عمران خان کا ستارہ گردش میں


سابق گورنر جنرل اور پاکستان کے پہلے صدراسکندر مرزا اپنیBiography (سرگزشت )میں بتاتے ہیں’’قائد اعظم نے مجھ سے کہا کہ پاکستان میں نے اور میرے اسٹینو گرافر( ٹائپ رائٹر) نے بنایا‘‘ بانی پاکستان کا یہ ارشاد گرامی بھی معروف ہے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد مسلم لیگیوں نے اپنے عمل سے اس قول کو سچا ثابت بھی کیا۔ مفادات کی ایسی لہر آئی تھی کہ آئین تو نہ بن سکا، لیکن یکے بعد دیگرے حکومتیں بننے اور بگڑنے لگیں، یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی لوٹ پوٹ ہوئے ’’اتنی جلدی تو میں دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں‘‘ پھر نہایت مستعدی سے مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا۔ کنونشن، کونسل، ری پبلکن سے لیکر ق، ج اور ن تک شیرازہ بندی کی طویل داستان ہے۔ ہاں قائد کا نام و مقام، ملک و مرتبہ آج بھی درخشاں ہے۔

اب جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا تا امروز دوام بھٹو صاحب کی شخصیت ہی کے باعث ہے، سادہ سی بات تو یہ ہے کہ کیا قائد عوام، قائد اعظم سے زیادہ بڑی شخصیت تھے کہ مسلم لیگ تو مذاق بن گئی لیکن پیپلز پارٹی آج بھی ایک حیثیت کی مالک ہے ۔ وجہ ایک ہے اور بہت بڑی وجہ ہے، کہ بھٹو صاحب کے بعد میر شاہنواز، میرمرتضیٰ کی شہادتوں، محترمہ نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور معدودے چند نظریاتی اصحاب کی جدوجہد کے ذریعےاس جماعت کی تخم ریزی ہوتی رہی۔ وگرنہ سچ تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد دعوئوں کے مطابق نہ تو پنجاب کا کوئی ندی نالا سرخ ہوا اور نہ ہی ہمالیہ رویا!2008  کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کسی نظریئے یا فلسفے کی بدولت نہیں محترمہ بے نظیر کے خون کا صدقہ تھی۔ بھٹوصاحب کا نظریہ کیا تھا، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عوام کو طاقتور بنانا، تو اُن کے دور میں تو وہ وڈیرے جو ابھی تک سیاسی طور پر توانا نہ تھے، وہ طبقاتی کے ساتھ سیاسی طور بھی ایسے طاقتور بن گئے کہ آج تک مظلوم سندھیوں پر مسلط ہیں۔ جمہوریت سے محبت کا عالم تو یہ تھا کہ بھٹو صاحب پیپلزپارٹی کی 82 نشستوں کو شیخ مجیب کی 160 نشستوں سے زیادہ گردانتے تھے۔ وہ بات سیکولرازم و سوشلزم کی کرتے، لیکن اُن کے تمام اقدامات رجعت پرست قوتوں کو مضبوط بنانے کا باعث بنے، حد تو یہ ہے کہ پاکستانی مہذب معاشرے کو انتہا پسندی کی دلدل میں دھکیلنے والے گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، عبدالرسول سیاف، نبی محمد محمدی وغیرہ جیسے نام نہاد مجاہدین کو بھی 1975ء میں بھٹو صاحب ہی نے پشاور لا بسایا ۔

آصف زرداری کے نقاد کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ان دنوں عدم مقبولیت کی واحد وجہ زرداری ہیں۔ تاہم راقم کا خیال ہے کہ یہ زرداری صاحب ہی ہیں جنہوں نےبی بی کی شہادت کے بعد پی پی کو نقصان سے بچایا۔ بھٹو صاحب نے جو نظریہ دیا اُس پر وہ خود عمل نہ کرسکے، چہ جائیکہ وہ آج تک پی پی کیلئےحیات افروز ہو۔ ہم اجاگر یہاں یہ کرنا چاہتے ہیں کہ قائد اعظم کے بعد اگر مسلم لیگ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی، تو پیپلز پارٹی کیونکر محض بھٹوصاحب کے کسی ایسےنظریئے جوکہ عمل سے آج تک سامنے نہیں آسکا، پی پی اس کے سہارے آج تک زندہ رہ جاتی۔ خلاصہ یہ ہےکہ بھٹوخاندان کی شہادتوں، جہد مسلسل، آٹے میں نمک کے برابر نظریاتی جیالوں اور زرداری صاحب کے مخصوص ڈاکٹرائن کی بدولت ہی پی پی قائم ہے۔ اب جب اس تاریخی عمل میں ہم عمران خان کی سیاسی زندگی کو دیکھتے ہیں تو دوسیاسی معجزات نظرآتے ہیں، اول عوام و خواص کی بے حساب محبت، دوم ریحام خان کی رفاقت ۔ مگر خان صاحب دونوں سے سیاسی طور پربے فیض رہے۔ بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر ووٹ لئے تھے، اگرچہ وہ ان میں سے کوئی ایک بھی عوام کو نہ دے سکے بلکہ ان کے دور کے آخری ایام مہنگائی سمیت ہر حوالے سے پر آشوب تھے لیکن بہر کیف ان کو اپنی مقبولیت کیش کرانے میں ملکہ حاصل تھا۔ یوں مقبولیت میں بھٹو صاحب سے بھی آگے عمران خان عزائم کی تکمیل میں بھٹو صاحب سے کوسوں پیچھے ہیں۔

7 مارچ کے اخبارات کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ پختونخوا میں سب کچھ اچھا نہیں، ٹیم بدلنا ہوگی۔ ‘‘ مگر شاید اب دیر ہو چکی، انتخابات سر پر ہیں، ترقیاتی کام ہوئے نہیں ہیں، امدادی اداروں نے فنڈز دینے سے انکار کر دیا ہے، خزانے میں جو رقم تھی وہ دھرنوں اور جنونیوں کی نذرہوچکی۔ روایت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں کے آخری دنوں میں ترقیاتی کام کرواتی ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں اس کا فائدہ مل سکے تحریک انصاف نے مگر یہ موقع بھی قبل از وقت کھودیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ عمران خان جو ریحام خان سے شادی کے وقت مقبولیت کی بلند پرواز پر تھے۔ پھر ریحام خان کی سیاست شناسی سے گویا اس پرواز میں ہدف تک رسائی کے جوہر بھی شامل ہوگئے تھے، اس رفاقت کے ٹوٹتے ہی جیسے پرواز کے تار و پود ٹوٹ کر گرنے اور اب بکھرنے لگے ہیں۔

آپ غور فرمائیں تو یہ کوئی مشکل مشاہدہ نہیں کہ ریحام خان کے بعد خان صاحب کے عروج کا ستارہ گردش میں ہےاور مُرادوں کا دم گھٹنا ہر روز و شب کی کہانی ہے۔ بھٹو صاحب کی زندگی میں پیپلز پارٹی فنا و بقا کی کشمکش سے دوچار نہیں ہوئی، لیکن خان صاحب کی زندگی ہی میں تحریک انصاف کی شکست وریخت کے خدشات نمایاں ہونے لگے ہیں، ہاں امکانات ابھی معدوم نہیں ہوئے۔ جب ریحام خان نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اور عمران خان سے نسبت کے باوصف شہرت کی پہلی صف میں پہنچ گئیں، سیاست و سماج سے آگاہی اور معروضی حالات کے ادراک کی بدولت وہ کہیں کہیں سیاسی امور میں عمران خان پر بھی سبقت لے جاتی نظر آئیں، اس عملِ عرقِ برق کو جمود پرستوں نے خان صاحب کے سامنے دھماکے کے طور پیش کیا ہوگا۔ حالانکہ ریحام، عمران کیلئے نہیں، عمران خان کے فیصلوں پر قابض عنان گیر وں کیلئے تازیانہ ثابت ہوتی۔

قسمت کے عمل میں نہ تو کوئی دخل دے سکتا ہے، نہ ہی اس پر تبصرے درست ہوسکتے ہیں۔ ملاپ و حجاب ذاتی حرکت و سکنات ہیں لیکن جب ہر دو سیاست میں ہوں، تو پھر ان کے سیاسی مدوجزر زیر بحث رہتے ہیں۔ یوں ان دنوں جب ہر محاذ پر عمران خان کی پسپائی پر نظر جاتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اِس کی وجوہات ابن الوقت عناصر سمیت ڈھیرساری ہوں لیکن عمران خان کا ستارہ بہر صورت اُس وقت سے گردش میں ہے جب ریحام خان اورتحریک انصاف کی راہیں جدا ہوئیں…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).