کٹاس راج۔۔۔ بھگوان نے پہاڑ پر بسیرا کیوں کیا؟


\"\"پچھلے مہینے ایک دفعہ پھرسکول کے بچوں کے ساتھ سٹڈی ٹور کے سلسلے میں 26 دیوتاؤں کی کالونی یعنی کٹاس راج کی یاترا کا موقع ملا ۔ جونہی ہماری بس منزل پہ جا کے رکی تو پہلی دفعہ سکیورٹی ہائی الرٹ دیکھ کر کچھ خوف کا احساس ہوا لیکن کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہوئی تو دل ہی دل میں اپنے جوانوں کی قابلیت اور ذ ہانت کی داد دیتے ہوئے بچوں اور سٹاف ممبرز کے ہمراہ راج کٹاس مندر کے احاطہ میں داخل ہو گئے۔

بچوں کی بہتر رہنمائی کے لیے گائیڈ کی خدمات حاصل کر لی گئیں اور یوں قافلہ اس کی رہنمائی میں تاریخ کی معلومات حاصل کرتے ہوئے چل پڑا ۔ گائیڈ حسب توفیق کو اپنے علم سے فیض یاب کرتا جا رہا تھا ۔ دوسرے لوگ تو مندروں اور ان میں مقید دیوتاوں کو دیکھتے ہوئے گائیڈ کو سن رھے تھے ۔ لیکن میرا دماغ کہیں اور الجھ کے رہ گیا تھا۔ ست گرہ، شیو ہنومان وغیرہ کے مندر دیکھنے کے بعد میں نے آگے جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور بچوں کو پرنسپل اور روسرے ٹیچرز کی رہنمائی میں باقی جگہوں کو دیکھنے کے لئے بھیج دیا۔ اور خود شیو کے مندر کی منڈیر پہ بیٹھ گئی۔\"\"

چونکہ میں کئی دفعہ ادھر آچکی تھی اور بڑی دلچسپی سے ہر چیز کا مطالعہ کر چکی تھی اس لئے معلوم تھا کہ آگے کیا ہے اور کس نے کیا کارنامے انجام دیئے ہیں۔۔۔ چونکہ اب میں اکیلی طاقتور خداوں کی بستی میں بیٹھی تھی۔ تخیل کی پرواز رواں دواں تھی ۔ سوچ رہی تھی کہ گائیڈ کس طرح احتیاط سے مقفل بھگوان جی کا چھوٹا سا دروازہ کھولتا، حسب مقدور نصب کیے ہوئے پتھر کا دیدار اور تعارف کرواتا اور اس کا کوئی کارنامہ بیان کر دیتا لیکن فوراً دروازہ بند کرنے کے بعد اس کو تالا لگانا نہ بھولتا مبادا وہ باہر آ کے اپنے سے کسی کمزور دیوتا پہ چڑھائی کر دے یا پھر کوئی خدائے برتر و واحد کو ماننے والا آکر اس بیچارے گونگے بہرے بے جان بت کو نقصان پہنچا کر ثواب دارین حاصل کر لے۔ کیونکہ ھمارے استفسار پر گیٹ پر موجود عملے نے ہائی سیکیورٹی کی وجہ تسمیہ یہی بتائی کہ صرف ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پہ تین دن پہلے دو فرقوں کے درمیان خدا کے گھر کی ملکیت کے لئے تصادم ھو چکا تھا۔\"\"

انہی لڑائیوں اور جنگوں کے بارے میں سوچتی مین گیٹ کی طرف آگئی اور اّ دھر پڑے بنچ پر بیٹھ گئی کہ سامنے البیرونی کی سنسکرت یونیورسٹی پر نظر پڑی۔ ارے۔۔۔۔ وہ تو خداؤں کی کوٹھڑیوں سے کئی گنا بڑی کھلی ھوادار، روشن اور بلند تھی کھڑکیوں اور دروازے کا سائز دیکھ کر ان کوٹھڑیوں کے سائز یاد آ گئے۔ جن میں نہ کوئی کھڑکی، روشندان یا جھروکہ تھا۔ بمشکل اندر جانے کے لئے چھوٹا سا دروازہ اور دیا جلانے کے لئے چھوٹا سا طاق اور بس۔…

نہ چاہتے ہوئے بھی دل خداؤں کے گھروں اور درسگاہ کا موازنہ کر بیٹھا ۔ بھگوان کے گھر میں ایک وقت میں بمشکل ایک پجاری اور وہ بھی کسی ایک فرقے اور اعلیٰ ذات والے کے لئے۔ کمتر لوگوں کا تو اس پر سایہ بھی نہیں پڑتا ہو گا۔ اجنبیوں کو بھی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ لیکن یونیورسٹی کے سائز کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ کم از کم پچاس لوگ تو پورے آتے ہوں گے۔ یقیناً مختلف علاقوں اور کلچر سے تعلق ہونے کے باوجود ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھتے ہوں گے۔ یقیناً کسی ایک نقطہٴ نظر پر متفق بھی ہوتے ہوں گے۔

ابھی انھی الجھنوں میں تھی کہ پولیس کے مسلح جوانوں سے بھری گاڑی مندروں کی سکیورٹی کا جائزہ لینے کے لئے پاس سے گزری۔۔۔۔ تو کچھ بات سمجھ میں آئی کہ ۔۔۔۔۔۔ ہزاروں سال پہلے لوگ مندر بہت دور ، بہت چھوٹا اور بہت اونچے پہاڑ پر کیوں بناتے تھے۔۔۔۔ ٰ

\"\"


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments