہ استعمال کیا اور ہمارے سردار اسپیکر صاحب یہ سب دیکھتے رہے لیکن کچھ نہ کر پائے ماسوائے وہ جو ہردفعہ وہ کرتے ہیں یعنی ایوان کی کارروائی ملتوی کردی ۔

عجب مضحکہ صورتحال ہے کہ اسپیکر صاحب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے پھر بھی پارلیمانی رہنماؤں کی بیٹھک میں شرمندہ واقعہ کی فوٹیج بھی منگوا لی، ساتھ میں موبائل فون سے ویڈیو بنانے پر پابندی بھی لگا دی تاکہ جو کچھ مقدس ایوان میں ہو رہا ہو وہ گند باہر بیٹھے عوام نہ دیکھ سکیں، تو پھر پانچ سال بعد عوام کو منہ دکھانے کی بھی بھلا کیا ضرورت ہے۔ خود ہی ایک دوسرے کو چنیں، خود ہی ایک دوسرے کے متعلق فیصلے کریں، قانون بنائیں اور قانون کا مذاق اڑائیں۔ کوئی آپ کی ویڈیو بنائے گا نہ نشر کرے گا۔ ۤآپ بھی خوش اور ایوان والے بھی خوش۔

ایوان کے نگران کی جانب سے فوٹیج منگوانے کے بعد ہو گا بھی کیا ؟موقف سنا جائے گا اور مستقبل میں اس قسم کی صورت دوبارہ پیدا نہ ہونے کی یقین دہانی لی جائے گی اور بس۔ جس نے گالیاں دیں، دھمکیاں دیں، گھونسےمکے مارے، کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی بلکہ مارکٹائی اورگالم گلوچ کرنے والے معززارکان کوعوام کے ٹیکس کےپیسوں سے تنخواہ ملے گی، مراعات بھی اور آنے جانے اور ایوان کی کارروائی میں حصہ لے کر اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالنے کا خصوصی الاؤںس بھی، تو کر لو جو کرنا ہےآپ نے۔

وفاق کے دیکھا دیکھی جمعہ کو خیبر پختو نخوااسمبلی کا ماحول بھی گرم رہا، نون اور جنون آمنے سامنے رہے حالانکہ یہ ملک کا پہلا اور واحد ڈیجیٹل ایوان ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے ارکان کو تبدیلی راس نہیں آئی اور 75 کروڑ روپے خرچ کر کے ہر رکن کی نشست کے سامنے جو جدید کمپیوٹر رکھے گئے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا اور آج بھی بھاری رقم ایجنڈے کی کارروائی اور دوسری دستاویزات کی تیاری پر پرنٹنگ کی مد میں خرچ کی جا رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی جو ارکان کے تعداد کے حساب سے ملک کا سب سے بڑا ایوان ہے، بارش کے دن یہاں بھی خوب تنقید کی بارش ہوتی ہے اور چند روز پہلے سندھ کے محل نما ایوان میں نصرت سحر عباسی کے ساتھ جو کچھ ہوا اور پیپلز پارٹی کے وزیر امداد پتافی نے جس طرح خاتون رکن کو چیمبر میں آنے کی دعوت دی وہ تو پارلیمانی تاریخ کے حسن کی انتہا تھی۔ ویسے پاکستان کےایوانوں میں غیر پارلیمانی اور ناشائستہ گفتگو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا تحریک انصاف کی شیریں مزاری کو بھرے ایوان میں ٹریکٹر ٹرالی کہنا کچھ زیادہ پرانی بات بھی نہیں اوراسے یاد کرنے کے لئے بادام اور اخروٹ کھانے کی چنداں ضرورت نہیں اور جہاں تک دھینگا مشتی کا تعلق ہے تو 1974 کا سال ذہن میں لائیں جب بھٹو قائد ایوان اور قائد عوام تھے اوران کے ایوان میں ارکان کو سارجنٹ ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاتے اور باہر پارکنگ میں معززین کی ڈولی اترواتے جبکہ 1958 میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کےسر میں اس زور سے کرسی ماری گئی کہ جناب کرسی سے اتر کر پہلے اسپتال اورپھر قبر میں پہنچ گئے ۔

توجناب پریشان ہونا چھوڑیں اورگالیاں دینا شروع کریں، گالی شیطان کی آنت کی طرح جتنی لمبی ہو گی، جتنی زیادہ حسب نسب کو نشانہ بنانے والی ہو گی اور مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کے ساتھ ساتھ ان کا دامن داغدار کرنے والی ہو گی آپ کی قسمت کا ستارہ اسی آب و تاب سے چمکے گا، جونیجو مرحوم تو کہہ گئے تھے کہ جمہوریت اور آمریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی لیکن ہمارے سیاست دان کہتے ہیں بھلے جو کچھ بھی ہو ہم نے تو شیطان کے کان ہی کاٹنا ہیں۔ آمریت جائے بھاڑ میں، ہمیں تو گالیوں والی جمہوریت ہی چاہئے۔

شہزاد اقبال 18 سال سے صحافت میں خاک چھان رہے ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز سے وابستہ ہیں۔ خاک کے اس پتلے سے ان کے ای میل  shahzadiqbal7@yahoo.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments