بلاگرز کی واپسی اور متوازی اقتدار پر سوالات


سلمان حیدر سمیت تین بلاگرز جو جبری طور پر گمشدہ ہوگئے تھے واپس گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ ہم سب نے اس پر سکھ کا سانس لیا ہے اور باقی گمشدہ افراد کی واپسی کی امید بڑھ گئی ہے۔ ایسی امید ہمیں ملک میں قانون نافذ کرنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار اعلیٰ ترین عہدے دار یعنی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسمبلی کے فلور پر آ کر دلائی تھی نیز پچھلے سال واحد بلوچ کی جبری گمشدگی اور ان کی بخیریت واپسی کا نمونہ بھی ہمارے سامنے تھا کہ جس سے امید مزید مضبوط ہوتی گئی کہ ان بلاگرز کو بخیریت واپس بھیج دیا جائے گا۔ مگر اس سارے سلسلے میں سوال بنتا ہے کہ ملک میں یہ کون سا متوازی قانونی نظام ہے جو لوگوں کو غیر رسمی تفتیش کے عمل سے گزارتا ہے؟

یاد رہے کہ یہ جنگل کا قانون نہیں ہے، یہ باقاعدہ متوازی قانون کا نظام ہے جس میں لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے، ان پر ٹارچر کیا جاتا ہے، ہفتوں یا مہینوں انہیں اس اذیت سے گزارا جاتا ہے اور پھر انہیں بے گناہ ہونے کی صورت واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اس سب کے بیچ میں ان کی خوب کردار کشی کی جاتی ہے اور سرکاری طور پر اس حراست کو قبول کئے بغیر اس کا دفاع غیر رسمی طریقوں پر کیا جاتا ہے جن میں سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی جاتی ہیں جن میں لوگوں کی حب الوطنی اور مذہب سے تعلق پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ سب تب بھی جاری تھا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوے دن تک حراست میں رکھنے کی اجازت تھی اور یہ تب بھی جاری ہے جب یہ قانون خاطر خواہ نتائج پیدا کئے بغیر اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ جولائی میں واحد بلوچ جبری طور پر گمشدہ ہوگئے، ایف آئی آر بھی کٹوانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔ واحد بلوچ چند مہینوں بعد واپس آگئے۔ سول سوسایٹی مسلسل پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر الزام دھرتی رہی مگر انہوں نے پراسرار خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے رکھی جس میں متعین اثبات اور انکار موجود نہیں تھا۔ واحد بلوچ جب جبری طور پر غائب کئے گئے تب پاکستان میں پی پی او کا قانون موجود تھا مگر ان کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ متوازی قانونی نظام کی موجودگی کی ذمہ دار قوتیں کسی بھی صورت قانون کے دائرے میں نہیں آنا چاہتی ہیں۔ یہ قوتیں کسی قسم کی قانونی جانچ پڑتال سے دور اور مکمل استثنا کے جزیروں میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ یہ لوگ جنہوں نے ماورائے عدالت جزا اور سزا کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے چاہتے ہیں کہ اگر ان کی تفتیش کے دوران کوئی حادثہ ہو جائے تو کوئی قانونی کارروائی نہ ہو، کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ ہو، اور کوئی میڈیا پر آکر نہ کہے کہ ’فلاں ادارے کی حراست میں فلاں فلاں جان کی بازی ہار بیٹھا، یہ دیکھئے اس کی لاش پر ٹارچر کے نشان‘۔

حالیہ واقعہ صرف ان چند بلاگرز کے لئے ناخوشگوار نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے لاتعداد لوگوں کو یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر ہئیت مقتدرہ کے خلاف آواز اٹھائی گئی، ان کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے گئے، قانون اور انصاف کی حکمرانی کی بات کی گئی، شخصی آزادیوں اور شہری حقوق کا مطالبہ کیا گیا تو انہیں آئینی حقوق سے محروم کرتے ہوئے قانون کی پامالی کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کے ساتھ ماورائے عدالت اور ماورائے نظام سلوک کیا جائے گا۔ ان کے لئے یہ ہی بہت ہے کہ ان کے ساتھی بلاگرز کو واپس بھیج دیا گیا ہے، انہیں اس بات پر سکھ کا سانس لینا چاہئے۔

تیسری دنیا میں انٹرنیٹ ابھی بھی ایک نیا ذریعہ اظہار ہے۔ تھری جی اور فور جی کی آمد سے اس تک رسائی انقلابی حد تک پھیل چکی ہے۔ ایسے میں اس پلیٹ فارم پر طرح طرح کے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مروجہ مذہبی تشریحات اور ان سے پیوستہ مفادات لئے طبقات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، حکومتوں اور اصل حکومتوں کے طریقہ کار پر انگشت نمائی کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور ایسے ہی تعلیمی و شعوری طور پر پسماندہ معاشروں میں بولنے کی آزادی اور حقوق کی بات کرنا معاشرے کے گھسے پٹے مگر تقدیس کی چادر اوڑھے رواجوں کے خلاف بغاوت سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں مذہب کی مروجہ تشریحات اور ان سے پیوستہ مفاد رکھنے والے طبقات پر آواز اٹھانا ان طبقات کے لئے بے چینی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں 2012 سے لبرل بلاگرز کی ٹارگٹ کلنگ اس کا نمونہ ہیں۔ ان معاشروں میں سوال کرنے کے حق کو تقدیس کے جبوں کی پامالی سے جوڑ کر زبانوں پر کنڈیاں چڑھائی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ہئیت مقتدرہ اور مذہبی جبہ پوشوں کا مفاد یک سمتی ہوگیا ہے۔ بلاگرز کی حالیہ گمشدگی کے دوران ہم نے اس مفاد کے اتحاد اور اس کے لئے ان کے تعاون کو خوب باریکی سے دیکھا۔ ان بلاگرز کی جبری گمشدگی کے بعد سوشل میڈیا کے مخصوص پیجز پر یہ الزام لگایا گیا کہ یہ بلاگرز توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس طرح غیر رسمی طریقوں سے ان بلاگرز کی غیر قانونی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی حب الوطنی اور مذہب سے تعلق پر سوالات اٹھائے گئے اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کیا گیا تاکہ ان کے لئے عوامی ہمدردی کے جذبات پیدا نہ ہوسکیں۔

اس سارے قضیہ کا ایک اور زاویہ یہ ہے کہ پاکستان میں بظاہر منظم دکھنے والے ریاستی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان میں ہم آہنگی کا شدید فقدان صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست کے اندر اقتدار کے متعدد متوازی مراکز پائے جاتے ہیں جو ’وار لارڈز‘ کی طرح من مانی کرتے پائے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت کا اظہار پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اسمبلی کے فلور پر کر چکے ہیں۔ دیکھئے جن ریاستوں میں آئین کو پامال کیا جاتا ہے، شہری حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے، شخصی آزادیوں پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں اور اداروں میں انحراف کی ثقافت کو پروان چڑھا کر متوازی قانونی نظام چلانے کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے وہاں ریاست در ریاست کا مظہر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ آج ہم پاکستان میں اسی مشکل کے شکار ہیں۔ یہ نظام سوائے جمہوری احتساب اور اداروں کے پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کے اصول کے لاگو ہونے کے بغیر کسی صورت بھی رول بیک نہیں ہوسکتا۔ قانون کی حکمرانی اسی میں ہے کہ من مانی پر آمادہ تمام قوتوں پر آئین اور قانون کی رٹ قائم کی جائے۔ ان بلاگرز کی گمشدگی کے اکیس دنوں کی جواب دہی ہو، واحد بلوچ سے ناانصافی کا حساب دیا جائے، ان ہزار سے زائد ماورائے عدالت مار دیے جانے والے بلوچ شہریوں کے لواحقین کی بات سنی جائے۔ امید سحر کی بات کی جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments