امریکی ٹرمپ اور ہمارا اپنا دیسی ٹرمپ


\"\"

آپ نے حضرت موسیٰ ؑ کی کہانی میں تو پڑھا ہی ہوگا کہ جوتشیوں کی انتباہ پر فرعون نے پیدا ہونے والے بچوں کی جنس دیکھ کر مردانہ صفت کے حامل نومولود ہلاک کردیے تھے اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اسرائیل کے وزیر اعظم نے ایک بات سمجھا دی ہے کہ اگر افریقہ والے جعلی مبارک حسین امریکہ کے صدر ہو سکتے ہیں تو ایران، سوڈان شام اور یمن والے اصلی مبارک حسین کیوں کر نہیں ہو سکتے اس لئے ان ممالک سے ہر قسم کی انسانی درآمد پر ہی پابندی لگائی جائے۔ دونلڈ ٹرمپ مسلمان شہریوں کے لئے نئی رجسٹریشن کا بھی ارادہ رکھتے ہیں جس پر رد عمل کے طور پر میڈلین البرائٹ نام کی مشرقی یورپ کی مہاجر اور سابق امریکی وزیر خارجہ نے بھی خود کو بطور مسلمان درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ میڈلین البرائٹ کے بطور خارجہ امریکی پالیسیوں سے ناخوش حلقوں کا رد عمل ابھی نہیں آیا اس لئے ان کے اس اعلان کی ستائش جرم نہیں سمجھا جائے گا۔ کئی لوگوں نے امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے طور پر اسلام علیکم کہنا اور کئی ایک نے احتجاجاً مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی باجماعت نماز پڑھنا شروع کیا ہے ۔ چونکہ ایسی زبردستی کے سلام اور بغیر وضوع کی نمازوں پر ابھی تک کوئی فتویٰ صادر نہیں ہوا اس لئے ہمارا تبصرہ بھی محفوظ ہے۔

امریکہ بھی عجیب ملک ہے جہاں دوسرے سیاروں میں رہنے والوں کو دیکھنے کے دعوے ہر وقت کیے جاتے ہیں لیکن وہاں کے اصل باشندوں کو دوربین اور خوردبین سے بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس ملک میں باہر سے آکر آباد ہونے والوں کو امریکی کہا جاتا ہے اور امریکہ کے اصل باشندوں کو انڈین کہتے ہیں۔ یورپ کا مفرور، ایشیا کا مہاجر اور افریقہ سے غلام بنا کر لایا جانے والا تو یہاں کا صدر بن جاتا ہے لیکن کسی اصلی امریکی باشندے کو وزیر یا مشیر بنتے بھی کسی نے نہیں دیکھا۔ امریکہ کی زبان ہزاروں میل دور دنیا کے دوسرے کونے میں تو سمجھی، بولی اور لکھی جاتی ہے لیکن یہاں کے اصل باشندے اس زبان سے ناآشنا ہیں۔ یہاں سب سے پہلے پہنچنے والے سفید فام یورپی باشندوں کے آتشیں اسلحے کی تباہ کاریوں سے بچنے والے ان کے دراآمد کردہ نئے جراثیم کی تاب نہ لاسکے اور لاکھوں کی تعداد میں یہاں کے مقامی باشندے باہر سے لائی جانے والی بیماریوں کے شکار ہوئے۔ شاید تہذیب یافتہ یورپیوں نے اس سے سیکھ کر حیاتیاتی جنگ کا سامان کیا جس میں بغیر آتش باری ہزاروں لاکھوں مر جاتے ہیں اور حملہ آور کا پتہ نہیں چلتا اور نہ بدنامی ہوتی ہے۔ اپنی تاریخ کے بد ترین آگ اور خون کے دریا سے گذر کر جو اصل امریکی باشندے بچ گئے ان کو باہر سے آنے والوں نے اگر کمال مہربانی سے 1924 میں امریکی شہریت نہ دی ہوتی تو وہ آج بھی اپنےہی وطن میں بیگانے ہوتے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم من حیث القوم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی سامراج، انکل سام، یہود و نصٰاریٰ جیسے الفاظ ہمارے ہاں کسی تعصب یا نفرت کے زمرے میں ہی نہیں آتے۔ جمعہ و عیدین پر ہمارے منبر سے ان پر تبرا بھیجے بغیر ہماری نماز ہونے میں شک سا ہوتا ہے تو کم از کم آخر میں دعا مانگتے ہوئے ہم امت مسلمہ کے لئے ان کی شر سے نجات ضرور مانگتے ہیں۔ کیا کیجئے یہ ہیں ہی اس قابل کہ ان کو اپنے ملک میں گھسنے نہ دیا جائے۔ جب غلطی سے کوئی بھولا بسرا کوہ نوردی یا کوہ پیمائی جیسے مغربی شغل میں حصہ لینے آ بھی جائے تو اسلام آباد سے گلگت تک لگی درجنوں چیک پوسٹوں پر اس کو گاڑی سے اتار اتار کر اس کا شجرہ نسب پوچھ پوچھ کر اس کی وہ حالت کردی جاتی ہے کہ پاک سر زمین پر دوبارہ آنے کی غلطی نہیں کرتا اور واپسی میں اپنے ہم وطنوں کو نصیحت بھی کرجاتا ہے کہ نیپال جاؤ، بھوٹان جاؤ مگر کے۔ ٹو اور سندھ ساگر کی سرزمین مت جانا۔ ہم یہ بر ملا کہتے ہیں کہ وہ صرف اپنے ڈالر بھیج دیں ہمیں ان کے وجود کی یہاں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سولات زیادہ پوچھتے ہیں اور خود کسی بات کا جواب نہیں دیتے حتیٰ کہ سلام کا بھی نہیں۔ ہر وقت شفافیت، ضوابط اور قاعدے کی باتیں کرتے رہتے ہیں ان کو معلوم ہی نہیں کہ ایک مسلمان پیدا ہی حق پر ہوتا ہے اور وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا تو وہ کون ہوتے ہیں ہماری نیتوں پر شک کرنے والے اور ہماری کارگزاری پر اعتراض کرنے والے۔ ہماری زمین ہے ہمارا اختیار ہے جومرضی کریں وہ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے ہم ان کے غلام تھوڑی ہیں۔

ہم سب اس بات پر بھی متفق ہیں کہ یہود و نصاریٰ روز اول سے ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ وہ پولیو نام کی ایک معمولی سی بیماری کے روک تھام کے بہانے ہماری نسل بندی سے لے کر ہمارے نوجوانوں کو تعلیمی وظائف کے نام پر اپنے ہاں لیجا کر ان کے ایمان کو خراب کرنے اور اپنے رنگ ڈھنگ میں ڈالنے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں۔ ہمارے ہاں انسانی حقوق اور تعلیم، صحت اور صفائی جیسی فضولیات پر کام کرنے والی مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز اور ان کے کاسہ لیس موم بتی مافیا سب ہماری قومی سلامتی کے دشمن ہیں اور ہماری دن دوگنی رات چوگنی ایمان افروز ترقی ان سے برداشت نہیں ہوتی اس لئے وہ بھی سازش میں اپنے آقاؤں کے ساتھ ہیں۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں ہم ان کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔

اب تو ہمارے خان صاحب نے بھی کہہ دیا ہے کہ نئے پاکستان کے بنانے میں دراصل امریکی ویزے ہی مانع ہیں۔ یہ امریکی ویزے ہی ہیں جس کی وجہ سے نئے پاکستان بنانے والے سب امریکہ چلے گئے اور یہاں پرانے پاکستان کے حامی رہ گئے جو نئے پاکستان بنانے کہ راہ میں رکاوٹ ہیں۔ خان صاحب کی دلی خوہش رہی ہے کہ سمندر پار روشن خیال پاکستانیوں کو ووٹ کا حق یہاں کے رہنے والے ان پڑھ لوگوں سے زیادہ ملے جو پاکستان کو سیاسی کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ان کو اکثریت دلا سکیں۔ خان صاحب کو جی ٹی روڑ کے بعد امریکہ ہی نزدیک لگتا ہے جہاں اس کے ٹویٹر سے دیے جانے والے بہ زبان انگریزی پیغامات کو سندھ اوربلوچستان میں رہنے والوں سے زیادہ سمجھا جاتا ہے اور نتیجتاً لوگ وہاں سےووٹ دیے بغیر ہی نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ امور خارجہ کے نابغہ یکتا اور امریکی سامراج کے ازلی دشمن شاہ محمود قریشی کی مشاورت اور بڑی سوچ سمجھنے کے بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ویزے اپنے پاس رکھے اور پاکستانیوں کو بالکل ہی نہ دیے جائیں۔ ویسےڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی ویزوں پر اٹھائے گئے اقدام پر ایرانی حکومت کے بعد خان صاحب کے اس انوکھے سفارتی رد عمل پر دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد نے تبصرے شروع کر دیے ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی خیبر پختون خواہ کی جامعات خان صاحب کے الفاظ کو سنہری حروف میں لکھ کو طلبہ کو پڑھا نا شروع کردیں گی اور سرکاری نوکری کے لئے ٹسٹ اور انٹرویوز میں امید واروں سے اقوال کپتان پوچھے جائیں گے اور صرف صحیح جواب دینے والوں کو ہی مسند افسر شاہی پر بٹھادیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے کیا نتائج نکلیں گے اس کا احوال تو واقفان حال ہی بتایئں گے مگر ایک بات ہم بتائے دیتے ہیں کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے لوہے کو کاٹنے کے لئے ہم اپنے ڈونلڈ ٹرمپ سامنے لائیں گے جو سوا سیر ہوں گے اور ان کی ہر بات کا منہ توڑ جواب فوراً ہی دیں گے ۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments