ملک کو لبرل نہیں بلکہ قدامت پرست ہی ترقی دے سکتے ہیں


\"\"

ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی ملک اور معاشرے کو بچانے میں اہم ترین کردار اس خطے کے قدامت پرست حلقے ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر آج کے جدید دور میں جب کہ لبرلز کے گروہ انٹرنیٹ پر آزادی اظہار، مذہبی آزادی، شخصی آزادی، انسانی حقوق، غلامی کے خاتمے اور عقل و منطق کے استعمال وغیرہ جیسی خرافات کی ترویج میں مصروف ہیں اور ہماری نئی نسل کے ذہن تباہ کر رہے ہیں، تو دوسری طرف مغربی کلچر ٹی وی اور فلموں کی صورت میں ہمارے گھروں پر قبضے کر چکا ہے، اور تیسری طرف ہمارے دیسی کھانوں اور روایتی ڈھابوں کی بجائے میکڈانلڈ اور پزا ہٹ وغیرہ جیسے مغربی کھانے ہمارے نوجوانوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر چکے ہیں۔ ایسے میں قدامت پرست حلقے ہی ان سب خرافات کے آگے بند باندھے کھڑے ہیں۔

قدامت پرست حلقے کسی معاشرے کو ایک جگہ جامد رکھنے پر اپنی بھرپور توانائی صرف کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ بیرونی اثرات کے تحت اپنا کلچر اور اپنی عظمت مت کھو بیٹھے اور اپنی حالت ایسے نہ تبدیل کر دے کہ ترقی کر کے پہچانا ہی نہ جائے۔ اپنے وطن کے دشمنوں پر نگاہ رکھنے میں بھی قدامت پرست حلقہ سب سے نمایاں دکھائی دیتا ہے ورنہ لبرلوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو وہ تمام ملکی ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا ڈول ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہمسائے اعلی اخلاقی محاسن کی بجائے چانکیاائی اصولوں پر اپنا ملک چلانے کے قائل ہوں تو ایسا کرنا تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس صورت میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ لبرل افراد یا تو عقل سے علاقہ نہیں رکھتے یا اگر وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تو وہ بک چکے ہیں اور دشمن کے ایجنٹ ہیں۔

چانکیائی دشمن کسی ملک کی صفوں میں غدار ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ غدار بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرتے ہیں۔ مثلاً تعلیمی اداروں میں طلبا کو عقل و دانش اور منطق کی تعلیم دینے کے نام پر نوجوان نسل کو اپنے بزرگوں کا نافرمان بنانے کے علاوہ ایسی سوچ کی داغ بیل ڈال دیتے ہیں کہ یہ نوجوان بزرگوں اور ریاست کے بیانیے پر یقین کرنے کی بجائے خود سے سیکھنے اور سمجھنے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ اس عمل سے قوم کو فکری، معاشی اور ٹیکنالوجی وغیرہ کی ترقی تو حاصل ہو جاتی ہے مگر یہ نوجوان اپنی سنہری اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو کہ اس نام نہاد ترقی کو نظر انداز کر کے ہی قائم رہ سکتی ہیں۔

دشمن کا ایک محاذ معاشی ہوتا ہے۔ اگر خوب غور سے دیکھا جائے تو دکھائی دے گا کہ کوئی نہ کوئی اقلیت ہی تجارت وغیرہ میں نہایت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ایسا خود بخود تو ہونا ممکن نہیں ہے کہ ایک محدود سی اقلیت ترقی کر جائے مگر اس سے کہیں زیادہ ذہین اور چاق و چوبند اکثریت ناکام رہے۔ اس لئے مستعد قدامت پرستوں کے لئے ہر اقلیت پر نگاہ رکھنا ضروری ہے اور قدامت پرست حلقے جب بھی دیکھیں کہ کوئی اقلیت معاشی یا علمی طاقت پکڑ رہی ہے تو اس کا سد باب کریں۔ ایسی فکری اور نسلی اقلیتیں معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ ایک اچھا معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں سب لوگ ایک ہی انداز سے سوچتے ہوں اور متحد رہیں۔

جب بھی قدامت پرست حلقے ان ملک دشمنوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو مذموم عزائم سے بزور قوت باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو لبرل حلقے اور بین الاقوامی دنیا انسانی حقوق کے نام پر ان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اپنے ملک سے محبت میں سچا ہو تو اسے ان بین الاقوامی غنڈوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کی سازش ناکام بنانی چاہیے خواہ اپنے وطن کی سربلندی کے لئے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ ملک کو انتشار سے بچانے اور معاشرے کی تباہی کا باعث بننے والے ان عناصر کی روک تھام کے لئے ان کو الگ آبادیاں بنا کر اکثریت کو ان سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ان کا کاروباری بائیکاٹ بھی کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اکثریت کی جیب سے ہی پیسہ نکلوا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکیں۔ بیرون ملک سے آنے والے افراد پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیے تاکہ وہ فکری کجروی کے بیج اس ملک میں نہ بو سکیں۔

ہمسایہ ممالک پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور جیسے ہی حالات اچھے ہوں تو ان پر حملہ کر کے ان کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہنا چاہیے۔ اس سے ملک کے دشمن بھی کم ہوتے ہیں، ملک کے رقبے میں بھِی اضافہ ہوتا ہے اور بین الاقوامی برادری میں ملک کی عزت اور دہشت بھی بڑھتی ہے اور وہ بیجا مخالفت کرنے اور اندرونی معاملات میں دخل دینے سے پہلے سو بار سوچتی ہے۔

اگر قدامت پرست حلقے اپنے ان سنہرے اصول پر عمل کرتے رہیں تو ملک بے تحاشا ترقی کرتا ہے اور عروج پاتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

آپ کو یقین نہیں آتا ہے تو دیکھ لیں کہ جرمنی کے ہٹلر، بھارت کے نریندر مودی اور امریکہ کے ڈانلڈ ٹرمپ ان قدامت پرستانہ پالیسیوں کے ذریعے اپنے اپنے ملک کو کیسے عروج سے دوچار کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments