اور اب قومی سلامتی پلس


\"\"

وہ دن ہوا ہوئے جب قومی سلامتی کو لوگوں سے خطرہ تھا، آج لوگوں کو قومی سلامتی سے خطرہ ہے۔
کل تک یہ اصطلاح تحفظ کی علامت بتائی جاتی تھی، مگر آج قومی سلامتی وہ کمبل ہے جس میں کوئی بھی کسی کو لپیٹ لپیٹ کر مار سکتا ہے۔

قومی سلامتی کے تصور پر کبھی ریاست کی اجارہ داری ہوتی ہو گی، آج اس نظریے کی بھی نج کاری ہو چکی ہے۔ جس کے پاس مجھے راہ سے ہٹانے کا کوئی ٹھوس جواز نہ ہو وہ آئے، مجھے قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتائے اور پھاڑ کھائے۔ جج، جیوری، مدعی، وکیل، قانون؟ آل ان ون۔

اب تو مارکیٹ میں قومی سلامتی پلس بھی متعارف ہو چکی۔ یعنی کوئی مطلوب شکار قومی سلامتی کے سادہ جال سے بچ نکلے تو پھر اس پر قومی سلامتی پلس فائر کی جاتی ہے۔ یہ پروڈکٹ توہینِ ریاست و نظریے کے مرکب سے تیار کی گئی ہے، اور اس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ قومی سلامتی پلس کے کارتوس کی مار موثر بنانے کے لیے اسے نشریاتی پیلٹ گن میں رکھ کے فائر کیا جاتا ہے۔ ہزاروں چھرے نکلتے ہیں۔ کسی کا ماضی، کسی کا حال، کسی کا مستقبل، کسی کا زہر لگتا چہرہ، کسی کی دلیل، کسی کا شجرہ، خاندان، بیوی، بچے، احباب، دانائی، بینائی، عقیدہ سب چھدتے چلے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے میدان میں کامیاب ابتدائی آزمائشوں کے بعد ان دنوں پاکستان میں قومی سلامتی پلس پیلٹ گن کے فائنل آزمائشی فیلڈ ٹرائل ہو رہے ہیں۔ امید ہے یہ پروڈکٹ جلد مارکیٹ میں ہر ہما شما کی دسترس میں ہو گی۔

مگر قومی سلامتی کو ہتھیار کی شکل دینے کے تجربے صرف ایک ملک میں تھوڑا ہو رہے ہیں۔ امریکہ چونکہ اس دنیا کا ٹیکنالوجیکل امام بھی ہے لہٰذا وہاں سے بہتر لیبارٹری کیا ہو سکتی ہے؟

اس لیب میں قومی سلامتی کے تصور کی سٹیٹ آف دی آرٹ انجینیئرنگ کا تجربہ کس قدر کامیاب ہوا ہے، اس کا سب سے موثر ثبوت ٹرمپ ہیں۔ آپ چاہیں تو انھیں قومی سلامتی کے آتشیں بطن سے پیدا ہونے والا پہلا ٹیسٹ ٹیوب پریزیڈنٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔

گاندھی جی نے تو جانے کس جھونک میں لگ بھگ 80 برس پہلے کہہ دیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا اصول مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے تو دنیا میں آخر میں بس اندھے ہی بچیں گے۔ پر آج لگ رہا ہے کہ گاندھی جی نے یہ بات جھونک میں نہیں کہی تھی۔

نہیں نہیں، بابری مسجد کا انہدام ایک اچھوتا واقعہ ہے اسے کسی شدت پسند نظریے کی مقبولیت نہیں سمجھنا چاہیے۔ نہیں نہیں مودی جی کو ووٹ ہندوتوا کے نعرے پر تھوڑی ملے ہیں، اقتصادی ایجنڈے پر ملے ہیں۔ نہیں نہیں، دگج بالی وڈ ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کو اگر چند لونڈوں نے جے پور میں شوٹنگ کے دوران کوٹ ڈالا تو یہ مطلب تھوڑا ہے کہ آرٹ اور کلچر اور اظہار کی آزادی بھی شدت پسند سوچ کے مکمل نرغے میں ہے؟

نہیں نہیں، آرمی پبلک اسکول کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا۔ نہیں نہیں، ہزارہ باشندوں کا قتل غیر ملکی کر رہے ہیں۔ نہیں نہیں، کراچی کی بدامنی کے ذمے دار اہلیانِ کراچی ہر گز ہرگز نہیں۔ نہیں نہیں امریکہ میں جتنے بھی قتلِ عام ہوئے ہیں وہ مقامی امریکیوں نے تھوڑی کیے ہیں۔ وہ تو دھوکہ دہی سے امریکی شہریت حاصل کرنے والوں نے کیے ہیں۔

بس بھائی۔ گلوبل ولیج کا ناٹک بہت ہو چکا۔ مشترکہ عالمی سچائیوں کی بنسی سن سن کے طبیعت سیر ہو گئی۔ روشن خیالی بہت جی لی۔ اب ایک بار پھر دیوار اٹھانے اور اقلیت سے اکثریت کو ڈرانے اور پھر اس ڈر کو اقلیت کے خلاف ہتھیار بنانے کا فیشن ہے۔ بیسویں صدی بھی اسی رواج سے شروع ہوئی تھی اور اب اکیسویں صدی بھی۔ ویسے ہی جیسے ہر چند عشرے بعد کھلے پائنچے اور بند گلے کا فیشن گھوم گھوم کے آتا ہے۔

کوئی بھگت چکا، کچھ بھگت رہے ہیں، باقی بھگتیں گے۔ نہیں نہیں کی تکرار بھی نہیں بچا پائے گی۔

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
(جون ایلیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments