مقامی سنیاسی کی نیچی پرواز اور تفرقے کے بین البراعظمی میزائل


\"\"لو بھائی چھٹیاں ختم ہو گئیں۔ غالب کا ایک مصرع خواب میں تھا…. میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں…. تعبیر نوح ناروی کے ہاں سے دریافت ہوئی…. نارے سے چلے نوح تو آرے آئے…. رائے وارث علی سابق انسپکٹر پولیس تحصیل موگہ بعد از تقسیم مقیم قادر پور راواں فرمایا کرتے تھے کہ ’کیس پیچیدہ ہو گیا ہے‘۔ اس منظر میں کچھ منجدھاریں مقامی ہیں اور کچھ منہ زور دھارے بین البراعظمی۔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز….

امریکا میں ٹرمپ صاحب کا اوول آفس میں ورود ایک اضطراری واقعہ نہیں۔ روس میں پوٹن متمکن ہیں۔ دہلی کے سنگھاسن پر نریندر مودی ہیں۔ یورپ میں برطانیہ کی ای یو سے علیحدگی نے وحشت پھیلا رکھی ہے۔ شمالی کوریا، ایران اور ترکی میں عقابی رجحانات غالب ہیں۔ چین کی توجہ تجارت پر ہے اور عالمی منظر پر تجارت محض طلب و رسد کا سادہ معاملہ نہیں ہوتی۔ اول اول چلے منجملہ اداب جو بات، آخر آخر وہی تعزیر بنی ہوتی ہے۔ ایسے میں سوت کی ایک انٹی ہم نے بھی بازار میں لگا رکھی ہے، اسی کے بل پر جولاہے سے لٹھم لٹھا ہوا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے بڑے طمطراق سے امریکا کو دھتا بتا کر نئے حلیف دریافت کئے تھے۔ اب امریکا خود ایک جوالا مکھی کے دہانے پر آن بیٹھا ہے۔ وسیع تر منطق کی روشنی میں چلنے والی عالمی طاقت سے کاروبار کرنا کار دگر تھا۔ اب ہوا کے گھوڑے پر سوار ڈان کیخوٹے سے کیا معاملہ کرنا ہو گا۔ ایک صورت تو یہ کہ اوقیانوس کے پار بھنبھنانے والے ہر مچھر کو ہاتھی بتایا جائے اور اپنی ترک تازی کی داد دی جائے۔ ماندگان شب رفتہ کے لئے اس میں بہت کشش ہے لیکن اس میں ہوتا ہے بہت جی کا زیاں…. ایک دوسرا راستہ بھی ہے مگر…. ہم نے اسی راستے کو تیغہ کرنے کے لئے کدال اٹھا رکھی ہے۔

پانامہ لیکس کے گھوڑے کو چابک محض اس لئے لگائے جا رہے ہیں کہ مرے پر سو درے کی حجت تمام ہو جائے۔ اس کشاکش کا میدان تبدیل ہو چکا۔ کچھ مقامات سامنے ہیں اور کچھ واقعات اخفا کی اوٹ میں۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں کچھ بلاگرز اغوا کئے گئے۔ سنا ہے ان میں سے کچھ آ ملے کنارے پر…. بازیافتگان حسب دستور لب بستہ ہیں۔ ایک جرم ہوا لیکن اس کی نشاندہی کی کسی کو تاب نہیں۔ پھر نمبردار کا نیلا ہونے کی شہرت رکھنے والے ایک اینکر پر پابندی لگی۔ ابھی بات کھلی نہیں لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ دو طرفہ یورش کسی انفرادی کوتاہی کی بجائے ادارہ جاتی زاویے رکھتی ہے۔ بیانیے کی جنگ میں میڈیا لڑائی کا میدان بن رہا ہے۔ ایک نکتہ توجہ طلب ہے۔ قوم پرست معیشت، سیاسی دروں بینی اور اخلاقی موقف سے روگردانی کی ہر کوشش اپنے حلیف ڈھونڈ لیا کرتی ہے۔ مسولینی، ہٹلر اور سٹالن سیاسی بندوبست کی مختلف نوعیت کے باوجود ایک دوسرے کے لئے سہارا ثابت ہوئے۔ نیورمبرگ قوانین کا خالق ہٹلر ماسکو ٹرائل کی مزاحمت کیوں کرتا؟ گولاگ کے معمار سٹالن کو پولینڈ اور بوخن والڈ سے پریشانی کیوں ہوتی؟ جاننا چاہیے کہ قوم، نسل، طبقے یا مذہب کے نام پر تصادم میں جو فرد انسانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اس کے لئے فلسفے کی بحث، تاریخ کا ارتقا اور بعد از جنگ معیشت معانی کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم فانی انسان اس عظیم ہجوم سے اپنی مختصر سی زندگی کے لئے امان مانگتے ہیں۔ ہم ہرگز مستحق نہیں ہیں کہ ہمیں کسی رہنما کی خیرہ کن ذہانت، کسی عقیدے کی حقانیت یا کسی طبقے کی بالادستی کی بھینٹ چڑھایا جائے۔ عالمی سطح پر تفرقے، تعصب اور غیر رواداری کی قوتوں کے زور پکڑنے سے ایک خوفناک نتیجہ یہ برآمد ہو گا کہ اندرون ملک ناانصافی اور زورآوری کی قوتیں مضبوط ہوں گی۔ بیرونی دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کو اچھالا جائے گا لیکن احتجاج کی آڑ میں مقامی سطح پر امتیاز اور تفرقے کے بیانیے کو مضبوط کیا جائے گا۔ حقیقی امتحان یہی ہے کہ دور دیس میں ہونے والی غلطیوں کو مقامی ظلم کا جواز بننے سے روکا جائے۔

ایک مثال لیتے ہیں۔ برادرم حامد میر نے ایک بلیغ تحریر سے ثابت کیا ہے کہ وہ لال مسجد میں قوت کے استعمال کے مخالف تھے لیکن سابق صدر پرویز مشرف ان پر اس کارروائی کی ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں۔ حامد میر کے بارے میں کچھ نکات بالکل واضح ہیں۔ حامد میر اپنے پیشہ ورانہ صحافتی فرائض کی ادائی میں کسی دباو¿ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ ایک کٹر قرم پرست ہیں۔ ان کی وطن دوستی پر کوئی سوالیہ نشان نہیں۔ حامد سیاسی لحاظ سے عملیت پسند ہیں۔ چنانچہ پرویز مشرف کے الزامات کی حیثیت عذر لنگ سے زیادہ نہیں۔ حامد میر سے ہمارے شکوے کی حدود لال مسجد سے کچھ وسیع تر ہیں۔ ہماری ریاست نے کئی عشرے قبل مذہبی تنگ نظری، برخود غلط قوم پرستی اور عالمی رستاخیز میں جانبداری کا بیانیہ اپنایا۔ اس سے ملک میں ریاستی اداروں اور ایک مخصوص سیاسی نقطہ نظر میں گٹھ جوڑ ہوا۔ شدت پسندی اور دہشت گردی نے اسی بندوبست کی آڑ میں ہماری زمین پر پنجے گاڑے۔ ہم سرکاری طور پر شدت پسندی کے وجود سے صاف انکار کرتے تھے اور درون خانہ اسے قومی مفاد کا تقاضا بتاتے تھے۔ حامد میر کے تاریخی موقف میں یہاں پانی مرتا ہے۔ حامد میر نے دہشت کے درو بست کی عذر خواہی کی۔ ہمیں افغان اور پاکستانی طالبان کا فرق سمجھایا۔ دہشت گردی کو ڈرون حملوں کا ردعمل بتایا۔ اردو صحافت میں لبرل فاشسٹ کی اصطلاح حامد میر کی دین ہے۔ دنیا کی کونسی ریاست اپنے زیر انتظام علاقے کو قومی فوج کے لئے ورائے رسائی قرار دے سکتی ہے۔ حامد میر فرماتے تھے کہ قبائلی علاقوں میں فوج نہیں بھیجنی چاہیے۔ صرف لال مسجد پر موقوف نہیں، حامد میر نے جون 2014 سے قبل کبھی دہشت گردوں کے خلاف ریاستی قوت کے استعمال کی حمایت نہیں کی۔ 2007 کے نصف اول میں لال مسجد کا منظر کیا تھا؟ یہاں موجود افراد نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کیا۔ ہمسایہ ملک کی خواتین کو اغوا کیا۔ پرامن شہریوں کی زندگی میں مجرمانہ مداخلت کی۔ اسلحہ سمیت قلعہ بند ہوئے۔ لیفٹنٹ کرنل سمیت فوجی جوانوں کو شہید کیا۔ کئی روز تک اجازت کے باوجود بڑی تعداد میں طالبات کو مسجد سے باہر نہیں آنے دیا۔ مسجد میں موجود نامعلوم افراد کے لیے محفوظ راستہ مانگا گیا. لال مسجد کارروائی سے اختلاف کا نقطہ حامد میر یا پرویز مشرف کی انفرادی ذمہ داری نہیں، قوم کو غیر شفاف بیانیے کا یرغمالی بنانا تھا۔ اب معاملات آگے نکل گئے ہیں۔ اب صرف مقامی سنیاسی عامل نیچی پرواز پر نہیں، تفرقے کے بین البراعظمی تیر بھی فضاو¿ں میں اڑ رہے ہیں۔ یہ ایک نازک امتحان ہے۔ زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments