پاکستان میں نیوڈ مصوری


انسانی جسم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عام طور پر ہمارا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں، معذرت خواہ ہیں، یا کچھ شرمندہ ہیں۔ شاعری میں کسی حد تک معافی ہے لیکن وہ بس یہی ہے جسے اردو میں رعایت شعری اور انگریزی میں پوئٹیک لائسنس کہتے ہیں، یا عربی والے شاعر کو تلامیذ الرحمن کہہ کر گویا چشم پوشی کر لیتے ہیں۔ افسانوں کو دیکھیں تو منٹو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی آج بھی نئے بچے چھپ چھپا کر ہی پڑھتے ہیں۔ یعنی انگریزی فلم میں دیکھ سب کچھ لیا جائے گا مگر پڑھنا ہے تو ابا کو معلوم نہ ہو کہ اولاد منٹو شناس ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے ہی تصاویر کا معاملہ ہے۔ سڑک پر یہ بڑے بڑے اشتہار فلموں کے لگے ہوں گے، اس میں سبھی کچھ نظر آ رہا ہو گا، لیکن وہ روٹین ہے، ابا بچے اماں سب ساتھ سے گزر جائیں گے جیسا دیکھا ہی نہیں، اور بچے دیکھیں گے بھی تو کوئی خاص دلچسپی نہیں لیں گے۔ دیواریں اور اخبار جنسی بیماریوں اور ان کی دواؤں کی معلومات دیتے نظر آئیں گے، وہ بھی برحق ہے۔ آٹھ دس برس کا بچہ خوب جانتا ہے کہ بنگالی بابا کیا بیچتے ہیں یا لمحوں کی غلطی کو صدیوں کی سزا کیوں کہا جاتا ہے۔

بات جیسے ہی تصاویر پر آتی ہے، فن پر آتی ہے، چاہے وہ کیمرے سے کھینچی گئی ہوں یا باقاعدہ مصوری کی گئی ہو، ہمارا رویہ بدل جاتا ہے۔ نیوڈ پینٹنگ ہمارے نزدیک فحش قرار پاتی ہے۔ نیوڈٹی اور پورنوگرافی کا فرق بہرحال ایک عام آنکھ بھی سمجھ سکتی ہے۔ کیٹ وینسلٹ ٹائی ٹینک فلم میں جب تصویر بنوانے کے لیے عریاں ہوئیں اور اس سے پہلے وہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ ادا کیا، “جیک، آئے وانٹ یو ٹو ڈرا می لائک ون آف یور فرنچ گرلز، وئیرنگ دس، (وقفہ)، وئیرنگ ۔۔ اونلی ۔۔۔ دس!” تو ہم لوگ شاید میٹرک میں تھے یا کوئی آس پاس کا زمانہ ہو گا، تو کیٹ ونسلیٹ بہرحال یاد رہیں نہ رہیں، یہ ڈائیلاگ یاد رہ گیا۔ اور وہ لاکٹ بھی جو پہنے ہوئے انہوں نے تصویر بنوائی۔ فلم سوپر ہٹ تھی، لیکن کوئی اور ڈائیلاگ کسی اور کو یاد ہے؟ پورے پورے سین، پوری پوری فلم یاد رہ گئی ہو گی لیکن یہ ایک ڈائیلاگ کیوں یاد رہا؟ تو یہ فرق ایک آرٹسٹک نیوڈٹی اور پورنوگرافی میں بہرحال نمایاں رہتا ہے۔

Ellora Cave 32, Jain

عربی کے طالب علم اگر امراالقیس کی فتوحات پڑھیں گے، اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے جو سین وہ بنا گئے وہ بھی انہیں یاد آئے گا، حماسہ بھی تعلیم کا لازمی جزو ہے، اس کا باب مذمت النسا دیکھ لیجیے، گلستان سعدی کا غالبا پانچواں باب ہے، وہ پڑھ لیجیے، الف لیلی ہے، ہماری دوسری داستانیں ہیں، مثنویاں ہیں، کیا یہ سب کا سب علمی خزانہ بیک جنبش قلم فحش قرار دے کر رد کیا جا سکتا ہے؟ ہاں چرکین کہہ لیجیے کہ لطافت سے عاری تھے، زٹلی کے ہاں بھی یہ عنصر کم تھا، جوش نثر میں کثیف ہو جاتے تھے، لیکن پورن (عریاں نویسی) تو بہرحال یہ بھی نہیں کہلائی جائے گی۔ بہت سے گروہوں کی مذہبی کتابوں میں مسائل کی ایک کثیر تعداد یوں کھول کر بیان کی گئی ہے کہ پڑھانے بیٹھیں تو پسینہ آ جائے۔ توبتہ النصوح میں بھائی نصوح نے اپنی اہلیہ کو شیخ سعدی کی نثر کے بارے میں کیا یاد دلایا تھا۔ یہی کہ تم پڑھتی تھیں تو میں نے ایک تہائی کتاب چاک کی۔ کوئی اور پڑھتی تو میں آدھی کتاب کی خبر لیتا۔ تو یہ سب زندگی کا حصہ ہے۔ اسے اتنی جگہ ضرور ملنی چاہئیے کہ ہماری آنے والی نسل اسے کھلے دل سے ہضم کر سکے۔

کھلے دل سے کہنے کی ضرورت یوں ہے کہ جب عمر بھر وہ ایسی پابندیوں کا شکار رہ کر بڑے ہوتے ہیں تو نتیجہ کچھ ایسے ہوتا ہے جیسے اردو کے ایک شاہ کار ناول میں تھا۔ مصنف صاحب علم، ایسے کہ ہم سر ہی کوئی نہیں دور دور تک، لیکن جہاں جنس کی بات آئی، جہاں عورت کی بات ہوئی، دو تین صفحے وقف ہو گئے اسی کے طواف میں، عربی، اردو، فارسی کے تمام چراغ جلانے کے بعد جب طبیعت سنبھلی تو آگے بڑھ گئے۔ لیکن پڑھنے والا یہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ تنقید نگار نہیں ہوتا مگر ذہن شناس ضرور ہوتا ہے۔ تو ایسا عمدہ ناول اس ایک جگہ پر آ کے مار کھا جائے تو یہ زیادتی ہے۔ بھئی یہ سارے مناظر تو انجوائے کرنے کی چیز ہیں، لکھنے ہیں تو ایسے لکھیے جیسے گزارے گئے، غیر ضروری طور پر کھینچے جانا پکڑائی کا موقع دیتا ہے۔ پکڑائی وہی کہ خدا جانے کیا عالم ہو گا اور کہاں تک لپیٹ لیا۔ آرتھر کوئسٹلر نے فکشن مین جنس کے بیان پر بات کرتے ہوئے کیا اچھی بات کہی کہ لکھنے والا، آستینیں چڑھاتے ہوئے خود سے کہتا ہے ۔۔۔ ایسی کی تیسی۔۔۔ یہ سب معمول کی باتیں ہیں اور میں انہیں اس سادگی سے لکھوں گا جیسے پانی پینے اور کھانا کھانے کو بیان کیا جاتا ہے۔ اور پھر لکھنے والا قلم اٹھاتا ہے اور۔۔۔ کچھ دیر بعد قلم ٹیڑھا ہو جاتا ہے اور لکھنے والے کو دانتوں پسینہ آنے لگتا ہے۔۔۔

جسم زندگی کی اکائی ہے۔ دودھ پلاتی عورت یا سرراہے حیتیاتی تقاضے کے ہاتھوں مجبور لوگوں کو بیٹھے دیکھ کر آپ کتنا زیادہ سیکس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ یہ منظر ہماری زندگیوں کے عام حصے ہیں۔ اسی طرح مغربی ممالک میں اگر ایک جوڑا گلے مل لے یا کچھ بوسہ بازی ہو جائے تو وہ منظر ان کی طبیعت میں بے چینی پیدا نہیں کرتا۔ آرٹ کو بس اتنی ہی گنجائش چاہئیے ہوتی ہے کہ آپ اسے اظہار کی اجازت دے دیں۔ وہ آپ کی زندگیوں میں موجود ہو آپ کے آس پاس ہو، اپنی جگہ وہ خود بنا لیتا ہے۔

پاکستان میں نیوڈز بہت سے استاد فن کاروں نے بنائیں، جو لیجنڈز تھے، اور ہیں۔ اپنے شاکر علی تھے، صادقین تھے، چغتائی تھے، کولن ڈیوڈ تھے، ظہورالاخلاق تھے، احمد ظوئے تھے، مشکور رضا تھے، جمیل نقش ہیں، اقبال حسین ہیں جو نیوڈز باقاعدہ تو شاید بہت ہی کم بناتے ہیں لیکن ان کی ہر تصویر شدید ترین اداسی پیدا کرنے والی ہوتی ہے، سعید اختر ہیں، لالہ حیات ہیں۔ علی امام تھے لیکن ان کے ہاں بس امپریشن سا تھا، فگریٹیو سٹڈی کہہ لیجیے، اقبال مہدی تھے ۔۔۔ شاید وہی تھے جو اپنے وقت کے باکمال رسالے سب رنگ میں خاکے بناتے تھے اور لکیروں کے جال میں ایسا بہت کچھ ہوتا تھا کہ انسان گھنٹوں غور کرتا رہے اور ہر مرتبہ ایک نیا سرا ہاتھ آئے۔ لیکن ان سب کے ساتھ کیا مسائل رہے وہ الگ کہانی ہے۔ عوام میر کے شعر نہیں سمجھ سکتے، صادقین کو خطاطی کا سہارا لے کر قبول عام ملتا ہے، لوگ کہتے تھے کہ ہم خدا کا جلوہ دیکھنے جاتے ہیں، یہ صادقین کا فن نہیں، خدا کا معجزہ ہے، پھر صادقین کے ٹیڑھے ہاتھوں میں اللہ لکھا ہوا بھی دکھائی دیا، اور شاکر علی پر فتووں کی گونج بھی سنائی دی، کولن ڈیوڈ کے خلاف تو باقاعدہ نعرے بازیاں ہوئیں، جلوس نکلے، تو یہ سب کچھ اس خطے میں ہوا جہاں صرف دو ہزار برس پہلے اجنتا اور ایلورا کے شاہ کار بنے تھے۔ آج کل علی کاظم، عرفان گل، راشد رانا اور دیگر ہم عصر ہیں جو اپنا کام کیے جاتے ہیں، باقی جو خدا کو منظور!

چغتائی صاحب کی ایک کتاب ادارہ ثقافت پاکستان نے چھاپی، یہ ان کے مقالات تھے جو شیما مجید صاحبہ کے مرتب کیے ہوئے تھے، وہاں ایک جگہ لکھتے ہیں؛

“رضا عباسی کی تصویر دیکھتے ہوئے ایک مولانا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جنہوں نے اکثر تقریباً ہر ملاقات میں حرام اور حلال کا فرق بیان کرتے ہوئے اس عذاب الہی سے مجھے ڈرایا جو آرٹسٹوں پر نازل ہونے والا ہے یا ہو کر رہے گا۔ آخر کار ان کے مسلسل عذاب سے زچ ہو کر مجھے مولانا سے کہنا پڑا۔ مولانا آپ مفت میں میرے عذاب سے خوف زدہ ہیں، غم نہ کھائیں، مجھ میں عذاب جھیلنے کی قوت بدرجہ اتم موجود ہے۔ میں نے تو آج کل برہنہ تصویروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

وہ کچھ ڈھیلے پڑ گئے۔ کاغذوں کا وہ پلندہ جو اکثر میں بغل میں دبائے رکھتا تھا، دیکھنے پر مصر نظر آئے۔

یہ کاغذ آپ کے دیکھنے کے نہیں، ان پر برہنہ، بالکل ننگی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔

ان کے دماغ کا توازن جاتا رہا، الجھن پیدا ہوئی اور میری بخشش کے بہانے برہنہ تصویریں دیکھنے پر رضامند ہو گئے۔ استاد رضا عباسی کی شبیہ دیکھ کر ہمیشہ ہی وہ مولانا یاد آ جاتے ہیں جن کے نزدیک تصویریں بنانا تو اسلامی شعار کے خلاف ہے مگر عریاں تصویریں دیکھنا حلال تھا۔”

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments