کینیڈا میں مسجد پر حملہ


 

کل رات عشا کی نماز کے دوران کینیڈا کے صوبے کیوبک کے صدر مقام کیوبک سٹی کی جامع مسجد پر دو افراد نے فائرنگ کرکے چھ لوگوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا۔ چھ زخمیوں کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔ \"\"کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور کیوبک کے وزیر اعظم فلپ کوئیلارڈ نے اسے دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔ دونوں لیڈروں نے اسے کینیڈا کے لئے افسوسناک دن قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملک کو محفوظ بنانے اور تخریبی عناصر کا قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے۔ یہ حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات ملکوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی کے حکم نامہ کے دو روز بعد ہؤا ہے۔ ٹرمپ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ کینیڈا کے دروازے ظلم اور تشدد کا شکار لوگوں کے لئے کھلے ہیں۔

کینیڈا کی حکومت نے کل یہ اعلان بھی کیا تھا کہ جو لوگ امریکی پابندی کی وجہ سے مختلف ہوائی اڈوں پر پھنس گئے ہیں انہیں کینیڈا میں عبوری پناہ دی جائے گی۔ کیوبک پولیس نے اس معاملہ کی دہشت گردی کی واردات کے طور پر تفتیش شروع کی ہے اور دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ابھی ان کی شناخت کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی کسی گروپ نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی جارہی ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق شام سے تھا اور وہ دو ہفتے قبل ہی پناہ گزین کے طور پر کینیڈا پہنچے تھے۔ یہ افواہ بھی موجود ہے کہ ایک حملہ آور نے نمازیوں پر فائرنگ کرتے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ حملہ آور عشا کی نماز کے وقت مسجد میں داخل ہوئے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ فائرنگ کی زد میں مسجد میں موجود خواتین بھی آئیں۔ مرنے والوں کی عمریں 35 سے 70 برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔

کینیڈا کے صوبہ کیوبک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں۔ اسلامک کلچر سنٹر کی جس مسجد پر آج رات حملہ کیا گیا ہے ، اس کے باہر گزشتہ برس جون میں نامعلوم لوگ سؤر کا سر رکھ گئے تھے۔ مسجد کی انتظامیہ کے صدر محمد بنگوئی کا کہنا ہے کہ اس افسوسناک واقعہ کے باوجود وہ محفوظ محسوس کرتے تھے اور انہیں اس قسم کے حملہ کا اندیشہ نہیں تھا۔ گزشتہ برسوں کے دوران نقاب اور برقع پر پابندی کے حوالے سے بھی کیوبک اور کینیڈا میں سنگین مباحث ہوتے رہے ہیں ۔ اور ملک میں دہشت گرد حملے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ 2014 میں ایک شخص نے کینیڈین پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اس شخص کے باپ کا تعلق لیبیا سے تھا اور وہ 2004 میں مسلمان ہؤا تھا۔ کینیڈا کے بعض مسلمان گروہ مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیتے رہے ہیں۔

اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ امریکی صدر کے تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کا ا س حملہ سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے ۔ تاہم ٹرمپ جو انتہائی فیصلے کررہے ہیں اور وہ جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے شمالی امریکہ کے ملکوں میں مسلمان دشمن رویوں کو تقویت ملی ہے۔ سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر پابندی کے خلاف یورپ کے لیڈروں نے خاص طور سے احتجاج کیا ہے کیوں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے اس بر اعظم میں بھی مسلمان دشمن قوم پرست گروہ قوت پکڑیں گے اور تصادم کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اس کا مظاہرہ یورپ کے کئی ملکوں میں ایسے سیاسی گروہوں کی ذبردست مقبولیت کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے دہشت گردی کو عذر بنا کر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پرپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس قسم کے گروہوں کو ایک دہائی قبل معمولی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل تھی لیکن اب اکثر یورپی ملکوں میں ان کی مقبولیت اور پذیرائی میں اس قدر اضافہ ہؤا ہے کہ وہ سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا اختیار حاصل کرسکتے ہیں۔ نیدر لینڈ میں مسلمان اور تارکین وطن دشمن منشور پر انتخاب لڑنے والی فریڈم پارٹی اور اس کے لیڈر گیرٹ وائیلڈرز اس وقت رائے عامہ کے جائزوں میں سر فہرست ہیں۔ مارچ میں ہونے والے انتخابات میں انہیں اتنی نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں کہ وہ حکومت بنانے کے قابل ہو جائیں۔ اسی طرح فرانس کے نیشنل فرنٹ کی لیڈر مارینا لی پین صدارتی انتخاب میں8 مضبوط امید وار ثابت ہوسکتی ہیں۔

کیوبک کی مسجد پر حملہ کرنے والے لوگ اگر مسلمان بھی نکلتے ہیں تو بھی یہ اندیشے درست ثابت ہوں گے کہ صدر ٹرمپ جیسے لیڈر سخت گیر لب و لہجہ اختیار کرکے اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی اقدامات کرکے انتہا پسند عناصر اور دہشت گرد گروہوں کی طاقت میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے انتشار، بد اعتمادی اور تعصب میں اضافہ ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کے درمیان انتہا پسند رجحانات کو تقویت ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments