گم شدہ بلاگرز کی واپسی ۔۔۔ اور خوف کی فضا


\"\"تمام پاکستانی اخبارات نے نہایت احتیاط کے ساتھ یہ خبر شائع کی ہے کہ اس ماہ کے شروع میں اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے سماجی کارکن، استاد، شاعر اور ڈرامہ نویس سلمان حیدر خیریت سے واپس اپنے اہل خاندان کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ خاندان کے ذرائع نے بھی ان کی واپسی کی اطلاع دی ہے۔ اسلام آباد پولیس نے بھی تصدیق کی ہے کہ سلمان حیدر خیریت سے ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ ہیں۔ خبر یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ صحافی کا قلم ، پولیس کا بیان اور خاندان کا اظہار تشکر بس یہیں تک محدود ہے۔ یہ خوف کی فضا ہے۔ یہی خوف قائم کرنے کے لئے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ جب تک دہشت اور خوف کا یہ ماحول ختم نہیں ہو گا۔ جب تک ان اداروں یا افراد کا احتساب نہیں ہو گا جو کسی بھی غیر واضح مقصد سے لوگوں کو اٹھاتے ہیں اور پھر مرضی سے رہا کرتے یا مار ڈالتے ہیں، اس وقت تک ، یہ ضمانت فراہم نہیں ہو سکتی کہ آئندہ کسی دوسرے ’سلمان حیدر‘ کو نہیں اٹھایا جائے گا۔

سلمان حیدر کے ساتھ چند دوسرے بلاگرز بھی پاکستان کے مختلف شہروں سے لاپتہ کردئے گئے تھے۔ ملک میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائیٹی نے ان اچانک گم شدگیوں پر شدید احتجاج کیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اگر ان لوگوں نے ملک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے اور انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان مطالبوں پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں یقین دلایا تھا کہ لاپتہ بلاگرز کو بازیاب کروانے کے لئے تمام کوششیں کی جائیں گی۔ تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے تھے کہ ان لوگوں کو کیوں اور کن لوگوں نے غائب کیا تھا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر لاپتہ بلاگرز اور سماجی کارکنوں کی کردار کشی کے لئے مہم کا آغاز کیا گیا۔ ان الزامات میں لاپتہ افراد کو توہین مذہب کا مرتکب اور قوم کا غدار بتانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بدنصیبی سے یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا کے معلوم اور نامعلوم افراد کی پروپیگنڈا مہم تک محدود نہیں رہا۔ قومی اخبارات میں لکھنے والے بعض کالم نگاروں اور ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں بھی کفر اور غداری کے فتوے جاری کئے گئے۔

ان عناصر کی منہ زوری کا یہ عالم ہے کہ جب پیمرا نے نفرت انگیز اور متعصبانہ پروپیگنڈا کرنے پر عامر لیاقت کے پروگرام کو بند کرنے کا حکم دیا تو بول ٹیلی ویژن نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ اس ہمت کا مظاہرہ آزدی اظہار سے محبت یا اس کے احترام میں نہیں کیا گیا بلکہ اس چینل نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ قانون کی عملداری کو تسلیم نہیں کرتا۔ بول ٹیلی ویژن اگر آزادی رائے کے احترام کا حامی ہوتا تو وہ بے شک پیمرا کے فیصلہ کو مسترد کرتا لیکن عامر لیاقت کے پروگرام کو بنیادی صحافتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے جرم میں پیمرا کے اقدام سے پہلے ہی اپنا پلیٹ فارم فراہم کرنے سے انکار کرچکا ہوتا۔

اس صورت حال میں ایک یا کئی بلاگرز کی اچانک واپسی بھی ان کے لاپتہ کئے جانے کی طرح پر اسرار اور افسوسناک ہے۔ ان لوگوں کے دوست اور اہل خاندان بجا طور سے اس رہائی پر خوش ہوں گے لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا کہ اس کے لئے ملک کے شہریوں سے اس ملک کے بعض خفیہ اور نامعلوم ادارے کیا قیمت وصول کررہے ہیں۔ یہ واپسی خاموشی کے جس سناٹے کو جنم دے رہی ہے، وہ اسی خوف سے پیدا ہوتا ہے جس کے خلاف سلمان حیدر اور دیگر لوگ احتجاج کرتے رہے ہیں ۔ یہ احتجاج جاری رہنا چاہئے کیوں کہ رہائی کی خبر جس طرح سامنے آئی ہے اور لاپتہ سے اچانک حاضر ہونے والے جس طرح مہر بلب ہیں، وہ ایک دہشت زدہ نظام کی علامت ہے۔ اس دہشت کو ختم کئے بغیر نہ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنا ممکن ہے۔

آج کراچی میں سارک کی امور قانون کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے انصاف کی فوری اور ارزاں فراہمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی نافذ کرنے کے لئے ایک دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کے معاملہ میں عدالت کے ازخود نوٹس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ملک اعلیٰ ترین عدالت عام شہریوں کے حقوق اور سب کو قانون کا پابند بنانے کے اصول کے لئے کام کرتی ہے۔ تاہم یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز اسی دوران غائب کردئے گئے تھے، ملک بھر میں اس حوالے سے احتجاج کی آوازیں آتی رہیں، پھر ان کے خلاف الزام تراشی کرنے والے دندناتے رہے لیکن سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت کو انصاف اور قانون کا خون ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

ان حالات میں عدالت اپنے دعوے کے مطابق اگر پاناما پیپرز کیس میں ’انصاف‘ کے سارے تقاضے پورے کر بھی لے تو بھی ملک میں انصاف کا بول بالا نہیں ہو سکے گا۔ اس مقصد کے لئے سپریم کورٹ کو ملک کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا ہو گا اور یہ اعلان کرنا ہوگا کہ وہ ایسی کسی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments