ٹرمپ کے عرب دوست اور مشرق وسطیٰ میں نئی محاذ آرائی



\"\" اس ہفتے کے شروع میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد بالآخر مسلمان ملکوں کے لیڈر نئے امریکی صدر کی حمایت میں کمر بستہ ہو گئے ہیں۔ اور انہوں نے یکے بعد دیگرے یہ واضح کرنا شروع کیا ہے کہ گزشتہ جمعہ کو صدر ٹرمپ نے 7 مسلمان ملکوں کے باشندوں پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی کا جو اعلان کیا تھا، وہ ان کا حق تھا اور کوئی بھی خود مختار ملک ایسا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ انہی خیالات کو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے دہراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکہ ایک خود مختار ملک ہے اور اسے اپنے امیگریشن قواعد کا تعین کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس سے پہلے سعودی عرب کے وزیر تیل اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں بیان جاری کر چکے تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی جگہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر ٹرمپ نے امریکہ کی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ فیصلہ کیا ہے تو اس پر اعتراض کی کیا بات ہے۔ یوں بھی قصور امریکہ کے صدر یا ان کے حکم نامہ کا نہیں ہے بلکہ جن ملکوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان کے ہاں انتظامی مسائل موجود ہیں۔ اگر وہ اپنے حالات درست کر لیں تو یہ عبوری پابندی ختم ہو سکتی ہے۔ اس طرح اہم مسلمان ملکوں کے نمائندوں نے امریکی اور مغربی رائے عامہ کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا حکم مذہبی تعصب پر مبنی ہے اور یہ انسانوں کی توہین کے مترادف ہے۔

امریکہ میں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کیر CAIR نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم نامہ کو مذہبی امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا اعلان بھی کیا ہے۔ قانونی اور آئینی ماہرین اس حوالے سے مختلف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پابندی چونکہ چند ملکوں پر لگائی گئی ہے اور وہاں اتفاق سے مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں، اس لئے صدر ٹرمپ کا حکم نامہ آئینی حدود کے اندر ہے اور عدالتیں اسے غیر آئینی قرار نہیں دے سکتیں۔ اس کے برعکس بہت سے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس حکم کو اگر ٹرمپ کی انتخابی تقریروں اور یہ حکم جاری کرتے ہوئے ان کی گفتگو کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس بارے میں شبہ نہیں رہ جاتا کہ یہ اقدام مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنے کےلئے کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پابندی کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان ملکوں میں رہنے والے عیسائی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی درخواستوں پر ترجیحی بنیادوں پر غور کیا جائے گا۔ ماہرین کے نزدیک اس قسم کی گفتگو صدر کے متعصبانہ اور امتیازی رویہ کی مظہر ہے اور عدالت میں ان کے وکیلوں کو یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کہ صدر نے یہ حکم محض امریکی شہریوں کے تحفظ اور ملکی سلامتی کے نقطہ نظر سے کیا ہے۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود تمام قانونی ماہرین اور سماجی و سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فیصلہ بنیادی امریکی اقدار کے خلاف ہے۔ اس قسم کے فیصلوں سے امریکہ کی اخلاقی اور سفارتی حیثیت متاثر ہوگی۔ امریکہ اور یورپ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں پر پابندی کے فیصلہ کے خلاف لاکھوں لوگوں کے مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران شرکا کے جوش و خروش اورغصہ کی وجہ سے متعدد مقامات پر توڑ پھوڑ کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔

امریکہ اور یورپ کے متعدد ملکوں میں مظاہروں اور کئی یورپی لیڈروں کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلہ کی مخالفت کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں نئے امریکی صدر کے حکم پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ اپنے سفید فام حلقہ انتخاب کو خوش کرنے کےلئے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دہشت گردی کا الزام مسلمانوں اور اسلام پر عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ موجودہ دہشت گردی کی صورتحال میں امریکی پالیسیوں اور بعض ممالک اور گروہوں کی سرپرستی کا عمل دخل بھی ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کے ان احساسات کے باوجود گزشتہ ہفتہ کے دوران یہ محسوس کیا گیا تھا کہ اسلامی دنیا کے رہنما نہ تو اپنے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے ہیں اور نہ ہی اسلام اور مسلمانوں پر امریکی صدر کے حملوں کا جواب دینے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ اس دوران صرف ایران نے امریکی فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اس وقت تک امریکیوں کو ایرانی ویزا جاری نہ کرنے کا اعلان کیا جب تک امریکہ، ایران کے شہریوں کے خلاف اس قسم کی یک طرفہ اور غیر منصفانہ پابندی عائد رکھے گا۔ البتہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی ائر پورٹس پر پہنچنے والے پابندی شدہ سات ملکوں کے شہریوں کو داخل ہونے سے روکنے کے مناظر کے بعد ایک ٹوئٹ پیغام میں لکھا تھا کہ ایران اس قسم کے ظالمانہ طرزعمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ جن امریکی شہریوں کے پاس ایران کے ویزے ہیں، انہیں ایران میں خیر مقدم کہا جائے گا۔ ایران کے علاوہ اسلامی دنیا کے لیڈروں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوعان عام طور سے مسلمانوں سے متعلق ہر معاملہ میں بڑھ چڑھ کر بولنے کی شہرت رکھتے ہیں لیکن ٹرمپ کے ظالمانہ حکم نامہ پر انہوں نے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا۔ تین روز بعد البتہ ترک وزارت خارجہ نے ایک نہایت کمزور بیان میں ٹرمپ سے یہ فیصلہ تبدیل کرنے کی اپیل کی۔

57 مسلمان ملکوں کی نمائندہ تنظیم منتطمہ التعاون الاسلامی OIC کے ترجمان نے بھی بہت سوچ بچار کے بعد اس ہفتہ کے شروع میں ٹرمپ کے فیصلہ کی مخالفت میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح انتہا پسندوں کو تقویت حاصل ہوگی اور وہ مزید مضبوط ہو سکیں گے۔ شاہ سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتہ کے شروع میں ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اس طرح ٹرمپ نے عالمی لیڈروں میں سے پہلی بار کسی مسلمان رہنما سے بات چیت کی۔ اس گفتگو کے بعد سعودی عرب کے وزیر تیل خالد الفالح نے نہ صرف بعض مسلمان ملکوں کے باشندوں پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کی حمایت کی بلکہ تیل کی صنعت کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبوں کو حوصلہ افزا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب سے تیل کی درآمد بند کرنے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر کبھی عمل نہیں ہوگا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید پروان چڑھیں گے۔ انہوں نے ماحولیاتی بہتری کے نام پر اختیار کی گئی سابق صدر باراک اوباما کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی قیادت میں اس صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ خالد الفالح نے بتایا کہ سعودی عرب نے امریکہ میں تیل و پیٹرولیم کے شعبہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اب اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زیاد النہیان نے سعودی وزیر سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جن ملکوں پر پابندی عائد کی ہے، اس کےلئے یہ ممالک خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ان کے ہاں انتظامی ڈھانچہ کمزور اور ناقص ہے۔ اس لئے امریکہ کو اپنی حفاظت کےلئے ان ملکوں کے شہریوں پر عارضی پابندی لگانا پڑی ہے۔ اگر یہ ممالک اپنے حالات کو درست کر لیں گے تو امریکہ کا رویہ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ کل ابوظبی میں روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے شیخ عبداللہ النہیان نے کہا کہ یہ پابندی چند ملکوں پر عائد ہے، یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل تو یہ ہے کہ ٹرمپ انتطامیہ خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ یہ اقدام مسلمانوں کے خلاف نہیں کیا گیا تو ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پابندی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صدارتی حکم مسلمان دشمنی پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے کثیر آبادی والے کسی مسلمان ملک پر پابندی نہیں لگائی۔ دراصل بہت ہی قلیل تعداد میں مسلمان اس پابندی سے متاثر ہوں گے۔

مشرق وسطیٰ کے دو اہم ملکوں سے آنے والے ان بیانات کے فوری بعد پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی ان کی تائید میں امریکی فیصلہ کی توثیق کرنا ضروری سمجھا اور کہا کہ امیگریشن کے بارے میں فیصلہ کرنا ہر ملک کا حق ہے۔ امریکی صدر نے یہی حق استعمال کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کا یہ بیان البتہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بیان سے مختلف ہے جنہوں نے اس ہفتہ کے شروع میں اس پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ پروپیگنڈا کی جنگ جیت سکیں گے۔ اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے امریکی فیصلہ کی دوٹوک حمایت کے بعد پاکستان کی حکومت کے پاس بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یوں ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر سنگین مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اسلام آباد کے پالیسی ساز فیصلے کرنے کےلئے بعض ممالک کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے فیصلے سعودی عرب کے خواہشات اور ضرورتوں کے محتاج ہیں حالانکہ پاکستان کو اپنے مسائل سے نمٹنے کےلئے زیادہ خود مختاری سے اپنے مفادات کی بنیادی پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

اب یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے سات مسلمان ملکوں پر پابندی کا حکم جاری کرکے دراصل ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف وہ ان ووٹروں کو جنہیں وہ مسلمانوں کے خلاف باتیں کرکے اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق مسلمانوں کا داخلہ امریکہ میں بند کر دیا ہے۔ حالانکہ ان سات ملکوں کا کوئی باشندہ امریکہ میں کبھی دہشت گردی میں ملوث نہیں رہا۔ اس کے برعکس 9/11 کے حملوں میں سعودی عرب کے 15 باشندے شامل تھے۔ البتہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں سعودی عرب ، امریکہ کا خصوصی اور قابل اعتبار حلیف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس ملک کے ساتھ اختلاف پیدا کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ ایران کو دہشت گردی سے متاثر ملکوں کی فہرست میں شامل کرکے یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے ستھ اشتراک عمل جاری رکھے گا اور ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی لئے شام، عراق اور یمن کے شہریوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ کیونکہ ان تینوں ملکوں میں ایرانی حمایت اور تعاون سے مسلح گروہ متحرک ہیں جو علاقے میں استحکام کے امریکی تصور اور سعودی تسلط کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات ملکوں پر پابندی کا فیصلہ سیاسی اقدام ہے۔ اس کا نہ تو امریکہ کی ویزا پالیسی یا سلامتی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اسے اسلام یا مسلمانوں کے خلاف اقدام کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف محاذ آرائی کا منصوبہ ضرور ہے۔

اب امریکہ نے ایران کو ”نوٹس“ پر رکھنے کی دھمکی دی ہے۔ اگرچہ اس اصطلاح سے بیشتر مبصر ناآشنا ہیں لیکن اس کا آسان الفاظ میں یہی مطلب ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور سعودی عرب کے تعاون سے ایرانی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی پالیسی اختیار کرے گا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس نئی امریکی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔ گویا پاکستان نے سعودی عرب کے توسط سے امریکہ کی تابعداری قبول کر لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments