موم بتی مافیا کی کامیابی اور مجاہدین کی ناکامی کے اسباب


\"\"

لبرل بلاگر جنوری کے پہلے ہفتے میں غائب ہوئے اور تین ہفتے بعد اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔ ان کے غائب ہونے کے کچھ دن بعد ایک مہم چلائی گئی جس میں بغیر کسی ثبوت کے یہ دعوی کیا جانے لگا کہ یہ گمشدہ بلاگر توہین آمیز سوشل میڈیا پیج چلاتے ہیں۔

بلاگرز کے غائب ہوتے ہی موم بتی مافیا ایکٹو ہو گئی۔ موم بتیاں جلا کر یہ گروہ سڑکوں پر نکل آیا۔ سوشل میڈیا پر صدائیں بلند کرنے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلمان حیدر جیسا راسخ العقیدہ شیعہ مسلمان کیسے خدا رسولؐ کی توہین کرنے والوں میں شامل ہو سکتا ہے، اگر کسی کے پاس ثبوت ہے تو جا کر کیس کر دے، ورنہ بلاسفیمی کے جھوٹے الزام مت لگائے۔

بلاسفیمی کے الزامات کا معاملہ اتنا گرم ہوا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو خود بیان دینا پڑا کہ ’بلاگرز پر بلاسفیمی کے مقدمے قائم کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے جب کہ مقدمات قائم کرنے سے متعلق خبریں مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منفی پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی تشہیر بے حسی کا واضح ثبوت ہے جب کہ بعض عناصرکا غلط معلومات کی تشہیر کا مقصد معاملے کو مزید الجھانا ہے‘۔

موم بتی مافیا کی مہم رنگ لائی اور بلاگرز گھروں کو واپس ہوئے۔ جو لوگ ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر ان الزامات کے طومار باندھ رہے تھے کہ یہ بلاگرز بلاسفیمی کے مجرم ہیں، کیا ان کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کو رسول پاکؐ سے ہرگز کوئی محبت نہیں ہے اور وہ بلاسفیمی کو برداشت کرتے ہوئے ایسا مکروہ فعل کرنے والوں کو بلا کسی مقدمے کے رہا کر رہے ہیں؟

\"\"

ان حضرات اور اینکروں کی خدمت میں عرض ہے کہ پولیس، فوج اور حکومت میں بیٹھے لوگ بھی پاکستانی ہی ہیں اور ان کی اسلام اور نبی پاکؐ سے محبت کسی دوسرے مسلمان سے ہرگز بھی کم نہیں ہے۔ ان بلاگروں کی بغیر کسی مقدمے کے واپسی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کا بلاسفیمی سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا۔

بہرحال، اب بلاگرز کی رہائی اور بلاسفیمی کے الزامات کے غلط ثابت ہونے کے بعد مجاہدین کی صفوں میں شدید بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مسنگ پرسن کے لئے ویسی کامیاب مہم کیوں نہیں چلا پائے جیسی کہ موم بتی مافیا نے اپنے لوگوں کے لئے چلائی ہے۔

ہماری رائے میں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ موم بتی مافیا کو سلمان حیدر وغیرہ کے متعلق یقین تھا کہ وہ بلاسفیمی جیسے مکروہ فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتے ہیں اور ایک بلند اخلاقی مقام سے ان کی رہائی کے لئے مطالبہ کیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان حضرات کے ملک دشمن ہونے کا شائبہ تک نہیں تھا اور نہ ہی ان پر اس شک کا سایہ تک پڑا تھا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

جبکہ مجاہدین کی صفوں کے جو لوگ غائب ہوئے ہیں، ان کے بارے میں عمومی طور پر سنگین شبہات موجود ہیں کہ وہ عملی یا فکری طور پر دہشت گردی میں ملوث تھے۔ ان میں سے کسی کا تعلق القاعدہ سے جوڑا جاتا ہے اور کسی کا دوسری دہشت گرد تنظیم سے۔ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جمہوریت کو خلاف اسلام قرار دیتے ہیں، پاک فوج اور حکومت کے بارے میں ارتداد کے فتوے جاری کرتے ہیں، تو پھر ان کی حمایت کرنے والے کیا ایک بلند اخلاقی پوزیشن سے ان کی حمایت کر سکتے ہیں؟ ان کے بارے میں یہ مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ملکی قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، مگر پھر مطالبہ کرنے والوں کے لئے ایک مضحکہ خیز صورت حال بھی پیدا ہو جائے گی کہ وہ تو اس ملکی قانون کو مانتے ہی نہیں اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں۔ ان کی حمایت کرنے والوں کے لئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پھر ان کے اپنے بارے میں بھی تحقیقات شروع ہو جائیں گی کہ کہیں وہ بھی انہیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ زیر عتاب ہیں؟ ان گمشدہ لوگوں کے بارے میں موم بتی مافیا کی عاصمہ جہانگیر تو سرِعام صدا بلند کر سکتی ہے کہ اس کا اپنا دامن صاف ہے، مگر مجاہدین کی اپنی صفوں سے یہ صدا بلند ہونی دشوار ہے۔ اسی وجہ سے وہ سات سمندر پار قید عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے تو جلسے جلوس نکال سکتے ہیں مگر باقی جگہوں پر ان کے پر جلتے ہیں۔

\"\"

موم بتی مافیا کی کامیابی کا سبب یہ ہے کہ اس کا دامن صاف ہے۔ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے۔ وہ سوچ سمجھ کر پریشر ڈالنا جانتی ہے۔ موم بتی مافیا کو علم ہے کہ جدید ریاست کیسے کام کرتی ہے اور کیسے اس کے سامنے اپنا مطالبہ موثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ اندھی جذباتیت دکھانے کی بجائے منطقی انداز میں کام کرنا جانتی ہے۔

ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ موم بتی مافیا کے افراد پہلی مرتبہ غائب ہوئے ہیں اور بخیر و عافیت اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ موم بتی مافیا کے بے شمار افراد مرد حق ضیا الحق کے دور میں شاہی قلعے کی عقوبت گاہوں میں ایک طویل مدت تک غیر انسانی تشدد برداشت کرتے رہے تھے اور ان میں سے کئی صرف اپنے ابدی گھر، اپنی قبر میں ہی واپس لوٹے تھے۔ اب تاریخ نے فیصلہ سنایا ہے کہ شاہی قلعے کی عقوبت گاہوں میں جانے والے ہی وطن کے اصل دوست تھے۔

مجاہدین سے بس یہی عرض ہے کہ اپنے بندے ٹریفک سگنل اور گاڑیوں کے شیشے توڑنے سے رہا نہیں ہوتے، اس کے لئے ان کی معصومیت پر یقین کے ساتھ غیر جذباتی اور پر امن حکمت عملی بھی درکار ہوتی ہے۔ اپنا دامن صاف ہو تو ہمت آ ہی جاتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar