آئیے ولی خان سے ملتے ہیں


مادر ملت فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ اگر ولی خان میرے جلسے کی صدارت نہیں کریں گے تو میں اس جلسے میں شرکت نہیں کروں گی۔ جب سردار شوکت حیات نے یہ پیغام ولی خان تک پہنچایا تو خان صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ خان صاحب دراصل متحدہ محاذ کےکسی رہنما کوصدارت سونپنا چاہتے تھے، تاہم قائد اعظم کی ہمشیرہ کا اصرار تھا کہ صدارت ولی خان ہی کریں گے۔ 1964 کےصدارتی انتخابات کے سلسلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں ولی خان کی زیر صدارت پشاور کےاس تاریخ ساز جلسے نے ایوب خان کے اوسان خطا کردئیے۔ جلسے کے بعد یونیورسٹی ٹائون میں سردار عبدالرشید کے ہاں مقیم محترمہ فاطمہ جناح سے ولی خان جب ملنے گئے تومحترمہ کی تمام گفتگو کا محور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کا مثالی نظم و ضبط اور پرجوش اندازِ اپنائیت تھا۔ خواجہ ناظم الدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے مسلم لیگ سرحد (پختونخوا) کے صدر کو ہدایت کی ہے کہ ولی خان موجود ہیں، اب آپ کو میرے پاس مشورے کے لئے آنے کی ضرورت نہیں ۔ ولی خان نے اس اعتماد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اِن صاحب (خان عبدالقیوم خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کے دور حکومت میں دیگر مظالم کے علاوہ صرف ایک واقعہ میں بابڑہ کے مقام پر ہمارے 6سو کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں ان لاشوں پر چلتا ہوا آپ کی طرف آ یا ہو ں، لیکن چونکہ ایک طرف ڈکٹیٹر ہیں اور دوسری طرف جمہوری محاذ ، تو ہم نے ملک و عوام کی خاطر ہی فیصلہ کیا ہے کہ قربانیوں کے لئے صف اول میں ہونگے۔ تاریخ کا یہ انمنٹ باب اس صاحبِ کردار ولی خان کی یاد دلاتا ہے جن کی 26 جنوری کو تیرہویں برسی منائی جائے گی۔

اپنے والد باچا خان کی طرح ولی خان کی زندگی بھی جمہوری، آئینی و عوامی حقوق کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک کے دوران باچا خان ، ولی خان سمیت 5ہزار کارکنان جیل میں تھے۔ ان میں سے بعض کو عمر قید اور جائیدادوں کی ضبطی کی سزا بھی ہوئی۔ ان اسیروں کو اپنے صوبے سے باہر مچھ، ملتان اور ساہیوال جیلوں میں رکھا گیا تھا، ان جیلوں سے 17سرخ پوشوں کے جنازے سرحد (پختونخوا) آئے۔ ولی خان صاحب نے جب 1942میں خدائی خدمت گار تحریک سے سیاست کا آغاز کیا تو اگلے سال ہی 1943میں گرفتار ہوگئے۔ قیام پاکستان کے بعد 15جون 1948کو گرفتار ہوئے اور کسی عدالت میں پیش کئے بغیر 5سال 5مہینے 5دن پسِ زنداں رکھا گیا۔ اس موقع پر آپ کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی۔ آپ جیل میں تھےکہ فروری 1949میں آپ کے دو جڑواں بیٹوں کی ولادت ہوئی۔ ایک بیٹا اپنی ماں کے ساتھ ہی فوت ہو گیا جبکہ دوسرے کو دنیا آج اسفند یار ولی خان کے نام سے جانتی ہے۔ اہلیہ کے انتقال پر آپ کو ایک مہینے کے لئے پے رول پر رہا کیا گیا بعد ازاں 14نومبر 1953کو آپ کو فیڈرل کورٹ نے رہا کیا۔

جون 1968میں ولی خان نیپ کے مرکزی صدر بنے۔ 13نومبر کو گرفتار کرلئے گئے اور مارچ 1969میں رہا ہوئے۔ 8فروری 1975کو بم دھماکے میں حیات محمد شیر پائو کے انتقال کے بعد اسی رات لاہور سے آتے ہوئے گجرات کے قریب گرفتار کرلئے گئے اور 1977میں عدالت کے حکم پر رہائی ملی۔

حیدرآباد سازش کیس میں آپ کے خلاف 500 سے زیادہ گواہ تھےآپ جیل میں تھے اور 19 مہینے میں صرف 22 گواہ پیش ہوئے۔ اس سست روی پر خان صاحب نے جج سے کہا جناب عالی! آب حیات کا انتظام کیجئے۔ آپ خود بھی پی لیں، مجھے اور گواہوں کو بھی پلا لیں تاکہ مقدمے کے فیصلے تک سب زندہ رہیں۔ ولی خان پر چار مرتبہ قاتلانہ حملے ہو ئے۔ آپ کی جماعت نیپ پر دو مرتبہ 26 نومبر 1971 اور 9 فروری 1975 کو پابندی لگی۔ بھٹو مرحو م جب قومی اسمبلی میں قائد ایوان تھے تو آپ قائد حزب اختلاف تھے۔جب بھی آپ نے کسی حکمراں کی اصولوں کی بنیاد پر مخالفت کی تو آپ پر فوری غداری کے فتوے لگائے گئے، حالانکہ آپ کی حب الوطنی کا تو یہ عالم تھا کہ جب مشرقی پاکستان میں شورش برپا ہوئی تو شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کیلئے ڈھاکہ گئے۔ شیخ مجیب نے کہا کہ پاکستان توہم نے بنایا جبکہ آپ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے، اب آپ پاکستان بچانے کی بات کررہےہیں۔ ولی خان کا جواب تھا تقسیم ہند کے سلسلے میں ہمارا علیحدہ موقف تھا لیکن اب یہ ہمارا ملک ہے۔خان صاحب خداداد صلاحیتوں سے مالا مال اور بیدار مغز سیاستدان تھے۔ صدر ایوب کی گول میز کانفرنس میں جب شیخ مجیب کی تقریر کے بعد خطاب کے لئے ولی خان آئے تو ولی خان نے کہا کہ دراصل یہ ( شیخ مجیب )54فیصد اکثریتی آبادی کا نمائندہ 46فیصد اقلیتی آبادی کے نمائندوں سے اپنے حق کا مطالبہ کررہا ہے، جس پر شیخ مجیب نے برملا اعتراف کیا کہ جو بات میں 22صفحات پر مشتمل تقریر میں واضح نہ کرسکا اسے آپ نے ایک جملے میں بیان کردیا۔

آج پاکستانی عوام دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، لیکن جب ولی خان نے کہا کہ جو بوئو گے وہی کاٹو گے، افغانستان میں کفر اور اسلام کی نہیں، روس اور امریکہ کی جنگ ہے، تو حسب روایت ملکی و امریکی ایجنسیوں کے تنخواہ داروں نے آپ کو روس کے ایجنٹ کے طعنے دئیے۔ آج وہی عناصر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کس طرح ڈالروں و اسلحے کے ذریعے امریکہ کی خاطر نام نہاد جہاد برپا کیا گیا تھا۔ولی خان پر جس تیزی سے غداری کے الزامات لگے،اسی مستعدی سےغدار کہنے والے حکمرانوں نے اپنی ضرورت کیلئے حب الوطنی کی اسناد سے سرفراز کیا ۔اُن دنوںمعروف کارٹونسٹ یوسف لودھی کے ایک کارٹون کو بہت شہرت ملی، جس کا عنوان تھا’’ولی خان تاحکمِ ثانی محبِ وطن قرار دئیے گئے‘‘راقم کے زمانہ طالب علمی میں خان صاحب کراچی پریس کلب آئے، خطاب کے بعد ایک صحافی نے جذباتی انداز میں سوال کیا ، سناہے آپ پاکستان توڑنا چاہتے ہیں؟ ولی خان کا جواب تھا، بیٹا!آپ نے’ سنا‘ ہے میں پاکستان توڑنا چاہتا ہوں، نہ جانے کب توڑوں گا، لیکن جنہوں نے توڑ کے رکھ دیا ہےاُن کو آپ نے کیا سزا دی…؟ ولی خان کہا کرتے تھے کہ اگر ہم غدار ہیں تو کوئی یہ ثابت کرے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد کب اور کتنی مرتبہ مسلح بغاوت کی؟ ہم نے آزادی کی شمع روشن کی تو غدار ٹھہرے اور جن لوگوں نے انگریز کی چاکری کی وہ محب وطن بن گئے!

1990کے انتخابات میں جب قومی اسمبلی کی نشست پر آپ ناکام ہوگئے توآپ نے سیاست سے کنارہ کشی کا اصولی فیصلہ کرلیا، جس پر میاں نواز شریف، میر افضل خان اور رحمن اللہ خان نے آپ کو اپنی اپنی نشستوں سے الیکشن کی پیشکش کی۔ آپ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جب مجھ پر اپنے حلقے کے عوام کا اعتماد باقی نہیں رہا ، تو میں کسی اور حلقے سے کامیاب ہوکر کس منہ سے عوامی نمائندگی کا دعویٰ کروں گا ۔ایسے زریں اصولوں کو تمام عمر اوڑھنا بچھونا بنانے والے بے لوث ، بے داغ، صاحب کردار ولی خان 26جنوری 2006 کو ہم سے رخصت ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments