صلیبی سازش کی ناکامی اور امریکی ویزا پابندی


\"\"

سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک دھڑا دھڑ مسلمانوں کو ویزے کیوں دے رہے تھے؟ جب مشرق وسطی کے امیر برادر اسلامی ملک شامی مہاجرین کو ویزے دینے سے انکاری تھے تو کیوں جرمنی دس لاکھ مسلمانوں کو ویزے دینے پر تلا ہوا تھا؟ یہ امریکی اور یورپی صلیبی بے شمار مسلمانوں کو اس لئے ویزے دے رہے تھے کہ تاکہ ان کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے پراپیگنڈے اور ڈالروں کے ڈھیر دکھا کر ان کو مسیحی بنا لیں یا کم از کم اپنا زرخرید ایجنٹ ہی بنا لیں۔

لیکن کفار اپنی چالیں چلتے ہیں تو قدرت انہیں الٹ دیتی ہے۔ جب دنیا بھر کے غربت اور جبر و ظلم کے مارے مسلمان ادھر مغرب میں آباد ہوئے تو آہستہ آہستہ ان کی آبادی بڑھنے لگی۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے آبائی ملکوں سے اپنی پوری پوری برادری وہاں سیٹل کروا لی بلکہ ان کی آل اولاد میں بھی خدا نے اتنی برکت دی کہ جہاں کفار کے گھر بمشکل ایک بچہ پیدا ہوتا تھا تو وہاں اہل ایمان کے گھر پانچ دس بچے بہ آسانی پیدا ہو جاتے تھے اور یوں مغرب میں مسلمانوں کی تعداد میں دن دگنی اور رات چوگنی برکت پڑتی رہی۔

\"\"

تعداد بڑھی تو مسلمانوں میں چند حمیت والے جوان اٹھے اور اپنے علاقوں سے کفار کی پولیس کو بھگا کر شریعہ پیٹرول کے نام سے اپنی پولیس بنا لی۔ شریعہ پیٹرول نے گمراہ گوروں کو پکڑ پکڑ کر سمجھانا شروع کیا کہ دیکھو یہ شراب نوشی اچھی چیز نہیں ہے، ملکی قانون تمہیں جتنی گمراہی کی اجازت چاہے دے، مگر تم نے اس علاقے میں رہنا، بلکہ یہاں سے گذرنا بھی ہے تو تم شراب سے دور رہو۔ قمار بازی مت کیا کرو۔ منشیات استعمال مت کرو۔ موسیقی مت سنا کرو۔ پرائی عورتوں کے ہاتھ پکڑ کر مت گھوما کرو اور چوما چاٹی مت کیا کرو۔ فحش فلمیں مت دیکھا کرو اور سر عام چلتے پھرتے یوں ان فلموں کی نقل مت کیا کرو۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور اس ملک میں تم نے رہنا ہے تو ویسے رہنا ہو گا جیسے سعودی عرب میں مسلمان رہتے ہیں۔

اسی طرح ہم جنس پرستی اور دیگر اخلاقی جرائم کا بھی بزور قوت سدباب کیا جانے لگا۔ وہ لوگ چیختے چلاتے رہے کہ ہمارے ملک کا قانون ہمیں ان اخلاقی جرائم کی اجازت دیتا ہے تو تم کون ہوتے ہو اپنا قانون ہم پر لاگو کرنے والے، مگر ان کی فلاح کے خواہاں رحم دل نوجوانوں نے ان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے تا وقتیکہ وہ اس علاقے میں ان مکروہ جرائم سے تائب نہ ہو گئے۔

\"\"

اسی طرح جمہوریت نامی گمراہ کن نظام کے خلاف بھی آگاہی کی مہم چلائی گئی اور کفار کو قائل کیا گیا کہ جمہوریت چھوڑ دو، ووٹ ڈالنا حرام ہے، اس کی بجائے ہمارے لیڈر کو حکمران مان لو، وہ بخوشی تمہاری ملکہ کی بجائے تمہارا خلیفہ بن جائے گا۔ بدقسمتی سے سارے ووٹر اس طرح قابو نہ آ سکے جس طرح اس علاقے سے گذرنے والے یہ شرابی اور زانی قابو آئے تھے اور یوں جمہوریت بچ گئی۔

نامناسب مغربی لباس میں ملبوس گوریوں کو بھی وہ سمجھاتے بجھاتے کہ بی بی دیکھو یہ سب کچھ یہاں نہیں چلے گا، یہاں سکرٹ بلاؤز وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ پہننا ہی ہے تو عبایا پہنا کرو۔ ورنہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلو گی۔ کئی گمراہ خواتین تو تریا ہٹ پر تلی ہوئی تھیں۔ چیخنے چلانے لگیں کہ یہ ہمارا ملک ہے، ہمارے اپنے قانون ہیں، ہم یہاں اپنے قانون کے تحت رہیں گے، تم کون ہوتے ہو ہمیں کچھ کہنے والے۔ ان کو راہ راست پر لانے کے لئے ان سے مناسب سلوک کیا گیا تو وہ جان بچا کر فرار ہو گئیں اور جا کر پولیس کو شکایت لگا دی کہ ہمیں بلاوجہ زد و کوب کیا گیا ہے۔

\"\"

صلیبیوں کی بے بسی دیکھنے والی تھی۔ کہاں تو وہ مسلمانوں کو مغرب میں لا کر اپنا ایجنٹ یا مرتد بنانا چاہتے تھے، اور کہاں یہ حال ہوا کہ الٹا گورے ہی مسلمان بن کر شریعہ پیٹرولنگ کرنے لگے۔ اپنی سازش کے ناکام ہونے پر وہ کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچنے پر اتر آئے ہیں۔

اب جرمنی نامی ملک کی عدلیہ تو کچھ شرم حیا والی تھی۔ اسے تشدد کا ثبوت نہ ملا تو اس نے شریعہ پیٹرول کی گروہ بنا کر برائی سے روکنے کی اس نیک مہم کو آزادی اظہار کے حق کے تحت جائز قرار دے کر ان مجاہدین کو رہا کر دیا مگر برطانوی صلیبی نہایت ہی شیطان ہیں۔

انہوں نے ان نیک دل نوجوانوں کو اندر کر دیا اور نہ جانے ان کے ساتھ کیا کیا ظلم کیا کہ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ بہک گئے تھے اور شدت پسندوں سے متاثر ہو گئے تھے ورنہ وہ تو صلیبی قانون کو مانتے ہیں اور اب انہیں علم ہو گیا ہے کہ دین میں جبر نہیں۔

ویسے یہ کفار نام نہاد آزادی اظہار کے پرچارک تو بنے رہتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر شخص کو اس کے \"\"عقیدے پر چلنے کی ہمارا سیکولر قانون پوری ضمانت دیتا ہے۔ مگر اصل میں وہ پکے منافق ہیں۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے۔ اس میں تو کچھ بحث ہے کہ اسلامی حکومت ہی جہاد کا حکم دے سکتی ہے یا ہر فرد ذاتی طور پر بھی قتال کر سکتا ہے مگر حکم تو بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مغرب میں تو اسلامی حکومت نہیں ہے، تو پھر وہاں انفرادی طور پر جہاد کرنے اور کفار کو قتل کرنے کی اجازت بنتی ہے، لیکن جب یہ مسلم مجاہدین ادھر جہاد و قتال شروع کرتے ہیں جو کہ ان کے نزدیک ایک مذہبی فریضہ ہے تو یہ شریر کفار ان معصوموں کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھِی ان کو عمر قید دے دیتے ہیں، کبھی پھانسی چڑھا دیتے ہیں تو کبھی ان کو اپنے ملک سے نکال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاؤ واپس اپنے ملک، آئندہ ہم تمہارے ملک والوں کو ویزا تک نہیں دیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments