انکل سام اور ان کی پیاری سی آنٹی صائمہ


\"\"

امید ہے آپ لوگ خیریت سے خوش و خرم کسی کو برباد کرنے کی ترغیبیں تیار کررہے ہوں گے، سازشوں کے جال بچھا دیے جا چکے ہوں گے، ظاہر ہے، سازشیں آپ نے مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے خلاف ہی کرنی ہیں۔ پتہ نہیں ہم سے آپ اتنا جلتے کیوں ہیں۔ خیر جلنے والے کا منہ کالا، جس نے ہمیں ستایا اس نے ٹرمپ کو ہی صدر پایا۔

انکل آج کل پاکستان میں آپ کے اور آنٹی صائمہ کے معاشقے کے خوب چرچے ہیں، سننے میں تو یہ بھی آرہاہے کہ آپ نے آنٹی صائمہ کو اب کی بار بستیاں کی بستیاں تحفے میں دے دی ہیں، ہاں ہاں وہی، فلسطین والی غیر قانونی بستیاں۔ حیرانی ہے انکل یہ آپ اچانک سے ملک ریاض کیوں بننے چلے ہیں، مکان وغیرہ اکثر وہی بانٹا کرتے ہیں وہ بھی بلکل مفت، آپ نے تو دو ہاتھ آگے جاکر، بستیاں ہی بانٹنا شروع کردیں۔

انکل سنا ہے، آپ دونوں کے افیر سے امریکا کے دانشور اور اشرافیا تو تڑپ ہی رہے تھے، مگر اب جمہوریت بھی خوب سسک رہی ہے۔ امریکا کے صدر کی تقریب حلف برداری کے بعد، مہذب، جمہوری معاشرے کے عوام کو بڑی بڑی گاڑیوں کو نظر آتش اور شاپنگ مالز کو لوٹتے دیکھا تو دل خوش ہوگیا، پولیس کی پکڑ دھکڑ اور امریکا کی سڑکوں پر انکل اور آنٹیوں کی ہلڑ بازی دیکھنا بھی ایک اچھی تفریح تھی۔

آپکے سابق صدر اور نائب صدر کو پیسوں، خرچوں وغیرہ کا رونا روتے دیکھا تو حیرانی ہوئی، آپ ہی بتائیں یہ ڈرامہ تھا نا؟ اوباما کا ڈرامہ؟ بھلا کیسے کوئی امریکا کا صدر ہوتے ہوئے بھی وائٹ ہاؤس کے کھانے پینے یہاں تک کہ ٹشو کا بل بھی اپنی جیب سے دے سکتا ہے؟ ایسا کیسے ممکن ہے کہ نائب صدر کے پاس بیٹے کے علاج کے لئے پیسے ہی نہ ہوں؟ ہمارے یہاں تو سیاستدانوں کے ملازمین بھی آپکے رہنمائوں سے بہتر ہیں۔ کتنی کامیابی سے پیسہ بناتے ہیں، اور ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوپاتی۔ حیرانی تو یہ بھی ہے کہ امریکا کے صدر پر نا طاقت کے غلط استعمال کا مقدمہ بنا نہ ہی کرپشن کا، کوئی جھوٹا ہی بن گیا ہوتا۔ مگر نہیں!

انکل قدرت نے اس دنیا میں سرحدیں تخلیق نہیں کی تھیں مگر ہم نے خیر سے یہ کام بھی کر ڈالا۔ نتائج جس کے سنگین آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ مبارک ہو آپ کو، آپ کے صدر نےتو سرحدوں پر دیواریں تقسیم کرنے کی ریت کو بھی فروغ دینے کی ٹھان لی ہے۔ میں اس معاملے میں ابہام کا شکار ہوں، آپ ہی میری پریشانی دور کریں۔ کمینگی سرحد پر دیوار تعمیر کرنا ہے یا، اس دیوار کا خرچہ بھی کمزور ملک سے وصول کرنا؟

انکل آپکو تو معلوم ہے، آپکی الفت میں ہمارے یہاں نعرہ لگا کرتا ہے۔ گو امریکا گو، گو امریکا گو۔ لگتا ہے نئے امیگریشن قوانین کے بعد یہ نعرہ بھی دم توڑ ہی جائے گا کہ اب امریکا جانے کا تو خواب بھی نہیں دیکھنا۔ الٹا جو عوام وہاں خیر سے جاچکے وہ پاکستان اس خوف سے نہیں لوٹ رہے کہ کہیں امریکا دوبارہ جانے پر صدر صاحب با نفس نفیس ایئرپورٹ پر خود انہیں روک کر، پاکستان ڈیپورٹ نہ کردیں۔

انکل سام جنید کی اماں نے اپنی زمینیں بیچ کر اپنے بیٹے کو پڑھنے اور کام کرنے امریکا بھیجا تھا، وہ کل بہت پریشانی کے عالم میں پوچھ رہی تھیں، آپ کہیں ان کے بیٹے کو واپس تو نہیں بھیج دیں گے، یا پکڑ کر جیل میں تو نہیں ڈال دیں گے۔ انکل مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں نے یقین دہانی کروادی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ آپ سے بس یہی التجا تھی پلیز ایسا نہیں ہونے دیجئے گا۔ اب کی بار عزت رکھ لیں، اگلی مرتبہ ہم جنید کو امریکا نہیں کسی اور ملک بھجیں گے، جب تک وہاں بھی ٹرمپ نہیں آجاتا۔

آپکا احسان مند

محسن شہباز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments