فاٹا: کیا انضمام سے مداوا ہو جائے گا؟


\"\"بالآخر ایک سو چالیس سال تک علاقہ غیر، یاغستان، فاٹا، آزاد قبائل اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہلائے جانے والے خطے کو جدید ریاستی اور قانونی ضابطے میں ڈالنے کی ضرورت عوامی نمائندوں اور اسٹیبلشمنٹ کو پڑ ہی گئی۔ اب تک اس کرم فرمائی سے کیوں محروم کئے رکھا گیا اس پر شاید کسی نے سوال اُٹھایا ہو۔ ایک نامہربان کافر نوآبادکار نے فاٹا کو کم و بیش 46 سال تک ایف سی آر کے شرمناک قانون کے تحت رکھا، لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے اجتماعی سزائیں دی گئیں۔ ایک شخص کی بغاوت کی پاداش میں گاؤں اور قصبے جلائے گئے، گھر اور قلعے مسمار ہوئے، پولیٹیکل ایجنٹ کو آقائے مطلق بنا کر لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ اقبال نے جس مرد کوہستانی کی کو سراہا تھا، جبر اور استحصال نے اس کی روح کو تو مسخ کیا ہی مگر وہ کرداری نقائص میں بھی اتنا آگے نکلتا چلا گیا کہ دنیا جہان میں اپنے ہی خون کا پیاسا بنا۔ وہ اسلحے سے پہلے بھی محبت کرتا تھا، ہتھیار تک کاندھے پر لٹکائے رکھتا اور ایک دن اس کے استعمال کا ہوتا۔ وہ دن کسی ملی اور قومی دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والا دن ہوتا تھا۔

ایجنسیاں بنانے کا پائلٹ ٹیسٹ 1878 میں ہوا جب خیبر کی جیزائلچی (بعد میں خیبر رائفلز) کے قبائلی لشکر کو ڈیورنڈ لائن کی عملداری کے لئے بنایا گیا۔ ہندوکش کے پشتونوں کو افغانستان کے پشتونوں کے روبرو لا کھڑا کرنے کا یہ سامراجی گُر کافی حد تک کامیاب رہا، جس نے افغانستان کو اگلے ڈیڑھ سو سال تک (آج تک) سٹریٹیجک دفاعی خطے تک محدود کیا۔ نوآبادیاتی دور میں یہ خطہ روس اور برٹش انڈیا کی براہ رست مداخلت کا شکار رہا، اور آزادی ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان نے ان روایتی نوآبادکاروں کی سُنت کو زندہ کئے رکھا۔ قصہ کوتاہ، انگریزوں کے سامراجی دفاعی مینجمنٹ کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے 1878 میں خیبر کے قبائل کو وظیفوں، الاونسز اور لنگی کے نام پر نقد رقوم دینے کا رواج شروع ہوا۔ دوسری اینگلو افغان جنگ میں یہ حکمت عملی کافی حد تک کارگر ثابت ہوئی اور ہندوستان سے افغانستان میں داخل ہونے والے تمام درے اسی نظام کے توسط سے محفوظ بنائے گئے۔ قبائل کے گنے چنے اور پروردہ افراد کے ساتھ معاہدے کئے گئے۔ یہاں سے قبائلی لشکر اور لیویز فورس وجود میں آئی۔ عوامی جرگہ رفتہ رفتہ سرکاری جرگے میں ڈھلنے لگا، پشتون ولی کے ضابطے کے مطابق ایک عام شخص کو جوابدہ ملک، خان اور سردار پولیٹیکل ایجنٹ کے نمک خوار اور وظیفہ خور بن گئے، ایف سی آر کے کالے قانون کو لاگو کرنے میں یہ مستعد رہے۔

تشدد، مارپیٹ، قتل و غارت گری، اسلحہ سازی، منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان اور ناجائز طور طریقوں سے دولت کی کمائی نے سماجی سطح پر جواز حاصل کیا۔ سیاسی سرگرمیوں پر مطلق پابندی، متبادل تعلیمی اور معاشی پالیسیوں کی عدم موجودگی نے فاٹا کی سات ایجنسیوں کو مذہبی عسکریت کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا لیا۔ 9/11 کے بعد یہاں پر بین الاقوامی سطح کی عسکری تنظیموں اور پاکستانی طالبان کو یہاں ازسر نو منظم ہونے کا خوب موقع ملا۔ معروف تجزیہ نگار احمد رشید اپنی کتاب (Descent into Choas) میں لکھتے ہیں کہ لندن، میڈرڈ، بالی، جرمنی، ڈنمارک، اسلام آباد اور کابل میں کئے گئے دھماکوں کی منصوبہ بندی یہیں سے ہوئی تھی۔ اسی دوران جنگی معیشت نے قبائلی سماج کی اندر طاقت کے توازن کو بری طرح سے متاثر کیا، جس نے یہاں کے ثقافتی اقدار اور اداروں کو غیر متعلق بنا دیا۔ نوآبادیاتی دور میں قبائلی معاشرے کے ثقافتی ڈھانچے کو اپنے حق میں تبدیل کرانے کے لئے موقع پرست اور لالچی لوگوں کو بطور مشران متعارف کرایا گیا۔ سیاسی رشوتیں، مراعات، راہداریوں کے کلچر کو خوب پروان چھڑایا گیا۔

 لیکن ان کے رخصت ہو جانے کے بعد اس عضوئے پریشان کی دیکھ بھال ایک مہربان مسلمان ریاست کے دست شفقت میں ہونا تھی۔ امت کا راگ الاپنے والی ریاست کو چلانے والے اس حقیقت سے آشنا تھے کہ امت عربی زبان کا لفظ ہے، اور یہ لفظ اُم سے مشتق ہے، ہر آٹھویں پاس پاکستانی جانتا اور جانتی ہے کہ اُم عربی میں ماں کو کہتے ہیں۔ ماں معزور اور نحیف بچے کی دیکھ بال کو صحت مند بچے کی دیکھ بھال پر ترجیح دیتی ہے۔ اس کیس میں ماں سوتیلی تھی، ممتا میں کمی تھی، یا کوئی اور نفسیاتی عارضے سے دوچار تھی، کوئی تو وجہ تھی کہ برٹش انڈیا سے ترکے میں ملنے والا یہ خطہ من و عن اسی قانونی اور انتظامی ضابطے میں رکھا گیا جو انگریز استعار چھوڑ گئے تھے۔ اکبر ایس احمد کی معروف کتاب(Thistle and the Drones) اسی معروضی حقیقت کو بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ فی الوقت دہشت گردی کی جنگ دنیا کے مضبوط ترین ٹیکنالوجیکل قوم اور پسماندہ ترین قبائل کے درمیان لڑی جارہی ہے، فاٹا کے عوام اکیسویں صدی کی اس سفاک اور یکطرفہ لڑائی میں سب سے زیادہ قتل کئے گئے ہیں، بے گھر ہوئے، معاشی اور ثقافتی طور پر تباہی سے دوچار کئے گئے۔ جنگ سے ملنے والی خون بہا کی قیمت اگرچہ اربوں ڈالر تھی، لیکن دوبارہ آبادکاری، یا اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر کام منصوبے دیکھنے میں نہ آسکے۔

اگرچہ آخری ایام کے انگریز مستشرقین میں سے چند فاٹا کے عوام کے ساتھ رکھے گئے انگریز سامراج کے اس چلن پر تو شرمسار ہیں لیکن پاکستانی سول اور عسکری قیادت نے شاید ابھی تک پانچ ملین انسانوں کو اس چڑیا گھر میں رکھنے کے حوالے سے کوئی پشیمانی ظاہر نہیں کی۔ آج سوال یہ ہے کہ ستر سال تک اس خطے کو یوں ہی سامراجی ضابطوں کے طرز پر چلانے میں کیا مصلحت پوشیدہ تھی ؟ آزادی کے بعد یہ علاقہ مقامی اور ملکی سطح کی بدنام ذمانہ پیشہ ور مجرموں کی آماجگاہ کیوں بنی رہی، یہاں پر اسلحے اور منشیات کے آزادانہ استعمال اور خرید و فروخت کو کیوں کسی قانونی ضابطے میں نہیں لایا گیا؟ آج اگر ایک اوسط قبائلی ریاستی قانون کی اطلاق سے ڈرتا ہے تو اس کا خوف تو یہی ہے کہ اُن کے کندھے سے لٹکی ہوئی بندوق اب اس سے چھن جائے گی، یا لائسنس سمیت گھر کی دیوار کے ساتھ لٹکی رہے گی، مردانگی کے دیوتا کی بلی جڑھنے والے نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ایک ڈیسک پر بیٹھ کر صنفی برابری کی درس یاد کیا کریں گے، انہیں اپنی لڑکی یا عورت کو مارنے کے لئے کسی ادارے کو جواب دہ ہونا ہوگا، وغیرہ۔ ایسے خوف ہیں جو تاریخی عمل کے نتیجے میں کاٹ دوڑنے والی سماجی حقیقتیں بن گئی ہیں۔

علاقہ غیر کہلائے جانے والے اس علاقے میں اصلاحات کرنے کی کاوشیں بھٹو حکومت اور بینظیر اور زرداری کے ادوار میں دیکھنے کو ملیں، لیکن کوئی بھی اقدام بیگانگیت اور جغرافیائی جبر کے اس کالے جادو کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ فاٹا کا مسئلہ بنیادی ساخت سے متعلق ہے۔ جب تک نوآبادیاتی ساخت اور انداز فکر کی بیخ کنی نہیں ہوتی، فاٹا اور اس سے منسلک علاقوں میں امن، آتشی، معاشی اور سماجی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

اب چونکہ فاٹا کی تقدیر کا درخشندہ ستارہ ایک بار پھر چمک اُٹھا ہے۔ ارباب اقتدار اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ زیادہ تر متحارب سیاسی تنظیمیں جو عموماً کسی بھی مسئلے پر یکجا نہیں ہوتیں فاٹا کے انضمام کے حق میں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جو اس خطے میں بااثر پشتون قوم پرست تنظیم ہے اسی موقف کے ساتھ میدان عمل میں اتری ہے۔ جب کہ اس موقف سے اختلاف رکھنے والے سیاسی جماعت خصوصاً پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جمیعت علما اسلام فاٹا میں متوقع تبدیلی کو عوامی رائے سے منسوب کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ فاٹا کو ایک باقاعدہ صوبے کا درجہ دینے کی تجویز کے ساتھ ساتھ اس پر عوامی سطح کے مکالمے اور رائے دہی کو اہم سمجھتے ہیں۔ فریق اول خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت انضمام کی مخالفت کرنے پر مذکورہ پارٹیوں کو شدید انداز میں ہدف تنقید بناتی ہے اور اس عمل کو فاٹا کی تقدیر کے ساتھ کھیلواڑ سے منسوب کرتے ہیں۔ دوسری طرف فریق ثانی عجلت میں انضمام کے عمل کو غیر منطقی تصور کرتی ہے۔ کل کے جرگے میں اس امر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

فی الوقت سوشل میڈیا پر دونوں فریقین کے سرگرم عمل کارکنوں نے آستینیں چڑھا لی ہیں، دلائل کے ترکش خالی ہونے میں نہیں آ رہے۔ ایک طرف جرگے کی ساکھ اور اس میں شرکت کی اہلیت پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں تو دوسرا فریق اس کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں۔ بہر صورت دونوں پشتون قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس مسئلے پر جو اختلاف پیدا ہوا ہے وہ شاید پشتون قومی سوال کو مزید الجھانے کا سبب بنے۔ یاد رہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا وجود میں آنا اور نیپ سے علیحدہ ہونا بھی ایک ایسے ہی تاریخی انضمام کی وجہ سے ہوا جس نے بلوچستان میں پشتونوں کی شناخت، تناسب اور سیاسی نمائندگی کو ایک شدید انداز میں متاثر کیاہے۔ پشتونوں کو چار انتظامی اکائیوں میں تقسیم کئے جانے اور انکی عددی برتری کے اثر کو زائل کرنے کے عمل کو چیلنج کرنا، صوبائی خودمختاری کی منزل تک پہنچنا اگرچہ دونوں قوم پرست تنظیموں کے مشترکہ اہداف ہیں اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی مشترک ہیں۔ لیکن جُز وقتی سیاسی پوانٹ سکورنگ ان کے درمیان فاصلے مزید بڑھا دے گی۔ وفاق کے ساتھ ایک نئے عمرانی معاہدے کا خواب ایک خواب ہی رہے گا جب تک محروم اور نظر انداز قومیتوں کی سیاسی پارٹیاں اسی طرح بٹی رہیں گی۔

خاکسار کی رائے بس اتنی سی ہے کہ فاٹا کی تقدیر کا فیصلہ عجلت میں کرنے سے شاید اس خطے کے مسائل کا مداوا نہ ہو سکے۔ جس انداز سے اس خطے کو 140 سال تک رکھا گیا۔ یہاں پر اکیسویں صدی کی سب سے خطرناک جنگ لڑی گئی۔ اب یہاں پر اکثر لوگ جنگ زدہ ہیں، بے گھر ہیں، یہاں پر ہزاروں بچے یتیم ہوئے ہیں، معاشی انفراسٹرکچر اور سماجی فیبرک بری طرح سے تباہ ہوا ہے، جنگی معیشت اور قبائلی طرز زندگی سے جڑے ہوئے مسائل کی نوعیت پیچیدہ بھی ہے اور ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف بھی۔ انہیں جس شدت سے طویل عرصے کے لئے نظر انداز کیا گیا اب کم ازکم اپنے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ہی محکومی اور محرومی کے دلدل سے انہیں نکالا جاسکتا ہے۔ جب کہ انضمام میں ان کے حقوق، نمائندگی اور وسائل کے روندھے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ البتہ یہ امکان پھر بھی موجود ہے کہ ایک خودمختار علیحدہ صوبے کے لئے منظم سیاسی تحریکیں وجود میں آئیں جو یہاں کی عوامی امنگوں، خواہشات اور ضروریات کے مطابق اس خطے کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

زخم خوردہ اور سیاسی عمل کے نتیجے میں پیچھے رکھے گئے خطے کا مداوا کیسے ہو یہ اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ غالب کا ایک فارسی شعر شاید اس مظہر کو بیان کرنے میں مدد کرسکے۔

جنت نہ کند چارہٰ افسردگی دل

تعمیر بہ اندازہ ویرانیٰ ما نیست (غالب)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments