عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے مرتد اور جاسوس قیدی


\"\"

(پہلا حصہ: طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں)

طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام کی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ کے چند صفحات۔

قیدیوں کے درمیان آپس میں بھی تشدد ہوا کرتا تھا۔ کچھ قیدیوں کے بارے میں دوسروں کو یقین تھا کہ وہ جاسوس ہیں اور امریکیوں سے ملے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ درشتی سے پیش آیا جاتا اور بسا اوقات ان کے ساتھ گالم گلوچ بھی کی جاتی۔ دوسرے قیدی ان پر تھوک دیتے تھے اور وہ درخواست کرتے تھے کہ ان کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے۔ ان میں سے کئی خود کو اپنے سیل میں پھانسی دینے کی کوشش کرتے تھے اور پھر ان کو نفسیاتی وارڈ میں بھیج دیا جاتا تھا جہاں ان کے لئے حالات خود بخود زیادہ خراب ہو جاتے تھے۔

ایسے کچھ جاسوس افغان تھے اور ان میں سے کئی نے اپنا مذہب تبدیل کرتے ہوئے اسلام کو ترک کر دیا تھا۔ وہ اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ گستاخی کرتے تھے اور قرآن کی توہین کرتے تھے جو اس کے بعد ان سے لے لیا جاتا تھا۔ ان میں عراقی اور یمنی بھی تھے۔ جب قیدیوں کے ساتھ کے پنجرے میں ان میں سے کسی جاسوس کو رکھا جاتا تھا تو وہ محتاط ہو جاتے تھے اور ان کے کسی دوسری جگہ منتقل کیے جانے پر خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔

\"\"یہ سب کیمپ ڈیلٹا میں ہوا کرتا تھا۔ یہ مرتد قیدی اپنی گردن میں صلیب تک پہنتے تھے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ بہت سے قیدیوں کو یقین تھا کہ یہ ان کو ارتداد کی جانب مائل کرنے کی خاطر بنایا گیا امریکی منصوبہ ہے۔

دو مزید کیمپ تعمیر کیے گئے۔ پہلا ایک اچھی جگہ تھی جس میں بہتر سہولیات اور اسباب زندگی مہیا کیے گئے تھے۔ دوسرا ایک نیا عقوبت خانہ تھا۔ کیمپ فائیو دوسرے کیمپوں سے دور واقع تھا لیکن اس جگہ کے بارے میں جلد ہی خبریں پھیل گئیں۔ حتی کہ تفتیش کاروں تک نے ہمیں بتایا کہ یہ رہنے کے لئے بدترین جگہ تھی۔

درحقیقت کیمپ فائیو کے حالات اچھے نہ تھے مگر برادران انہیں برداشت کر سکتے تھے۔ کمروں میں تازہ ہوا کی آمد و رفت نہ تھی اور کوئی کھڑکی نہ تھی جس سے دھوپ اندر آ سکتی۔ ہر کمرے کی ویڈیو کیمرے سے نگرانی کی جاتی تھی۔ ہر کمرے میں سیمنٹ کا تختہ، ٹائلٹ اور نل لگا ہوا تھا۔ دیواریں کنکریٹ کی بنی ہوئی تھیں اور دروازے ریموٹ کنٹرول سے کھلتے تھے۔ ان کمروں میں قرآن کے سوا کچھ رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ کھانا دروازے میں بنی ایک چھوٹی سی درز سے مہیا کیا جاتا تھا لیکن ہمیں اس دوران دروازے کی طرف منہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اکثر یہ کھانا فرش پر گر جاتا تھا لیکن اس کی جگہ نیا کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ ہفتے میں ایک مرتبہ باہر دھوپ میں چلنے پھرنے کی رعایت دی جاتی تھی۔ طبی سہولیات صرف انتہائی شدید حالت میں دی جاتی تھی لیکن کبھی بھی بیماری سے شفایاب کرتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔

ملا فضل کو کیمپ فائیو میں قید کیا گیا تھا۔ وہ معدے کی ایک بیماری میں مبتلا تھے اور سال بھر علاج کا مطالبہ کرتے رہے تھے مگر انہیں ہسپتال میں صرف اسی وقت بھیجا گیا جب وہ احتجاجی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئے۔

\"\"حالات بہت ہی زیادہ برے تھے۔ امریکی سپاہی اکثر ہم سے جھوٹ بولتے اور دھوکہ دہی کرتے تھے اور کئی مرتبہ زیادتی کا نشانہ بناتے تھے۔ ہر وہ بھائی جو کیمپ فائیو میں قید کیا جاتا تھا، وہاں سے واپسی پر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہوتا تھا۔ ان کے کمزور جسموں کو دیکھنا تکلیف دہ تھا۔ جب ابو حارث کیمپ فائیو سے واپس آئے تو میں ان کو پہچان ہی نہ پایا۔ میں ان کی حالت سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ کئی مرتبہ میں خواب میں انہیں دیکھ کر نیند سے چیخیں مارتا ہوا جاگتا۔ خدائے بزرگ و برتر تمام مسلم بھائیوں کو اچھی صحت دے اور ان کو مشرکین اور ظالموں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھے۔ کیمپ فائیو کو اکثر اوقات قبر فائیو کہا جاتا تھا۔ وہ زندوں کی ایک قبر کی مانند ہی تھا۔

کیمپ چار ان قیدیوں کو رکھنے کے لئے بنایا گیا تھا جن کو گوانتانامو سے جلد ہی رہا کیا جانا مقصود ہوا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا اور مناسب مقدار میں کھلایا پلایا جاتا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنا وزن اور قوت دوبارہ پا لیں اور نارمل ہو جائیں۔

کیمپ چار میں قیدی اکٹھے رہتے تھے۔ وہ اکٹھے کھاتے پیتے اور نماز ادا کرتے۔ کھیل کود کی اجازت تھی۔ قیدی چاہتے تو دن میں کئی مرتبہ نہا سکتے تھے اور ہفتے میں ایک مرتبہ فلم دکھائی جاتی تھی۔ کچھ بڑوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔ عام کھانوں کے علاوہ ہمیں کھجوریں، شہد، کیک، ٹوماٹو کیچپ اور دوسری چیزیں دی جاتی تھیں۔ جبکہ دوسرے کیمپوں کے قیدی ڈبل روٹی کے ایک ٹکڑے کی چاہ میں مر رہے ہوتے تھے۔

وہاں فٹ بال کا میدان تھا، والی بال کا کورٹ تھا، پنگ پانگ کی میزیں تھیں اور ہمیں ورزش کرنے کی اجازت تھی۔ کئی صحافی، سینیٹر اور دوسرے افراد کیمپ چار کا دورہ کرنے آتے تھے، ویڈیو بنائی جاتی تھیں اور تصویریں اتاری جاتی تھیں، لیکن ہمیں ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمیں سفید وردی دی گئی تھی اور اسے دھونے کے لئے صابن۔

شروعات میں جب کسی قیدی کو کیمپ چار میں منتقل کیا جاتا تھا تو وہ اور دوسرے یہ سمجھتے تھے کہ اسے جلد رہا کر دیا جائے گا۔ حتی کہ امریکی بھی ہمیں یہی بتاتے تھے کہ کوئی قیدی بھی کیمپ چار میں ایک مہینے سے زیادہ نہیں گزارے گا کہ اسے رہا کر دیا جائے گا مگر بہت سوں کے لئے مہینے برسوں میں بدلتے گئے لیکن ہم میں سے بہت سوں کو کوئی حیرت نہ ہوئی۔ امریکی اکثر ایسی بات کا وعدہ کرتے تھے یا کہتے تھے جو کہ وہ جلد ہی بھول جاتے تھے۔

ایک مرتبہ جب میں کیوب بلاک کے مختلف پنجروں میں منتقل کیا گیا تو ایک سپاہی میرے پاس آیا اور مجھے تفتیش کے لئے تیار ہونے کا کہا۔ مجھے ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جو میں نے اس سے قبل نہیں دیکھی تھی اور مجھے کمرے کے درمیان موجود آہنی کڑوں سے باندھ دیا گیا۔ افغانوں کا ایک گروہ اندر داخل ہوا اور مجھ سے سلام دعا کی۔ وہ میرے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنا تعارف افغان حکومت کے وفد کے طور پر کروایا۔ وہ وہی سوال پوچھتے رہے جو امریکی پوچھتے تھے۔ وقتاً فوقتاً ایک امریکی عورت کمرے میں داخل ہوتی اور ان کو کاغذ کی ایک چٹ پکڑاتی یا ان کے کانوں میں کوئی سرگوشی کرتی۔ مجھے اس بات میں شبہ ہوا کہ ان کو واقعی افغان حکومت نے بھیجا تھا۔ میں نے سوچا کہ وہ ہمیں دھوکہ دینے کے لئے بنائے گئے امریکی منصوبے کا حصہ ہو سکتے تھے۔

جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کس مقصد کے لئے آئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ میری رہائی کو یقینی بنانے کے لئے آئے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ سن کر خوشی ہوئی مگر ان کے سوالات سے تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے کرید رہے ہیں۔ انہوں نے جواب نہیں دیا اور جلد ہی چلے گئے۔ بیشتر قیدیوں کو ان افراد کے بارے میں یہ یقین نہیں آیا کہ وہ افغان وفد تھے اور وہ ان کے ساتھ گالم گلوچ کرتے تھے۔

بعد میں مجھے کیمپ نمبر ایک میں منتقل کر دیا گیا اور جون 2004 میں کیمپ چار میں جہاں میں ایک برس اور تین ماہ بعد رہا ہونے تک رہا۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں

گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے

جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے

ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی

ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کا قیدی نمبر 306

ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟

ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کیمپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی

ملا عبدالسلام ضعیف غداری پر آمادہ نہ ہوئے 

ملا عبدالسلام ضعیف گوانتانامو بے میں

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے اور ریڈ کراس کا کردار

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے پہرے دار

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے میں انسانیت سوز مظالم

عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے مرتد اور جاسوس قیدی

 ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتامو – زندہ لوگوں کا قبرستان

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments