پنجاب اسمبلی …. اختیار سے بے اختیاری تک


\"husnainریڈیو FM-103 اور روزنامہ مشرق کے لیے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کی خبر نگاری کے لیے پنجاب اسمبلی اکثر جانا پڑتا ہے۔ دوران اجلاس نت نئے تجربات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ عوامی نمائندوں کے بھاشن سننے کا موقع ملتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے بظاہر کہلائے جانے والے عوامی نمائندے اپنی خود ساختہ طاقت کی کس بے بسی پر پہنچ چکے ہیں بظاہر طاقت ور نظر آنے والی مقننہ کس قدر بے بس ہے۔ جمہوریت کے نام پر کیسا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ عوام جن کو چن کر ایوان میں بھیجتے ہیں وہ درحقیقت کس قدر بااختیار ہیں۔ طاقت کس کے پاس ہے۔ اور اختیارات نہ ہونے، طاقت نہ ہونے کے باوجود یہ لوگ کیوں اس ایوان میں بیٹھے ہیں صرف مراعات لینے کے لیے، پروٹوکول کا مزہ اڑانے کے لیے۔ چند واقعات کا تاریخ کے قرطاس پر لانابے حد ضروری ہے۔ پنجاب اسمبلی کا موجودہ اٹھارہواں اجلاس قریباً دو ہفتے سے جاری ہے۔ ایک تو اجلاس کبھی بھی مقررہ وقت پر شروع ہی نہیں ہوتا۔ روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے۔ جس بحیثیت قوم ہماری وقت کی پابندی کا اندازہ ہوتا ہے یہ رویہ صرف ایوان پنجاب اسمبلی تک ہی محدود نہیں۔ اس کا پھیلاﺅ معاشرے کے ہر طبقے میں ہے۔ اس روز بھی اجلاس میں خاصی تاخیر تھی۔ ہم چند صحافی پنجاب اسمبلی کے احاطے میں گپ شپ کر رہے تھے۔ اچانک پنجاب حکومت کے ایک بے باک رکن صوبائی اسمبلی باہر آئے وہ ایک سرکاری عہدے پر براجمان ہیں اور برقی ذرائع ابلاغ پر اپنی صوبائی حکومت کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں یہاں ان کا نام اس لیے نہیں لکھ رہے کیونکہ انہوں نے ہم سے آف دی ریکارڈ بات کی۔

ہمارے ایک صحافی دوست نے ان سے مذاق سے پوچھا آپ وزارت کے اختیارات تو پورے انجوائے کر رہے ہیں مگر ابھی تک وزارت کا حلف نہیں اٹھا سکے۔ جس پر موصوف یک دم پھٹ پڑے اور بولے میں ایسی وزارت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ جس میں اختیار نام کی کوئی چیز نہیں۔ انہوں نے سامنے آتے ہوئے اپنی حکومت کے ایک وزیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ دیکھیں ایک وزیر آ رہے ہیں۔ ان کے پاس طاقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر یہ اپنے چپڑاسی سے کہیں ہمیں چائے پلا ﺅ اور وہ انکار کر دے ۔ ان میں اتنی طاقت نہیں کہ اس چپڑاسی کو برخاست کر سکیں۔ پھر موصوف نے نواب زادہ نصراللہ خان کی سیاسی اور جمہوریت پر خدمات پر ایک بھاشن دیا جب وہ بھاشن دے چکے میں نے سوال کیا۔ آپ کی حکومت اورنج لائن ٹرین کے منصوبے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ گرا رہی ہے۔ ثقافتی ورثے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ نواب زادہ کی رہائش گاہ کو بھی گرایا جا رہا ہے۔آپ نے یہ بات اپنے وزیراعلیٰ کے سامنے نہیں کی جس پر موصوف نے جواب دیا۔ اگر وہ میری باتوں پر عمل کرتے تو ان پر یہ وقت نہ آتا۔ یہ کہہ کر وہ یہ جا اور وہ جا۔ اجلاس کے دوران مسلم لیگ قاف کی محترمہ خدیجہ عمر صاحبہ نے یو سی 141 اٹاری سروہ کی ایک سڑک کے حوالے سے ایک سوال 20مئی 2014ءکو اسمبلی کو جمع کرایا۔ متعلقہ محکمے کو اس سوال کی ترسیل 30جون 2014ءکو کر دی گئی۔ اس سوال کا جواب اسمبلی کے اجلاس میں 8فروری2016ءکو دیا گیا۔ یعنی صرف ایک سڑک کی تعمیر کے حوالے سے اگر کسی ارکان نے کوئی سوال پوچھا ہے تو اس کا جواب دینے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں عوامی مفادات کا تحفظ کرنے والی اسمبلی کی رفتار کس قدر تیز ہے۔ اس طرح ایک رکن اسمبلی الحاج محمد الیاس چنوٹی نے چنوٹ جھنگ روڈ کے منصوبے کے حوالے سے ایوان کو بتایاکس طرح بیوروکریسی نے ان کے تجویز کردہ منصوبے کو مستردکر دیا اور اپنی پسند کے مقامات پر سے سڑک بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔ سردار شہاب الدین نے معزز سپیکر پنجاب اسمبلی سے کہا آپ نے فلاں منصوبے کی جلد از تکمیل کے لیے رولنگ دی تھی مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس رولنگ پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

دوران اجلاس کئی بار ایسا دیکھنے میں آیا کہ سپیکر صاحب نے مختلف محکموں کے سکریٹریوں کو طلب کیا وہ ایوان میں پیش ہو کر بات کا جواب دیں مگر سیکرٹری صاحب اکثر میٹنگ کا بہانہ کرکے اجلاس میں پیش نہیں ہوتے۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیںکہ طاقت کی بے بسی کس انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے۔ اگر پارلیمان کے پاس اصل طاقت نہیں ہے تو پھر پارلیمان کیوں موجود ہے۔ ہر اجلاس جو میرے اور آپ کے پیسوں سے ہوتا ہے۔ ہمارے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام کیوں ہے۔ ہمارے مطالبات تسلیم نہیں۔ نجکاری کا بھوت سر چڑھ کر قہقہے لگا رہا ہے۔ میٹروبس اور اورنج لائن جیسے منصوبے فرد واحد کی ذہنی تخلیق ہیں۔ پنجاب حکومت نے 611عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے ختم کرکے ان کا پیسہ اورنج لائن ٹرین پر لگا دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ان پر کوئی بحث نہیں ہوتی نہ ہی ایوان سے منظوری لی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حزب اختلاف سڑکوں پر آ گئی ہے۔

چلتے چلتے ایک واقعہ اور سن لیں ۔حکمران جماعت کی ایک خاتون ایم پی اے جو پہلے پرویز الٰہی حکومت میں شامل تھیں اب پھر مسلم لیگ نواز میں آ چکی ہیں۔یوم کشمیر والے دن خاصی متحرک تھیں۔ میں اور میری شریک حیات (جو صحافی ہیں) اسمبلی کے احاطے میں کھڑے تھے۔ ہمیں کہنے لگی۔ میں نے آج نریندر مودی کا پتلا جلانا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ڈیڑھ ماہ قبل وہ آپ کے لیڈروزیراعظم کے خاص مہمان تھے۔ آپ نے تب ایسا کیوں نہیں کیا۔ جس پر انہوں نے کوئی موثر جواب نہ دیا۔

غرض یہ کہ اراکین اسمبلی غیرنصابی سرگرمیوں میں اس لیے زیادہ متحرک ہیں ان کے پاس ایوان میں کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ طاقت کے اصل مراکز کہیں اور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments